عرض کچھ یوں ہے کہ؟ چودھری خادم حسین - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

عرض کچھ یوں ہے کہ؟ چودھری خادم حسین

عرض کچھ یوں ہے کہ؟

چودھری خادم حسین


Mar 20, 2021

عرض کچھ یوں ہے کہ؟

   

ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا، جس پر اتنا کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ یہ امر بالکل واضح تھا کہ پیپلزپارٹی غیر مشروط استعفے نہیں دے گی۔ ہم نے بھی یہ عرض کیا تھا کہ پیپلزپارٹی کے متعدد سینئر رہنما بھی 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی کسک اب تک محسوس کر رہے ہیں، تاہم جو بھی امید اور توقع پیدا ہوئی وہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پرجوش تقریروں کے باعث تھی، جو یہ تک بھی کہہ گئے کہ 4اپریل کو بھٹو کی برسی بھی دھرنے ہی کے دوران منائیں گے، تاہم غور کریں تو یہ سب لانگ مارچ کے حوالے سے کہا گیا اور بلاول نے تو اپنی تنظیموں کو بھی تیاریوں کی ہدائت کر دی تھی۔ سندھ پیپلزپارٹی کے صدر نثار کھوڑو اور سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے جماعتی، تنظیمی اجلاس بھی منعقد کئے، لیکن ایک زرداری نے جو ان سب پر بھاری ہیں، ایک ہی وار میں سب تلپٹ کر دیا اور اب سب اسی لکیر کو پیٹے جا رہے ہیں۔


صنعتوں کو اضافی گیس فراہمی بندکرنے کا حکومتی فیصلہ بحال ، حکم نامہ جاری 

ہم نے عرض کیا تھا کہ پی ڈی ایم اتحاد ضرور ہے، لیکن مفادات کے تحت ہے اور مفادات ہی اس کو اکٹھا رکھیں گے۔اس کا مطلب یہی تھا، اگر مفاد ٹکرائے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اب وہی ہو رہا ہے، اگر ذرا غور کریں تو مختصر ابتدا بھی طلال چودھری کے ٹویٹ سے ہو گئی تھی، جب انہوں نے بلاول کو مزہ چکھنے کا طعنہ دیا اور اس پر کوئی مذمت نہ ہوئی، جبکہ دوسرے متوالے خالد لطیف نے بیان دیا تو اس سے رانا تنویر کے علاوہ محترم شاہد خاقان عباسی نے بھی لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا، لیکن نہ تو قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف اور نہ ہی ان کی صاحبزادی مریم نواز (نائب صدر) نے ایسا کچھ کہا، بلکہ مریم نواز نے خالد لطیف کی وفاداری کو سراہا تھا، بہرحال خالد لطیف نے جو وضاحت کی وہ ان کے جذبات کی عکاسی ہے جو انہوں نے اپنی قیادت کے حوالے سے مشروط طور پر کہنے کی کوشش کی تھی۔


موٹروے زیادتی کیس کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائےگا

یہ سطور گواہ ہیں کہ میں نے سابق صدر آصف علی زرداری کی اپنے سوال کے جواب میں گفتگو کا حوالہ دیا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے، جب وہ اپنا عہدہ صدارت مدت کی تکمیل کے بعد چھوڑنے اور ایوان صدر خالی کرنے والے تھے، تب ان کے بہی خواہ (یہ بھی صحافیوں ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے) الوداعی ملاقاتوں کا انتظام کر رہے تھے۔ لاہور سے چیئرمین پروگریسو گروپ معین اظہر کے توسط سے پریس کلب کے کئی ارکان کو بھی بلایا گیا۔ معین اظہر کے کہنے پر میں بھی شامل باجا ہو گیا، جاتے ہوئے بھی مجھے اندیشہ تھا کہ میری شرکت شاید وہ مقصد پورا نہ کرے جس کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی بیٹ سالہا سال کرنے کے باوجود تعلقات کے حوالے سے خوش نصیب ہوں، لیکن سوال کر لینے کے باعث بعض حضرات کے لئے ناپسندیدہ بھی ہوں، بہرحال ایوان صدر میں ملاقات ہوئی، بزرگی کے حوالے سے مجھے صاحب صدر کے دائیں طرف جگہ ملی، بات شروع ہو گئی، چند کلمات محترم آصف علی زرداری نے کہے تو میں نے سوال کر ہی دیا کہ پانچ سالہ دور اقتدار میں پیپلزپارٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل کیوں نہ ہوا اور پارٹی کا کردار کیوں سامنے نہیں آیا، بات خود صاحب صدر کو پوری طرح سمجھ آ گئی اور انہوں نے تیز لہجے میں کہا، میں نے اپنے عرصہ اقتدار میں پارٹی کارکنوں کو تو بچایا، ساتھ ہی آپ جیسے ترقی پسندوں کو بھی تحفظ دیا، بین السطور انہوں نے جو کہا وہ اگر کسی کے پلے پڑا ہو یا نہ،


24گھنٹوں میں کورونا سے مزید42 افراد جاں بحق،3876نئے کیسز رپورٹ

لیکن سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں ہی جانتے تھے کہ کیا پوچھا اور کیا جواب ملا، یہ بات اس برخوردار کو پسند نہ آئی، جس نے اپنے نمبروں میں اضافے کے لئے یہ ملاقات کرائی تھی، چنانچہ مداخلت ہوئی اور مبارک سلامت شروع، بعدازاں مجھ سے یہ شکوہ کیا گیا”آپ نے تو پریس کانفرنس شروع کر دی تھی، میں اور میرے جیسے بعض دوسرے شرکاء حیران تھے کہ ملاقات کا مقصد صرف تعریف تھا، اس برخوردار کو بخوبی علم تھا کہ ابتدا ہی سے پیپلزپارٹی کی ”بیٹ‘ کرنے کی وجہ سے میرے اپنے تعلقات بھی ہیں اور سوال کرنے والا بھی مشہور ہوں، آصف علی زرداری سے بھی کئی بار بالمشافہ سوال و جواب اور تبادلہ خیال ہو چکا ہوا تھا، بی بی کے خلاف عدم اعتماد کے دوران تو ایک ملاقات بہت ہی اہم اور یادگار بھی ہے، اس میں میرے کزن (چھوٹے بہنوئی) کے دوست اور مرحوم ڈاکٹر جہانگیر بدر بھی موجود تھے، اسی طرح میں ایک مثال محترمہ بے نظیر بھٹو کی دے چکا ہوا ہوں کہ انہوں نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کے اسٹیبلشمنٹ کے حضرات کے ساتھ تعلقات پر بُرا نہیں منایا تھا،

 مگر وہ چاہتی تھیں کہ ان کے علم میں ضرور رہے، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو اپنے بعض اہم ساتھیوں کے حوالے سے جانتے تھے اور ان کو وزیر بھی بنا رکھا تھا، تو صاحبو! یہ کون سی اچنبھے کی بات کی جا رہی ہے کہ آصف زرداری اپنے تعلقات استوار کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ یہ طے ہے کہ نہ تو خود وہ (زرداری)نہ بلاول اور نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو انقلابی تھیں (اصل معنوں میں) یہ بھی عرض کر دیں کہ خود ذوالفقار علی بھٹو بھی سوشلسٹ انقلاب والے انقلابی نہیں تھے۔ وہ بھی خود کو سوشل ڈیموکریٹ کہتے تھے۔ البتہ یہ بات عملاً ثابت ہے کہ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ایسے نہیں تھے کہ آنکھ بند کرکے تائید کریں اور ہر ہدایت مانتے چلے جائیں۔ وہ ”ترقی پسند“ یقیناً تھے اور اب بلاول بھٹو بھی نظر آتے ہیں لیکن چیئرمین کی اپنے شریک چیئرمین کے سامنے چلت نہیں ہے کہ وہ والد بھی تو ہیں۔


ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی کا رات گئے تھانہ اچھرہ کا دورہ

یہ سب اس لئے لکھا کہ حالات کا تقاضا یہی ہے۔ اس لئے پہلے تو قارئین یہ جان لیں کہ یہاں کوئی انقلاب نہیں لا رہا اور نہ ہی کوئی خود کو ڈی کلاس کرنے کے لئے تیار ہے اور ہو گا، چاہے کوئی بھی ہو، اس لئے اسے اقتدار کی جنگ جانیں۔ اس کے لئے ہر حربہ درست قرار پاتا ہے۔ اب اگر ان حالات اور واقعات کی روشنی میں غور کریں تو بخوبی سمجھ آ جائے گی کہ کیا ہو رہا ہے، اسی لئے میں نے ہمیشہ یہی عرض کیا کہ محاذ آرائی ختم کریں، پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق قومی اتفاق رائے اور قومی مصالحت کریں، سب اپنے اپنے موقف اور منشور کے مطابق پارلیمانی روایات پر عمل کریں کہ ملک میں امن و استحکام ہو اور عوامی مسائل حل ہو سکیں، جن کے نصیبوں میں کوئی انقلاب نہیں، نہ تو یہاں کوئی خمینی ہے، نہ ہی ماؤزے تنگ اور چی گویرا۔ اللہ سے دعا کریں کہ یہاں کوئی گورباچوف نہ ہو، ہماری درخواست ہے کہ بات مان لیں، احتساب، احتساب کی جگہ، عدالتوں، جرنلزم اور شہریوں کے ساتھ سیاست کو آزاد رہنے دیں۔


 اپوزیشن شروع دن سے ایک دوسرے کی اپوزیشن ہے،پی ڈی ایم کا لانگ مارچ دو لفظوں کی پریم کہانی تھی : فرخ حبیب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج