مہجور، کشمیر کے ورڈزورتھ کی یاد میں - غلام اللہ کیانی
02:58 pm
12/04/2021
کشمیری زبان میں مہجور سے قبل روایتی شاعری لکھی جاتی تھی۔ اس لئے وطن دوستی ، قوم پرستی یا قومی بیداری کی حامل کشمیری شاعری کا گر مہجور کو روح رواں کہاجائے
(گزشتہ سے پیوستہ)
کشمیری زبان میں مہجور سے قبل روایتی شاعری لکھی جاتی تھی۔ اس لئے وطن دوستی ، قوم پرستی یا قومی بیداری کی حامل کشمیری شاعری کا گر مہجور کو روح رواں کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا۔ آپ پیشے سے پٹواری تھے۔ اس لئے آپ کو ریاست کے دور دراز علاقہ جات تک میں جا کر مختلف لوگوں سے ملنے اور ان کے مسائل دیکھنے کا موقع ملا۔ سماجی بھید بھائو، نسلی امتیاز، باہمی نارواداری کو محسوس کیا اور شاعری سے کشمیریوں کو باہمی اخوت اور بھائی چارے سے رہنے کی تلقین کی۔ مہجور نے اپنی شاعری میں سادہ اور عام فہم الفاظ استعمال کئے۔ تا کہ ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ رسول میر شاہ آبادی کی تقلید کرتے ہیںمگر ان کے کلام کا بغور جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک روحانی شاعر بھی تھے اور ایک معلم اور مدرس بھی ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اپنے انمول ارشادات اور نصیحتوں سے قارئین کو نوازا ہے۔ ایسی زبان استعمال کی ہے کہ ہر کوئی یہاں تک کہ ناخواندہ بھی اسے بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔
ان کی شاعری میں کشمیر کے دیدہ زیب قدرتی مناظر، سرسبز و شاداب جنگلوں، برف پوش پہاڑوں ، وسیع و عریض کوہساروں اور ہرے بھرے میدانوں کی زبردست عکاسی کی گئی ہے۔ وہ اپنی سرزمین کی عظمت کے گرویدہ تھے۔ اسے ہر وقت پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مہجور کی شاعری موصوعاتی شاعری ہے مگر ان کا انداز بیان سلیس اور خوبصورت انداز والا ہے۔ جس کی بنیاد انسانی ہمدردی پر رکھی گئی ہے۔ مہجور نے خیالات کو بڑے دلکش انداز سے قارئین تک پہنچایاہے۔ اور اپنے افکار و نظریات کی موثر عکاسی کی ہے۔ ان کی شاعری میں موضوع کے اعتبار سے سوچ کی گہرائی نظر آتی ہے۔ جس سے ان کی منظر نگاری یا عشقیہ اشعار میں بھی فکر و فلسفہ نظر آتا ہے۔ مہجور نے بہت کم عرصہ میں کشمیر سے باہر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ جنوبی کشمیر کے متری گام پلوامہ سے نکل کر وہ کشمیری شعر و ادب کے سرتاج بن گئے۔ ان کی ملاقاتیں یا روابط مولوی عبد اللہ شاہ بسمل، عفت لدھیانوی، دیوندر ستیارتھی، بلراج ساہنی سے بھی رہیں۔ انھوں نے دیوندر ستیارتھی کے کہنے پر کشمیری زبان میں نظم لکھنے کی شروعات کی۔ لو کچار، دل، وتستا، گریس کور، گل، ترانہ وطن ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ مہجور کے اشعار پڑھنے والوں کو اپنے ماضی کے یادگار واقعات اور شخصیات کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کا پیغام ملتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کی جن شخصیات نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں ، ان کو ہی ایک آدمی اپنا آئیڈل بنائے اور اپنا تشخص برقرار رکھے۔ مہجور نے1905ء سے کئی برسوں تک پہلے فارسی، پھر اردو میں شعر و شاعری کی۔ بزم ادب لدھیانہ اور دیگر مقامات پر مشاعروں میں شرکت کی۔ اردو میں آپ کی اردو شاعری پر مشتمل ایک تصنیف حات رحیم کے نام سے لاہور سے 1922ء میں شائع ہوئی ۔ تذکرہ شعرائے کشمیر، آئینہ اتحاد، سفر نامہ لداخ بھی ان کی اردو قلمی کاوشیں ہیں۔ مہجور نے 1924ء میں کشمیری شاعری شروع کی۔ کشمیری زبان میں آپ کی پہلی ہی غزل نے آپ کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ شہر و گام میں ہر جگہ اور ہر محفل میں آپ کا کلام سنایا جانے لگا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے شعراء آپ کو ایک بہترین نیچرل شاعر کہنے لگے۔ ان کے کلام میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں نہ تو کسی کی ہجو ملتی ہے اور نہ ہی کسی کی تعریف۔ اس میں مذہب یا سیاست کا بھی کوئی دخل نہیں۔ بلکہ خاص ادبی رنگ میں رنگاہواہے۔ عبد الاحد آزاد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مہجور کے کلام کی بڑی خصوصیت اس کی برجستگی ہے۔ ان کی شاعری اس قدر فصیح ، برجستہ اور دلنشین ہے کہ ان کے اشعار امثال و اقوال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کے اس دور میں بعض لوگ گھروں میں موجود کتابوں کی گرد و غبار بھی صاف کر رہے ہیں۔ شائد کوئی مہجور کی شاعری سے بھی مستفید ہو سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں