سیاسی مداریوں کے تماشے اورعوامی سیاپے - سمیع اللہ ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

سیاسی مداریوں کے تماشے اورعوامی سیاپے - سمیع اللہ ملک

سیاسی مداریوں کے تماشے اورعوامی سیاپے - سمیع اللہ ملک
02:59 pm
 12/04/2021


 میں خودبڑے عرصے سے محسوس کررہاہوں، میری تحریرمیں ایک بیزاری،ایک لاتعلقی سی آچکی ہے۔وہ تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتا ہوادرد ختم ہوتاجارہاہے جواس

میں خودبڑے عرصے سے محسوس کررہاہوں، میری تحریرمیں ایک بیزاری،ایک لاتعلقی سی آچکی ہے۔وہ تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتا ہوادرد ختم ہوتاجارہاہے جواس تحریرکی پہچان تھا۔ ایسا کیوں ہورہاہے؟میں اکثر خودسے سوال کرتاہوں۔ ہربار میں خودکویہی جواب دیتاہوں،کوئی نیاموضوع،کوئی نیاایشونہیں۔مہنگائی پراور کتنے کالم لکھے جائیں؟ بیروزگاری،جہالت اوربیماری پرکوئی کہاں تک لکھ سکتاہے؟بد امنی،حکومتی رٹ،حکومتی بے حسی،لوٹ کھسوٹ، کرپشن،دفتری تاخیر،سرخ فیتہ اورسیاسی مکروفریب پر کتنے ٹن مضامین چھاپے جاسکتے ہیں؟ آخرانسانی دماغ کی بھی ایک حدہوتی ہے،آپ سیاپابھی ایک حدتک کرسکتے ہیں،بچہ ماں کوکتناپیارا ہوتاہے،بچہ مرجائے توماں بین کرتی ہے،روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر؟ ایک گھنٹہ،ایک دن یاایک ہفتہ،آخر بین چیخوں،چیخیں سسکیوں اورسسکیاں آہوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں،دلِ مضطرب کوچین آجاتاہے۔ ایک ہلکی سی کسک،دردکی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے لیکن پروفیسرحسین عالم ہرکالم کے صوتی تبصرہ میں بین السطورکواس طرح ننگاکردیتاہے جس کولاکھ جتن کرکے چھپانے کی کوشش کرتاہوں کہ قارئین زیادہ دل گرفتہ نہ ہوں لیکن وہ سمجھتاہی نہیں اوراس کے چیخیں اوربین باقاعدہ ایک سیاپے کی شکل اختیارکرلیتے ہیں۔
 کوئی اسے سمجھائے کہ لکھاریوں کی تحریریں ایک بین،ایک چیخ ہوتے ہیں۔یہ چیخ یہ بین بتاتے ہیں کہ لوگو!تمہارے ساتھ ظلم ہوگیا،تم لٹ گئے،تم بربادہو گئے۔اس چیخ،اس بین پر لوگ متوجہ ہوجائیں اورظالم ٹھٹک کررک جائے تولکھاری کافرض پوراہوگیا لیکن اگرظالم ان چیخوں،ان بینوں کے باوجود ظلم کرتا رہے، ایک لمحے کے لئے اس کاہاتھ نہ رکے،اس کے ماتھے پرشرمندگی کا پسینہ تک نہ آئے،تووہ چیخ،وہ بین ایک فضائی آلودگی کے سواکچھ نہیں۔لوگ بھی اگراس چیخ اوراس بین کومعمولی سمجھیں اورایک روٹین کادرجہ دے دیں توبھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں کے جنگل میں ایک سوکھی سڑی جھاڑی اورایک کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ چوکیدارکے’’جاگتے رہو‘‘کے اعلان سے اگرچورگھبرائیں اورنہ ہی اہلِ محلہ کی آنکھ کھلے تو چوکیدارکیاکرے گا؟اس کی پتلیوں میں بھی نیندہچکولے لے گی،اس کاضمیربھی جمائیاں لینے لگے گا۔
عزیزم!یقین کرو میں جب لکھنے بیٹھتاہوں توخودسے سوال کرتاہوں،کس کے لئے لکھ رہاہوں؟ ان لوگوں کے لئے جوغلامی سہنے کی عادت، زیادتیاں برداشت کرنے کی خوجن کی نس نس میں بس چکی ہے،جواپنے اوپرہونے والے ظلم کی داستان کوبھی ایک افسانہ سمجھ کرپڑھتے ہیں،جواپنے قتل کے گواہ پرہنستے ہیں یااس حکومت کے لئے جوخداترسی کی اپیل کوپاگل اور قنوطیوں کاسیاپا سمجھتی ہے۔میں اس نتیجے پرپہنچ چکاہوں آپ بیل کولیکچرکے ذریعے چیتانہیں بناسکتے۔ بھیڑیئے کے دل میں بھیڑکے لئے ہمدردی بھی نہیں جگاسکتے،لہٰذا میرے نوجوان عزیز!سچی بات ہے سیاپے کی یہ نائین (پیغام دینے والی مائی)تھک چکی ہے۔آخر قبرستانوںمیں اذان دینے کی ایک حدہوتی ہے لیکن شائدتم نے تہیہ کررکھاہے کہ اپنی چیخوں سے ان قبرستان کے باسیوں کوبھی جگاکردم لوگے۔
رہادوسرااعتراض تومیں نے پچھلی چاردہائیوں میں سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے کہ لفظ سیاست سے مجھے گھن آتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں کسی کچراگھرکی دیوارپربیٹھا ہوں ، ایسی دیوارجس میں اصول،انصاف،وفاداری،ایمانداری اور ضمیرنام کی ہروہ خوبی،ہروہ وصف گل سڑرہاہے، جس کی وجہ ایک درندہ اشرف المخلوقات بنتاجارہا ہے،مجھے ان اوصاف ،ان خوبیوں کے لاشوں میں کیڑے رینگتے نظرآتے ہیں۔میں نے ان پچھلی پانچ دہائیوں میں ان لوگوں کواپنے محسنوں کوگالیاں دیتے دیکھا۔میں نے فوجی حکمرانوں پر تنقیدکرنے والوں کوان کے تلوے چاٹتے دیکھا۔آپ کو یاد ہوگاکہ جنرل ضیا الحق نے جب کہاتھا کہ میں ان سیاستدانوں کو اشارہ کروں تویہ دم ہلاتے میرے پاس آجائیں۔
آپ کسی غیرت مندکوگالی دے سکتے ہیں لیکن جس کی آنکھوں کی شرم ہی مرچکی ہو،جسے پارٹی بدلتے،وفاداری تبدیل کرتے، نظریہ اورمنشور بھلاتے اتنے دیربھی نہ لگتی ہوجتنی بنیان بدلنے یاجرابیں تبدیل کرنے میں لگتی ہے توآپ اس کوکتنابرابھلاکہہ دیں گے۔ان سے تووہ شخص بہترتھاجس نے یہ کہاتھاکہ میں انکارمیں اتناآگے جاچکاہوں کہ میرے لئے واپسی ممکن نہیں۔آپ خود سوچیں!بدبوکے اس جوہڑپرکیا لکھا جائے؟ان غلاظت اورسڑاند بھرے کچراگھروں سے کون ساسورج طلوع ہوگا،یہ لوگ کس مستقبل کی بنیادرکھ رہے ہیں۔قوم نے ایک مرتبہ پھراقتدارکی کوکھ میں پروان چڑھنے والے لوگوں کے ہاتھوں اپنی انا،اپناضمیر اوراپنی زبان گروی رکھ کر جنم لینے والوں سیاستدانوں کو مسنداقتدارپر بٹھادیا ہے اورآج وہ جمہوریت ’’ریاست مدینہ‘‘کے نعروں کی بانہوں میں ہلکورے لے رہی ہے، بھلااب اس سے کیاتوقع کی جائے؟
جوایک بوڑھی ماں کے ساتھ بلکہ قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کوشب وروزاپنی سیاست کاوظیفہ بناکر مسند اقتدارپہنچتے ہی اپنا پہلا کام بتاتے تھے،اب نہ صرف آنکھیں پھیرچکے ہیں بلکہ عافیہ کی بہن سے ملنے سے بھی گریزاں ہیں،ایسے حکمراں جواپنے ہی نظریئے پرقائم نہیں رہ سکے،جو ایفائے عہدکاپاس نہ کرسکے، وہ میرے یاآپ کے کیاہوں گے،وہ میرے  نظریات ، میرے احساسات اورمیرے جذبات کی کیاترجمانی کریں گے،وہ میرے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے،وہ انقلاب کے کن سویروں کی پنیریاں لگائیں گے؟ یادرکھیں میرے آقاومربی خاتم النبیین ﷺ کا قول مبارک ہے کہ  منافق کی تین نشانیاں ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ کہے،جب وعدہ کرے تواس کے خلاف کرے اورجب اس کو امانت دارسمجھا جائے توخیانت کرے۔ یہ نیت کی بددیانتی کااورجھوٹی نیت کانتیجہ ہے کیونکہ آدمی گناہ گاراس وقت ہے جب وعدہ یاعہد کرتے وقت اس کی نیت ہی وفا کی نہ ہویابعدمیں وفاکی نیت پرقائم نہ رہے،اگرنیت وعدہ وفاکرنے کی ہے مگر حالات کے ہاتھوں بے اختیارہونے کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کرسکا تواس پرماخذہ نہیں۔اللہ کسی جان کوتکلیف نہیں دیتامگراس کی طاقت کے مطابق(البقر: 286)رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:انسان کی فطرت میں خیانت اورجھوٹ کے علاوہ تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں۔(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج