قلم کی بھاری قیمت چکانی پڑی - سمیع اللہ ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

قلم کی بھاری قیمت چکانی پڑی - سمیع اللہ ملک

 قلم کی بھاری قیمت چکانی پڑی - سمیع اللہ ملک

12:40 pm

 30/04/2021

 سمیع اللہ ملک



 

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ معاملہ موجودہ سیاسی نظام کے خلاف غیرمقبول نظریات کی حفاظت کے حوالے سے انتہائی دائیں بازو کے لئے ایسڈٹیسٹ کادرجہ رکھتا ہے۔اگرہم ایک لمحے کے لئے فرض بھی کرلیں کہ خاشقجی اخوان کارکن تھااورعرب دنیاکواسلامی رنگ میں رنگاہوادیکھناچاہتاتھا تب بھی اس بات کی شدید مذمت کی جانی چاہیے کہ اسے اپنی بات کہنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتاراگیا۔


 

٭سرگوشیوں پرمبنی ایک مہم یہ بھی چل رہی ہے کہ سردجنگ کے دورمیں جب سابق سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پرلشکرکشی کی، تب جن مجاہدین نے سوویت افواج کے آگے بندباندھا ان کی جدوجہدکی رپورٹنگ بھی خاشقجی نے کی اوراس نے اسامہ بن لادن کوبھی کورکیا۔اب اس نکتے پرزوردیاجارہاہے کہ مجاہدین کی سرگرمیوں کی کوریج کومغرب مخالف تصورکیا جانا چاہیے۔ معاملہ یہ ہے کہ اس دورمیں خاشقجی سعودی عرب کے ایک اخبار کانمائندہ تھااوراپناکام کررہاتھا۔سعودی عرب کی حکومت افغانستان پرسوویت لشکرکشی کی مخالف تھی اوراس نظریے سے خاشقجی بھی متاثررہا ہوگا۔ایسے میں خاشقجی کواگرمغرب مخالف تصورکیاجائے تومغربی دنیاسے تعلق رکھنے والے میڈیاکے ان نمائندوں کے بارے میں کیاکہا جائے گاجوافغانستان پرسوویت لشکرکشی اوراس کے خلاف مجاہدین کی سرگرمیوں کی کوریج کرتے رہے؟کیایہ حقیقت نہیں کہ ریگن انتظامیہ کے تحت کانگرس بھی افغانستان پر سوویت لشکرکشی کوناکامی سے دوچار کرنے کے لئے فعال رہی اوراس حوالے سے سعودی عرب سے غیرمعمولی اشتراکِ عمل کیاگیا؟دونوں نے مل کرمجاہدین کی حمایت اورمددکی تاکہ سوویت افواج کوافغانستان سے نکالاجاسکے۔ڈیوڈ اگنیشیس نے لکھاہے کہ خاشقجی کے دل میں اسامہ بن لادن کے لئے نرم گوشہ ضرورتھامگربعدمیں جب اس نے معاملات کی خرابی دیکھی توخیالات میں تبدیلی رونماہوئی۔ جب اس نے دیکھاکہ اسامہ بن لادن مغرب کے خلاف جارہاہے تووہ اپنی رائے بدلنے پرمجبورہوا اوروہ اس خیال کے بھی حامل تھے کہ نائن الیون کے حوالے سے اسامہ بن لادن کوذمہ دارقراردینے کے معاملے میں سعودی عرب کودوٹوک موقف اپناناچاہیے تھا۔

سعودی عرب کی نظرمیں آج اخوان المسلمون دہشت گردتنظیم ہے،یہ تبدیلی نئی ہے۔عشروں تک سعودی عرب نے اپنے ملکوں میں اذیت کاسامنا کرنے والے اخوان المسلمون کے ارکان کا خیرمقدم کیا اور مدد بھی کی۔شام،عراق اورمصرمیں اخوان المسلمون کے کام کرنے والوں کوسعودی عرب عشروں تک اپناسمجھتارہا کیونکہ تب اسے عرب دنیامیں اپنااثرورسوخ برقراررکھنے کے لئے اخوان جیسی تنظیموں کی حمایت درکارتھی۔سعودی عرب نے اسلام کے حوالے سے جونظریہ اپنا رکھا ہے،اسے اخوان کی حمایت حاصل تھی کیونکہ اخوان کی قیادت کابنیادی تصوریہ تھاکہ ہراس حکومت کی حمایت کی جانی چاہیے،جو اسلامی تعلیمات کو نافذکرنے میں لیت ولعل سے کام نہ لے۔یوں اخوان کی نظرمیں سعودی حکومت قابلِ قبول اور قابل احترام تھی۔بقول خاشقجی سعودی عرب میں اخوان کے ارکان کاخیر مقدم ہی نہیں کیاجاتاتھابلکہ ان کی تعلیمات اورسرگرمیوں پربھی کوئی قدغن نہ تھی کیونکہ سعودی حکومت کاخیال تھا کہ اخوان اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ذریعے لوگوں کاذہن اصلاح کی طرف موڑرہی ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پرمعاشرتی اصلاحات کی راہ ہموارکی جا سکتی ہے۔سب سے اہم نکتہ یہ تھاکہ اس پورے عمل میں کسی بھی مرحلے پرسعودی حکومت یاسعودی حکمراں خاندان کی اتھارٹی کوچیلنج کرنے والی کوئی بات نہ تھی۔

سعودی عرب میں اصلاحات کے حامی اسلام پسند حلقوں کے ابھرنے،ترکی میں اردگان کے برسراقتدار آنے اورپھرعرب دنیامیں بیداری کی لہردوڑنے سے خطے میں تمام مطلق العنان حکومتوں کواپنے وجودکی فکرلاحق ہوئی۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور دیگر ریاستوں کے حکمراں خاندانوں نے محسوس کرنا شروع کیاکہ اب انکے وجودکوغیرمعمولی خطرہ لاحق ہے کیونکہ مصراورتیونس کے عام انتخابات میں اخوان المسلمون اوراس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے نمایاں کامیابی حاصل کرکے خطرے کی گھنٹی بجائی۔اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں سعودی عرب اوراس کی حلقہ بگوش تمام ریاستوں نے اخوان کواپنے وجودکے لئے حقیقی خطرہ تصورکرناشروع کیااوریوں ان تمام ریاستوں میں اخوان المسلمون کے لئے مشکلات بڑھتی گئیں۔سعودی عرب اورمطلق العنان حکومت والی دیگرعرب ریاستوں میں شہری آزادیوں کویقینی بنانے پرزیادہ زورنہیں دیاجاتا۔یہی سبب ہے کہ جب اخوان نے عوام کے حقوق کی بات کی اورشہری آزادی یقینی بنانے پرزوردیاتواسے دوبارہ دہشت گردتنظیم کے طورپرپیش کرنے کی باضابطہ مہم شروع کی گئی۔یہی سبب ہے کہ سعودی عرب نے مصر میں اخوان کی منتخب حکومت اورمنتخب صدرمحمدمرسی کاتختہ الٹنے میں جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت اورمددکی۔جب السیسی نے مصرمیں کریک ڈائون کیاتوسعودی عرب نے اس کی بھرپور حمایت کی۔اس کریک ڈائون میں 800سے زائد سیاسی مخالفین یعنی اخوان المسلمون کے ارکان کوموت کے گھاٹ اتاراگیااورہزاروں افراد کوپابندِسلاسل کردیاگیا۔اخوان کو2013ء میں سعودی عرب کی بھرپور حمایت وامدادکے تحت اقتدارسے محروم کیاگیا مگر خودسعودی حکومت نے اخوان کوکم و بیش ایک سال کے بعددہشت گردتنظیم قراردیا۔

٭سعودی عرب اگراخوان المسلمون کواپنے وجود کے لئے خطرہ قراردیتاہے تویہ بھی محض وقتی وعارضی تبدیلی ہے کیونکہ سعودی عرب کے قریب ترین حلیفوں کے ہاں اخوان سے تعلق رکھنے والی شخصیات سیاسی عمل کاغیرمعمولی حصہ رہی ہیں اوراب بھی معاملہ زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔بحرین اورکویت کی پارلیمان میں اخوان المسلمون کی طرف واضح جھکائورکھنے والوں نے سیاسی عمل میں بھرپورحصہ ہی نہیں لیابلکہ حکمراں سیٹ اپ کاحصہ ہیں۔اردن میں اخوان سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ایک مدت سے سیاسی عمل اوراقتدارکا باضابطہ حصہ ہیں۔یہی حال مراکش کاہے جہاں اخوان سے تعلق رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی دوادوارسے حکومتی اتحادکاحصہ ہے۔یہ تمام ریاستیں سعودی عرب اورامریکہ کی دوست ہیں اوران سب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکاکاساتھ دیاہے۔ایسے میں یہ بات انتہائی حیرت انگیزہے کہ سعودی عرب نے ان کے ہاں تواخوان کا وجود برداشت کررکھاہے مگراپنے ہاں نہیں کیا۔سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے حکام کی یہ بات حلق سے نہیں اترتی کہ ہرعرب ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کوذہن نشین رکھتے ہوئے آزاد فیصلے کرتاہے۔ اگران تمام ریاستوں کی نظرمیں اخوان المسلمون واقعی دہشت گردتنظیم ہوتی تووہ اسے کسی بھی حال میں اپنے سیاسی نظام اورایوان اقتدارکاحصہ بنانے پرراضی نہ ہوتے۔

تاریخ ایک بارپھرنیاموڑلے رہی ہے،خاشقجی کوئی انقلابی نہیں بلکہ جدیدسوچ رکھنے والی شخصیت تھے۔خاشقجی کوکبھی بھلایانہیں جاسکے گا،ایک ایساشخص جس نے اپنے ملک میں آزادی اظہارکے لئے اپنے کالموں کے ذریعے بے مثال صحافتی طاقت کا مظاہرہ کیااوراس کے لئے اپنی جان بھی دے دی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج