کورونا وائرس، سنجید گی خدا را سنجید گی - ڈاکٹر ابراہیم مغل
Dr Ibrahim Mughal, column writer, Urdu, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan
30 اپریل 2021 (11:29) 2021-04-30
کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ، اس ما ہ کی ستا ئیس تا ریخ کو کر ونا کے با عث و طنِ عز یز میں ہلا کتو ں کی تعد اد 201 تک جا پہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے این سی او سی کے اجلاس میں کورونا پھیلانے والے شہروں میں لاک ڈائون لگانے پر غور کیاگیا ہے۔ کوروناایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے پنجاب حکومت نے پاک فوج کی خدمات مانگ لیں ہیں۔ درحقیقت کورونا وائرس کی تیسری لہر کے نتیجے میں جو انسانی جانوں کا زیاں ہورہاہے، اس میں عوام کی جانب سے غفلت اور لاپروائی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہورہاہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کو مکمل لاک ڈائون کرنا پڑے گا۔ ملک میں وبا کا پھیلائو بڑھ رہا ہے، بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں وائرس کے پھیلائو کی شرح 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہیلتھ سسٹم پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ آکسیجن سلنڈرز کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہاہے کہ مریضوں کے لیے آکسیجن کی قلت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ حکومت پاکستان اپنے کل بجٹ کا 4.1 فیصد ہی صحت پر خرچ کرتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں بھارت اور افغانستان کے بعد صحت پر بجٹ کا کم ترین حصہ خرچ کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ ادھر عوامی طرزِ عمل یہ ہے کہ موت سامنے ہے، لیکن ہم عید کی شاپنگ کرنے میں مصروف ہیں، سماجی تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں، ایس اوپیز کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلے۔ اس سارے طرزِ عمل کا خمیازہ لاک ڈائون کی شکل میں بھگتنا پڑے گا۔ خوشحال طبقے کے لوگ تو اپنے گھروں میں رہ کر سماجی فاصلہ برقرار رکھ سکتے ہیں، جبکہ غریب،مزدور اور کچی آبادیوں کے رہائشی تو ایک کمرے میں کئی افراد رہنے پر مجبور ہیں، وہ بھلا سماجی فاصلہ کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟ قیدیوں سے بھری جیلوں میں وبا تیزی سے پھیل سکتی ہے، یعنی سب کی جان کو خطرہ ہے۔پاکستان کی معیشت کورونا وائرس کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس وبا کے منفی معاشی اثرات مختلف طریقوں سے سامنے آئے جس میں گھریلو طلب میں کمی، کاروباری سرگرمیوں میں کمی، درآمد اوربرآمد میں کمی اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے پیداوار میں کمی شامل ہے۔ اس کاایک سب سے اہم اثر روزگار میں کمی کی صورت میں سامنے آیا۔ افرادی قوت کو اس وقت پریشانیوں کا سامنا ہے، وبائی بیماری نے صحت کے بحران سے لے کر معاشی اور مزدور منڈی کے بحرانوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی تقریباً بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آبادی میں 63 فیصد افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ اس وقت نوجوانوں کو روزگار کے لیے صحیح مہارتیں حاصل کرنے میں مدد کرنا معاشی لحاظ سے ضروری ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت تعلیم، روزگار یا تربیت سے وابستہ نہیں۔ پاکستان میں خصوصی تکنیکی، پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبے میں داخلے بھی کم ہیں جو دونوں صنفوں میں مہارت کی تربیت کی اعلیٰ طلب کے باوجود برقرار ہے۔کورونا کے باعث لاک ڈائون کے دوران تعلیمی ادارے بند کرنا
مفتاح اسماعیل نے این اے 249 کے انتخابی نتائج کو چیلنج کر دیا
اپنی جگہ پر حکومت کی انتظامی مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن یہ ضمانت کون دے گا کہ وہ کروڑوں پاکستانی بچے اور نوجوان جو گھر بیٹھے ہیں، ان کا کوئی تعلیمی نقصان نہیں ہوگا۔ اگر تقریباً ایک تہائی پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں، تو پھر وہ آن لائن تعلیم کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والے شہریوں میں سے چالیس فیصد کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے اسمارٹ فون اور ان میں انسٹال کی گئی ایپس کو پوری طرح استعمال کرنا جانتے ہی نہیں، دیہی علاقوں میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد پہلے ہی کم ہے اور مناسب تعلیمی سہولیات کم تر۔ شہری علاقوں میں بچوں اور بچیوں کی بہت بڑی تعداد پرائیویٹ اسکولوں میں بھی پڑھتی ہے۔ وہاں اسکول مالکان لاک ڈائون کے دوران بھی فیسیں پوری وصول کرتے ہیں جبکہ گھر پر اساتذہ کا کام بھی اپنے طور پر والدین کو ہی کرنا پڑ رہاہے۔ بہت سے اساتذہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ تو بچوں کو پوری توجہ سے آئن لائن تعلیم دینا چاہتے ہیں مگر کئی والدین کی سستی، لاپروائی یا مالی مجبوریوں کی وجہ سے بچوں کو ورچوئل کلاس روم کے لیے گھر پر درکار سہولیات دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔ جب ملک میں آن لائن تعلیم کے لیے بنیادی ڈھانچہ اور امکانات ہر کسی کو دستیاب نہ ہوں، تویہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پھر تعلیم کو حقیقی سے ورچوئل دنیا میں منتقل کردینے سے کتنے پاکستانی طلبا و طالبات کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں کورونا وبا سے غربت میں اضافے کا خدشہ ہے۔ آکس فیم کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے بعد آنے والی مشکلات کے باعث پاکستان میں پہلے سے موجود غریب کے علاوہ ایک ڈالر 90 سینٹ (تقریباً 300 روپے) یومیہ کمانے والے ایک کروڑ افراد کے مزید غریب ہوجانے کا خدشہ ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں یومیہ تین ڈالر 20 سینٹ (تقریباً 510 روپے) کمانے والے تین کروڑ 88 لاکھ افراد کو کورونا وبا کے باعث آنے والا معاشی بحران مزید غربت میں دھکیل سکتا ہے۔ کورونا وبا نے ظاہر کردیا کہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جب تک ہم سب محفوظ نہیں تو کوئی بھی محفوظ نہیں۔ لڑکیاں، خواتین اور سماج کے پسے ہوئے طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے لیے معاشی مواقع میں کمی اور وائرس سے احتیاط میں اخراجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے، جس سے ان طبقوں میں عدم مساوات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اب صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہمیں حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ اگر زندگی کی ضرورت ہے تو ہمیں سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، کیونکہ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ زندگی قیمتی ہے، کیاہم وائرس کے آگئے اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کو نظرانداز کردیں گے، یہ تمام باتیں ہمیں بحیثیت فرد اور قوم سوچنی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے طبی ماہرین کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیتے آئے ہیں مگر حالات کو معمول کی جانب لانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملکی آبادی کو بڑے پیمانے پر ویکسین لگادی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مختلف ممالک میں ویکسی نیشن پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں لاکھوں خوراکیں لگائی جاچکی ہیں اور جہاں یہ ویکسی نیشن پروگرام کچھ اگلے مراحل میں ہیں وہاں اس بیماری کے پھیلائو اور متاثرہ افراد کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ کچھ ممالک میں تو فرنٹ لائن ورکرز اور بزرگ شہریوں کو حفاظتی خوراکیں دے کر وہاں کے عام شہریوں کے لیے بھی اس ویکسین کی رسائی ممکن بنادی گئی ہے، مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے ویکسین کی خریداری کے لیے آرڈر تو دیئے جاچکے ہیں مگر ان کی تعداد بھی چند لاکھ سے زیادہ نہیں۔ ہم بائیس کروڑ آبادی کا ملک ہیں اور بالفرض اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ہماری آدھی آبادی کے نوجوانوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس بیماری کا شکار ہونے کا امکان کم ہے پھر بھی ہمارے پاس تقریباً ایک کروڑ لوگ بچتے ہیں جنہیں ہمیں ہر حال میں ویکسین دینا ہی ہوگی۔ ہم ان تمام لوگوں کے لیے ویکسین کہاں سے لائیں گے؟ اور اگر ہم ان لوگوں کو ویکسین اسی رفتار سے لگائیں گے کہ جیسے ابھی لگائی جارہی ہے تو ہم کب تک اس قابل ہوں گے کہ اس وبا پر قابو پاسکیں۔ یہ وہ سوالات جو ہر پاکستانی کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں، حکومت کو ان سوالات کے جوابات اپنی بہترین حکمت عملی سے دینا ہے تاکہ انسانی جانوں کے زیاں کو روکا جاسکے۔ اس وقت جو خوف اور وحشت کی فضا طاری ہوچکی ہے، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر ایس او پیز عمل درآمد کو لازم کرلیں تو صورت حال کی سنگینی میں کافی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ ہمیں غفلت کا چلن چھوڑ کر احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا، اسی میں ہماری بقا کا راز پوشیدہ ہے۔
امریکا، افغانستان اور پاکستان میں ڈیوٹی فری زونز کی تجدید کرے گا
ڈاکٹر ابراہیم مغل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں