کفر و اسلام کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر - نوید مسعود ہاشمی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کفر و اسلام کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر - نوید مسعود ہاشمی

 کفر و اسلام کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر - نوید مسعود ہاشمی

12:41 pm

 30/04/2021

 نوید مسعود ہاشمی



 

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان ﷲ علیہم اجمعین کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر اڑھائی سو میل شمال میں ایک بستی جس کو یثرب کہا جاتا تھا تشریف لے گئے تاکہ ان موذیوں کی ایذاء رسانیوں سے مطمئن ہو کر دین اسلام کی تبلیغ کرسکیں، لیکن قریش مکہ اپنی عادت سے باز نہ آئے… چنانچہ ربیع الاوّل ۲ھ بمطابق ۶۲۳ء میں قریش سردار کرزبن جابر الفہری مدینہ منورہ پہنچا اور جو مویشی میدان میں چر رہے تھے انہیں پکڑ کر لے گیا،تعاقب کیا گیا لیکن وہ صاف بچ کر نکل گیا… یہ اس امر کا اعلان تھا کہ قریش مکہ اہل ایمان کو مدینہ منورہ میں بھی اطمینان سے نہیں رہنے دیں گے ایک عرصہ تک یہی کیفیت جاری رہی حتی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بذات خود کئی کئی راتیں جاگ کر گزاریں بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک رات آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی اچھا آدمی پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا…حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا حضرت میں حاضر ہوں اور انہوں نے رات بھر پہرہ دیا اور آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے آرام فرمایا۔


 

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں بڑی بصیرت کے ساتھ دو موثر حفاظتی تدابیر اختیار فرمائیں۔ اول یہ کہ قریش مکہ کی شامی تجارت کا راستہ مخدوش کردیا جائے جس پر ان کی معیشت کا بہت بڑا انحصار تھا… دوم مدینہ منورہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ امن وامان کے معاہدے کیے جائیں، چنانچہ امن معاہدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، ہر قابل ذکر قبیلہ کے ساتھ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے امن کا معاہدہ کرکے قریش مکہ کے سازباز اور سازشوں کا ایک حد تک راستہ مسدود کردیا… رہ گئی پہلی تجویز تو اس سلسلے میں قریش مکہ کا ایک قافلہ جس میں ابوسفیان بن حرب، محزمہ بن نوفل، عمرو بن عاص کے ساتھ تقریباً تیس یا چالیس آدمی تھے… شام کی طرف بغرض تجارت عازم سفر تھا، اس قافلہ میں تقریباً ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار کا سامان تجارت تھا، آںحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو جب اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرکے ارشاد فرمایا کہ یہ قریش مکہ کا قافلہ ہے جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے مالوں پر ناجائز قبضہ کیا،چلو شاید ﷲ پاک اس کا بدلہ تم کو دلادیں۔ یہی وہ تجارتی قافلہ تھا جس پر ابتداًحملہ مسلمانوں کے پیش نظر تھا، جس کو قرآن کریم نے سورۃ انفال میں احدی الطائفتین سے ذکر فرمایا… صحابہ کرام ؓنے جب یہ سنا تو بڑی تیزی کے ساتھ چل پڑے۔

مدینہ منورہ سے ابن اسحاق کی روایت کے مطابق ۸ رمضان ۲ ھ بمطابق ۴ یا ۵ مارچ ۶۲۴ء  بروز سوموار کو اور ابن سعد کی روایت کے مطابق ۱۲ رمضان ۲ھ بمطابق ۶۲۴ء بروز ہفتہ کو نکلے، صحابہ کرام ؓمیں سے جو جس حال میں تھا روانہ ہوگیا۔ صرف تین گھوڑے تھے، ایک حضرت زبیر بن عوامؓ کا ایک حضرت مقداد بن الاسودؓ کا اور ایک مرثد بن ابی مرثدؓ کا اور ستر اونٹ تھے ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی سوار ہوگئے،تین سو سے کچھ زیادہ آدمی روانہ ہوئے… تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تین سو بارہ یا تیرہ۔ تین سو تیرہ والی روایت زیادہ مشہور ہے۔ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی بڑی جنگ ہوگی… نماز کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبدﷲ بن ام مکتومؓ کو امام مقرر فرمایا،جب آپﷺ روحاء میں پہنچے تو وہاں سے ابولبابہ بن منذرؓ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر بھیجا۔ تین جھنڈے تھے، ایک سفید اور دو سیاہ۔ سفید جھنڈا آپﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو عطا فرمایا اور سیاہ میں سے ایک جس کا نام العقاب تھا حضرت علیؓ کو جو کہ مہاجرین میں سے تھے اور دوسرا حضرت سعد بن معاذؓ کو جو کہ انصاری تھے عطا فرمایا اور صاق میں قیس بن صعصعہؓ کو مقرر فرمایا۔ اس طرح قدم بقدم آپﷺ ترتیب دیتے رہے۔ جب آپﷺ مقام صفراء میں پہنچے تو وہاں سے بسبس بن عمرو الجہنیؓ اور عدی بن ابی الرغباءؓ کو بدر کی طرف بھیجا تاکہ قافلہ کا پتہ لگائیں کہ وہ کدھر ہے۔ادھر ابوسفیان جو سالار قافلہ تھا بھی بے خبر اور غافل نہ تھا، اسے بھی تشویش تھی کہ مسلمان کہیں اس کی تلاش میں نہ ہوں، جو لوگ بھی اس کو راستہ میں ملتے وہ ان سے پوچھ گچھ کرتا اور پھر قدم آگے بڑھاتا… راستے میں اس کو مسلمانوں کی اطلاع مل گئی… چنانچہ اس نے ضمضم بن عمرو الغفاری کو اجرت دے کر مکہ مکرمہ بھیج دیا تاکہ قریش کو خبر کردے کہ قافلہ خطرے میں ہے۔ اس کے بچاؤ کے لئے جو کچھ ہوسکتا ہے جلد از جلد کرلو۔

ضـمضم مکہ پہنچا تو اس وقت کے قاعدہ کے موافق بطـن وادی میں اونٹ پر کھڑا ہوا اور اپنی قمیض کو پھاڑ ڈالا اور زور سے چلایا کہ اے قریش جلدی کرو جلدی کرو ابوسفیان کے ساتھ تمہارا بہت سا مال ہے اور محمد(ﷺ) نے راستہ روکا ہے بچت کی امید نہیں لہٰذا جلدی کرو… الغوث الغوث جب مکہ میں یہ آواز پہنچی تو ہل چل مچ گئی بطون مکہ سے سوائے بنی عدی کے سب نکل آئے اور بڑی شان و شوکت سے ابوجہل نے ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا جس میں سات سو اونٹ تین سو گھوڑے تھے… تمام لشکر ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس تھا، تمام سپاہی ذرہ پوش تھے، گانا گانے والے اور آلات موسیقی بھی ہمراہ تھے، عباس بن عبدالمطلب، عتبہ بن ربیعہ، امیر بن خلف، نفر بن حارث، ابوجہل بن ہشام وغیرہ کل تیرہ آدمی کھانا کھلانے والے تھے۔

(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج