شیطان کے جوتے - غلام اللہ کیانی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

شیطان کے جوتے - غلام اللہ کیانی

شیطان کے جوتے -  غلام اللہ کیانی
01:05 pm
 10/04/2021
 غلام اللہ کیانی

 
 امریکہ کی ایک کمپنی ’’بروکلین آرٹ کلیکٹو‘‘(ایم ایس سی ایچ ایف) نیــ گزشتہ ہفتے ایسے جوتے آن لائن فروخت کے لیے پیش کئے جس کی نچلے حصے میں انسانی خون کے قطرے شامل کئے گئے ہیں اور اسے امریکی اسپورٹس ویئر کمپنی نائیکی کا ایئر میکس 97 کے ڈیزائن پر تیار کیا گیا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ کمپنی کے تیار کردہ جوتے آن لائن فروخت کے لئے پیش کرتے ہی ایک منٹ سے بھی کم وقت میں سب جوڑے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ تا ہم امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے اب شیطان کے جوتوںکی فروخت پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔نائیکی نے نیویارک کی وفاقی عدالت میں ایم ایس سی ایچ ایف کے خلاف اپنا ڈیزائن چوری کا مقدمہ درج کیا تھا۔ڈیزائن چوری کے علاوہ انسانی خون جوتوں میں شامل کرنے پر عوام نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا۔عدالت میں دائر مقدمے میں نائیکی نے مؤقف اختیار کیا کہ ایم ایس سی ایچ ایف نے نائیکی کی اجازت اور منظوری کے بغیر اس کا ڈیزائن استعمال کرتے ہوئے جوتے تیار کئے جبکہ نائیکی کمپنی کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 
نائیکی کا درخواست میں مزید کہنا تھا کہ اسے ایم ایس سی ایچ ایف کے ’شیطان کے جوتوں‘ کی وجہ سے عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا اور کئی صارفین نے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی رائے بھی ظاہر کی۔مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ نائیکی کو بائیکاٹ کرنے کا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے اور انہیں یہ تاثر ملا ہے کہ نائیکی یہ جوتے تیار کرنے میں شامل ہے۔ نائیکی نے عدالت سے ایم ایس سی ایچ ایف کو جوتوں کے آرڈرز ارسال کرنے سے روکنے اور ساتھ ہی اس تنازع کے باعث ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کرنے کی درخواست بھی کی۔بروکلین کی ڈسٹرکٹ کورٹ کے وفاقی جج ایرک کومیٹی نے نائیکی کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ایم ایس سی ایچ ایف پر متنازع ’شیطان کے جوتے‘ فروخت کرنے پر عارضی پابندی عائد کر دی ۔کمپنی نے متنازع جوتوں کے 666 جوڑے امریکی ریپر لِل ناس ایکس کے تعاون سے فروخت کے لیے پیش کیے تھے۔ ان جوتوں کے ایک جوڑے کی قیمت 1018 ڈالر رکھی گئی تھی۔ ایم ایس سی ایچ ایف نے اس معاملہ کو آزادی اظہار سے جوڑ دیا اور اپنے بیان میں کہا کہ وہ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔ نائیکی اور عدالت کے ساتھ مل کر اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنا چاہتے ہیں۔ایم ایس سی ایچ ایف شیطانی جوتوں کی فروخت پر عارضی پابندی عائد کرنا غیر ضروری قرار دیتی ہے۔ جوتوں کے تمام 666 جوڑے فروخت ہو چکے ہیں اور مزید جوتے نہیں بنائے گئے۔اسی کمپنی کے گزشتہ سال ’’جیسس جوتے‘‘ بھی تیار کئے تھے۔
امریکہ میں شیطانی جوتوں کی تیاری سے پہلے گزشتہ سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے عجائب گھر کے صحن میں نصب کئے جانے والے ایک مجسمے کے خلاف ایک خاتون وکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے مجسمے کو شیطانی مجسمہ قرار دے کر اسے میوزیم سے ہٹانے کی استدعا کی۔ خاتون وکیل عنبرین قریشی نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ لاہور کے عجائب گھر میں شیطان کی شکل کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جسے دیکھ کر بچے ڈر جاتے ہیں۔
عجائب گھر آنے والے لوگ ’’شیطان کے مجسمے‘‘ کے آرٹسٹ ارتباط الحسن کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے رہے۔ مگر ان کا اپنے دفاع میں  کہنا تھا کہ ان کا بنایا یہ مجسمہ انسان اور جانور کی خصوصیات کا مرکب ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب انسان اپنی اصلاح چھوڑ دیتا ہے تو کتنا خوف ناک ہوجاتا ہے۔ارتباط الحسن پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کے طالبِ علم ہیں اور انہوں نے یہ مجسمہ اپنے تھیسز کے دوران بنایا ہے۔لاہور عجائب گھر کے ترجمان عاصم رضوان کا کہنا تھا کہ میوزیم میں پنجاب یونیورسٹی کے آرٹ کے طلبہ کی ایک نمائش منعقد ہو رہی تھی اور اسی مقصد کے لیے یہ مجسمہ دیگر مجسموں کے ساتھ میوزیم لایا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ چوں کہ مجسمے کو اس کے حجم کے باعث عمارت کے اندر رکھنے کی جگہ نہیں تھی لہٰذا اسے باہر رکھ دیا گیا ۔عاصم رضوان اس خیال سے متفق نہیں کہ یہ مجسمہ بچوں کو ڈرانے کا سبب بن رہا ہے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ میوزیم میں آنے والے کچھ لوگ اس مجمسے کے ساتھ تصویریں بھی بنواتے ہیں۔ان کے بقول یہ مجسمہ انسان کے اندر چھپے شیطان کی عکاسی کرتا ہے۔’’انسان جب اپنے رشتوں کو بھول جاتا ہے اور حیوانیت پر اُتر آتا ہے۔ جب باپ بیٹی کا، بھائی بہن کا اور جب بیٹا ماں کا رشتہ بھول کر حیوانیت پر اُتر آتا ہے یا انہیں قتل کر دیتا ہے۔ یہ مجسمہ اُن تمام کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘لیکن مجسمے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والی خاتون وکیل عنبرین قریشی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ لاہور کے عجائب گھر کا مقصد اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ بنانا ہے اور یہ مجسمہ اس مقصد پر پورا نہیں اترتا۔ یہ مجسمہ نہ صرف ہماری ثقافت اور روایات کے بلکہ قدرت کے بھی خلاف ہے، اسی لیے عدالت سے درخواست کی گئی کہ وہ میوزیم انتظامیہ سے پوچھے کہ اس نے یہ مجسمہ نمائش کے لیے کیوں رکھا ۔لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد فرخ عرفان نے درخواست کی ابتدائی سماعت کی جس کے دوران انہوں نے مجسمہ نصب کرنے پر چیف سیکریٹری پنجاب اور ڈائریکٹر لاہور میوزیم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا۔دورانِ سماعت فاضل جج نے کہا کہ شیطان کو قابو کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ شکر ہے کہ شیطان کے خلاف کوئی تو باہر نکلا۔نیشنل کالج آف آرٹس کے سابق اُستاد اور آرٹسٹ ڈاکٹر اعجاز انور سمجھتے ہیں کہ اگر مجسمہ بٹایا گیا تو اس سے نئے آنے والے فن کاروں اور مجسمہ سازوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ان کے بقول لاہور کا عجائب گھر مغلیہ دور کی ترجمانی کرتا ہے اور اِس وقت لاہور کو ایک ایسے نئے عجائب گھر کی ضرورت ہے جہاں جدید فن پاروں کی نمائش ممکن ہوسکے۔مگر کوئی کمپنی انسانی خون سے شیطانی جوتے تیار کرنے یا کوئی فن کار شیطان کا مجسمہ تخلیق کرنے کی جانب کیسے مائل ہو سکتا ہے۔ شیطانی جوتے یا مجسمے سے زیادہ انسان کو اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسانیت کو فروغ دینے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانی ہیں۔تا کہ اس کے اندر شیطانی صفات کا صفایا ممکن بن سکے۔ 
   
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج