رمضان پیکیج: ’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘ - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

رمضان پیکیج: ’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘

 20 مارچ 2021 |12:51 pm


رمضان پیکیج: ’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘


Ch Farrukh Shahzad, column writer, Urdu, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

20 مارچ 2021 (11:39) 2021-03-20 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی سٹریٹ لائٹ کے نیچے اپنی کوئی گمشدہ چیز ڈھونڈ رہا تھا جو بھی گلی سے گزرتا وہ اسے روک کر کہتا یار میری شادی کی انگوٹھی گم ہو گئی ہے آؤ اسے بازیاب کرنے میں ہماری مدد کرو جب آدھی رات تک لوگوں کے ہجوم کو کہیں انگوٹھی دستیاب نہیں ہوئی تو ایک بوڑھے آدمی نے نقصان زدہ شخص سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ انگوٹھی واقعتا صحیح طور پر کس جگہ گری تھی تو متاثرہ شخص نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا بازو کو بہت لمبا کر کے دور ایک گھر کی طرف اشارہ کیا کہ گم تو وہاں ہوئی ہے مگر وہاں چونکہ بہت اندھیرا ہے کچھ نظر نہیں آتا اس لیے میں اسے کھمبے کی تیز روشنی میں ڈھونڈ رہا ہوں تا کہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ 


ڈاکٹر فیصل سلطان نے ملک میں سفری پابندی کا عندیہ دیدیا


یہ لطیفہ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہماری پیاری حکومت ہوشربا اور کمر توڑ مہنگائی کے خاتمے کے لیے اتنی فکر مند اور تشویش میں مبتلا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مہنگائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے گلی گلی اور کوچہ کوچہ کریک ڈاؤن کرنے کے بجائے سہولت بازاروں کی چکا چوند پبلسٹی کی روشنی میں مہنگائی کی گم گشتہ انگوٹھی کو ڈھونڈتے ہیں۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہے گا کہ پاکستان میں مہنگائی کا خاتمہ کب ہو گا۔ یہ آپ خود ہی سمجھ لیں کہ یہ انگوٹھی کب اور کہاں سے ملے گی۔ 


اسی اثنا میں پنجاب حکومت نے 7.8ارب روپے کا بہت بڑا رمضان پیکیج لانے کا اعلان کر دیا ہے اور حکومت امید کر رہی ہے کہ اس پیکیج کی آمد کی دیر ہے پاکستان سے مہنگائی خوار و رسوا ہو کر ایسے منہ چھپا کر بھاگے گی کہ اسے چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی مہنگائی کے مارے ہوئے عوام حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسے ہو گا گزشتہ رات جب پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ میں ان کی پروا نہیں کرتا اور اپنے کام سے کام رکھتا ہوں تو مہنگائی جو ایک سانحہ کی شکل اختیار کر چکی ہے اس کے مقتولین اور مجروح عوام نے بزدار صاحب کی ان کی پروا نہ کرنے والی بات کا ترجمہ یہ کیا کہ با الفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کی ’’ان‘‘ سے مراد شاید مہنگائی ہی ہے۔ کام سے کام رکھنے کے ذکر پر ایک نشئی نے دوسرے ساتھی سے پوچھا ویسے ان کا کام ہے کیا جس سے یہ کام رکھتے ہیں۔ یہ بات نشئی کو بھی پتہ تھی کہ CM صاحب کے کمرے کے بازو میں ایک چھوٹے کمرے میں بیٹھے ہوئے شخص کو روزانہ صبح اسلام آباد سے ایک وٹس ایپ آتا ہے جس میں بزدار صاحب کا پورے دن کا شیڈول ہوتا ہے کہ آج کس کس کا تبادلہ کرنا 


اپوزیشن اتحاد میں دراڑ

ہے کس کس کو معطل کرنے کے آڑدر پر دستخط کرنے ہیں وغیرہ وغیرہ صوبہ کو چلانے کا باقی کام چیف سیکرٹری کو وٹس ایپ ہو رہا ہے جس میں یہ ہدایات بھی ہوتی ہیں کہ فلاں بندے کے احکامات پر عمل نہیں کرنا۔ آپ کو پچھلے ہفتے کا واقعہ یاد ہو گا جب سپیکر پنجاب اسمبلی نے میڈیا پر آکر فرمایا کہ 18ویں گریڈ کا ایک چھوٹا سا افسر ڈپٹی کمشنر فیصل آباد اسے میں فون کرتا ہوں تو اس کا ملازم فون اٹھا کر مجھے کہتا ہے کہ صاحب گھر پر نہیں ہے حالانکہ فون صاحب کے موبائل پر کیا گیا ہے۔ 


سردار عثمان بزدار صاحب نے ایک اور بریک تھرو کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ماڈل بازار مینجمنٹ اتھارٹی ختم کر کے اب از سر نو سہولت بازار اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے کرپشن کا مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا گزشتہ سال یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کے سربراہ کو اربوں روپے کی کرپشن پر ہٹایا جا چکا ہے۔ بزدار صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ماڈل بازار کانام سہولت بازار رکھ دینا ہی تمام مسائل کا حل ہے جبکہ ہم جیسے کچھ شرپسندوں کا خیال ہے کہ 


’’کیا ایک زرداری سب پر بھاری ہے‘‘

natha singh and prem singh


one and the same thing


ہر سال رمضان کی آمد پر اربوں روپے سبسڈی کے نام پر قومی خزانے سے Drain out ہوتے ہیں مگر وہ پیسہ اور رعایت عوام تک نہیں پہنچ پاتی اس سے ماڈل بازاروںاور سہولت بازاروں کا ہیرا پھیری کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے پورٹریٹ بینر اور فلیکس لگائے جاتے ہیں جس میں وقت کے حاتم طائیوں کی قد آدم تصاویر ہوتی ہیں جیسے یہ اپنے گھر سے لا کر 7 ارب روپے کی بخششیں بانٹ رہے ہوں روزانہ کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنر، وزراء اور ممبران پارلیمنٹ ان بازاروں کی رونق بڑھاتے ہیں یہاں دن میں کئی کئی  بار فوٹو سیشن ہوتا ہے اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ دودھ اور شہد کی جو نہریں اب تک جاری نہیں ہو سکی تھیں اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور سہولت بازار کے سرچشمے ابل رہے ہیں حالانکہ اس سے بڑا فراڈ اور دھوکہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس بیورو کریٹ اور سرکاری اہل کار کو سارا سال کرپشن کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا ہو رمضان سبسڈی پیکیج میں اس کی بھی لاٹری نکل آتی ہے اور تو اور ان بازاروں میں سستے آٹے کی سپلائی کی ذمہ داری علاقہ کے پٹواری کی ہوتی ہے کہ وہ فلور ملوں سے ’’آٹے کی سیل کا حساب رکھتا ہے آٹے کی سبسڈی کی بندر بانٹ ریوڑیوں سے زیادہ میٹھی ہے کیونکہ اس میں روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ ایسا مال بھی فروخت ہو  جاتا ہے جو بازار میں بکنے کے لیے آتا ہی نہیں یہی حکومت کی جادو گری ہے۔ 


کورونا ویکسی نیشن ،شہباز شریف کی یاد ستانے لگی

حکومت آج کل پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ سے جشن منا رہی ہے وزراء کے ٹویٹر بیانات اتنے رنگ برنگے ہیں جس سے ان کی ذہنی سطح کا اندازہ ہو جاتا ہے جتنی خوشیاں منائی جا رہی ہے میاں محمد بخشؒ کا یہ آفاقی شعر یاد آ رہا ہے کہ 


دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا


ڈیگر تے دن گیا محمد اوڑک نوں ڈب جانا


ویسے بھی حکومت کی یہ خوشی بے موقع ہے حکومت کو پی ڈی ایم سے نہیں اصل خطرہ تو مہنگائی سے ہے جس نے خلق خدا پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے حکومت کی جو حکمت عملی چل رہی ہے اور انہوں نے عوام کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے اس سٹیج پر میرے خیال میں انہیں کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں رہی جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے عوامی بے چینی اتنی بڑی گئی ہے کہ 2023ء الیکشن کی تاب لانا ممکن نہیں رہا ۔ حکومت اپنی آدھی مدت اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی پر صرف کر چکی ہے اصل مسائل جوں کے توں نہیں بلکہ گھر کو آگ لگی ہوئی ہے اور حکومت اپنے سیاسی معاملات اور اپوزیشن کے ساتھ حساب کتاب برابر کرنے میں مصروف ہے۔ وقت ان سے پوچھے گا اور وقت بہت بڑا منصف ہے


’’ کرونا سے بڑھتی اموات اور جشن بہاراں ‘‘

ہم اگر آگہی کے مجرم ہیں


وقت منصف ہے فیصلہ دے گا


کہتے ہیں کہ بوڑھے عیسائی نے اپنی فاقہ کش اور بیمار شریک حیات کو مخاطب کر کے کہا کہ تم فکر نہ کرو مسلمانوں کا رمضان کا مہینہ صبر کر لو بعد میں یہ سب کچھ سستا ہو جائے گا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ 7.8 ارب روپیہ سبسڈی پر ضائع کرنے کی بجائے ملک میں پرائس کنٹرول کا مربوط ، جامع اور فول پروف نظام رائج کر دیتی تو سہولت بازاروں اور ماڈل بازاروں جیسے چور بازاروں کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ مگر حکومت کی یہ ضد ہے کہ کریڈٹ لینا ہے خواہ یہ جعلی ہی کیوں نہ ہو۔ 


بہاولنگر: باراتیوں نے چاندی کے سکے اور انگوٹھیوں کی بارش کردی

رمضان پیکیج کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی حقیقت ہے ہی نہیں یہ ایک دلفریب دھوکہ ہے جس کے اصل استفادہ کنندگان میں بیورو کریسی اور مقامی سیاسی قیادت شامل ہوتی ہے۔ اس کا چرچا اور مشہوری دیکھ کر نصرت فتح علی خان یاد آتا ہے جس نے کہا تھا کہ 


ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو


تم ایک گورکھ دھندا ہو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج