معاشرتی تعلیم سے عاری نصاب
نواز خالد عاربی
Mar 20, 2021
معاشرتی تعلیم سے عاری نصاب
اکتوبر 2012ء میں ایک اعلیٰ سطحی وفد وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں تُرکی کے سرکاری دورے پر تشریف لے گیا۔دورے کے دوران، وزیراعلیٰ کی، تُرک صدر، وزیراعظم،نائب وزیراعظم،استنبول کے میئر،دیگر وزارتوں اور اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہوئیں، جن کے دوران مختلف شعبہئ ہائے زندگی میں، پنجاب اور تُرکی کے درمیان سرمایہ کاری اور باہمی تعاون پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ وفد کے ایک رُکن کے بقول سرکاری معاملات سے ہَٹ کر، باہمی دلچسپی کے امور پر بھی گفتگو ہوئی۔ایک نشست میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے میزبان وزیراعظم سے سوال پوچھا کہ آپ کے ہاں سرکاری محکموں میں کرپشن کی اوسط کیا ہے؟ میزبان نے بات کو عدم توجہی سے لیا اور گفتگو کا رُخ اور جانب موڑدیا۔ یہی سوال وزیراعلیٰ نے دوسری نشست کے اختتام پر اُٹھایا تو میزبان نے دوبارہ اسے بظاہردرخوراعتنانہ سمجھا۔ بقولِ راوی، وزیراعلیٰ کو بے چینی سی ہوئی کہ میزبان سوال کا جواب دینے سے کیوں گریز پا ہیں۔
صنعتوں کو اضافی گیس فراہمی بندکرنے کا حکومتی فیصلہ بحال ، حکم نامہ جاری
لہٰذا رات کو کھانے کی میز پر،جہاں تُرک صدر، وزیراعظم، نائب وزیراعظم اور دیگر وزارتوں کے سربراہ شامل تھے، وزیراعلیٰ نے تیسری بار وہی سوال اُٹھایا اورجواب حاصل کرنے کا جواز فراہم کرنے کے لئے کہا کہ ہمارے ہاں تو سرکاری محکموں میں بدعنوانی کی شرح 70فیصد ہے۔ میزبانوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سوال کا جواب، براہِ راست دینے کی بجائے، اپنا معاشرتی اور تعلیمی پس ِ منظرباری باری پیش کیا۔ سب کازور دوباتوں پر تھا۔پہلا یہ کہ وہ سب سرکاری سکولوں کی پیداوار تھے، دوسرا یہ کہ اُن کے صدر اور وزیراعظم، دونوں کے پاس،ذاتی گھر اور گاڑی نہ تھی،بلکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ قیام پذیر تھے۔اگلی بات اُنہوں نے یہ کہی کہ ”آج سے پچاس سال قبل ہمارے بڑوں نے نظام تعلیم کو معاشرتی اور سرکاری میدانوں میں تبدیلی کا پہلا چشمہ گردانا۔لہٰذا اساتذہ کی نئی بھرتی کی۔ اُن کی تربیت پر زور دیا، جس کی بدولت آج ہمارے ہاں نئے تعلیمی نظام کے تعلیم یافتہ افراد میں بدعنوانی صِفرفیصدہے۔ البتہ پرانے نظام تعلیم کے فیض یافتگان میں بدعنوانی13فیصد ہے۔آج ہمارا استاد ہمارے معاشرے کا ہیرو ہے۔ بارش آئے، طوفان آئے، اُس نے ہر حال میں وقت پر سکول پہنچنا ہے۔ اُس کی تربیت کی وجہ سے، آج ہمارا معاشرہ اَخلاقی، معاشرتی اور دیگر شعبہئ ہائے زندگی میں ترقی کی طرف گامزن ہے“۔
موٹروے زیادتی کیس کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائےگا
آج ہم ایم فِل،پی ایچ ڈی اور دیگر علمی اور پیشہ ورانہ ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔غور طلب بات ہے کہ مختلف عہدوں پر فائز،اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افرادکے سبب معاشرے میں بالعموم اور شعبہئ تعلیم میں بالخصوص کتنی مثبت تبدیلی آئی ہے؟اگر ریسرچ کروا لی جائے تومعلوم ہو گاکہ ایسی ڈگریوں کا معاشرتی اخلاقیات سے قطعاً تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم پہلی کلاس سے اُوپر، اپنے سلیبس کا جائزہ لیں، توہمیں دو طرح کے سلیبس دِکھائی دیتے ہیں۔ ایک وہ جو سرکاری اداروں اور کچھ نجی ادارں میں، بااَمرِ مجبوری پڑھایاجاتا ہے، اور دوسرا وہ سلیبس ہے، جو اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے لئے مختص کیا گیا ہے، جہاں وَطنیّت اور دین کے حصّے میں آئے صفحات یا تونا پیدہیں یا اِن کی تعداد انتہائی محدود ہے۔ جب تک کوئی قوم معاشرتی تعلیم کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بناتی،وہ انتظامی پالیسیوں یامالی حوصلہ افزائی کے ذریعے معاشرے کو ترقی کے مربُوط راستے پر کبھی گامزن نہیں ہو سکتی۔
24گھنٹوں میں کورونا سے مزید42 افراد جاں بحق،3876نئے کیسز رپورٹ
اگر آج ہم اپنے معاشرے پر اَجمالاً نظر دوڑائیں توکوئی ایک بھی شعبہ زندگی ایسا نظرنہیں آتا، جسے ہم اعتماد کے ساتھ، اخلاقی اور انتظامی کامیابی کے نمونے کے طور پر پیش کر سکیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہے، کیا ہم، خود سے، عوامی مقام پر تمباکو نوشی سے پرہیز کرنے پر تیار ہیں؟ سڑک پر سُرخ بتی پر رُکنے کے لئے آمادہ ہیں؟ بھٹوں سے اُٹھتے ہوئے دھوئیں کوماحولیاتی آلودگی پر اثر انداز ہونے سے روکنے پر آمادہ ہیں؟کیا راہ گزرتے، پیدل مسافر کو راستہ دینے کے لئے گاڑی کو لمحہ بھر کے لئے روکنے کو تیار ہیں؟ کیا سڑکوں، نہروں کے پشتوں اوردیگر عوامی مقامات سے درختوں کو دانستہ ہوس زَدگی کا شکار نہیں کر رہے؟ جلسہ، جلوس نکالتے وقت، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے ذمہ دار ہم خود نہیں؟کیا ہم نے فٹ پاتھوں پربلا خوف و خطر قبضے نہیں جما رکھے؟کیا اَدنیٰ سی بات پر ہم گالی گلوچ پر نہیں اتر آتے؟کوئی ایسا سرکاری محکمہ،جہاں بے بس، لاچار اور غریب شہری وہی عزت پاتا ہے، جو اُس کا حق ہے؟کیا ہم ٹیکس دینے پر تیار ہیں؟ اور تو اور یہ سب کچھ کرنے کے ذمّہ دار ہونے کے باوجود،پسندیدہ جملے کے طور پر،ہر مقام پر یہ نہیں کہہ رہے ہوتے کہ ”پاکستان میں تو ایسا ہی ہوتا ہے؟“ یہ پاکستان میں ایسا کرنے والی مخلوق کہاں سے آتی ہے؟ان سب امور کا تعلق معاشرتی تعلیم سے عدم آگہی سے ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی کا رات گئے تھانہ اچھرہ کا دورہ
اگر ہم نے ایک قابل ِ رشک اور ترقی یافتہ قوم بننا ہے، تو سب سے پہلے ہمیں اپنی معاشرتی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی،جو صرف تعلیمی نصاب کے ذریعے ہی ممکن ہے،کیونکہ، چاہے خاندان کے افراد ہوں یا میڈیا ہاؤسز کے مالکان،مساجدکے خطیب ہوں یا کسی بھی اورروّیے یا رائے کے لوگ ہوں، سب سکولوں سے ہو کر مقاماتِ موجودہ تک پہنچے ہیں۔لہٰذا نصاب اوراستاد پر توجّہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ استاد جو بچوں کے مستقبل کا ضامن ہے، اسے آج قابل تضحیک القابات سے پکارا جاتا ہے۔ معاشرہ اور نظام اُس کو وہ عزّت دینے سے گریزاں ہے، جس کا وہ حقدار ہے۔ استاد بچوں کا پہلا ہیرو ہوتا ہے۔ وہ اس کی عادات، گفتگو اور روّیوں کو نقل کرتے ہیں۔اگر وہ جھوٹ بولتا ہو گا یاگالی دیتا ہو گا یامعاملات میں دھوکے کا مرتکب ہوتا ہو گا، توطالب علم مستقبل میں بھلے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر لیں،معاشرے کے لئے اعلیٰ انسان ثابت نہیں ہو سکتے۔
اپوزیشن شروع دن سے ایک دوسرے کی اپوزیشن ہے،پی ڈی ایم کا لانگ مارچ دو لفظوں کی پریم کہانی تھی : فرخ حبیب
اگرہم نے تُرکی سے سوال پوچھا ہے، تواس کے جواب سے اتفاق بھی کریں۔ ہم صرف ایک صورت میں ایک بہترین اورمُنظّم قوم بن سکتے ہیں، وہ یہ کہ محکمہ تعلیم کوسیاست سے الگ کر کے تعلیمی نصاب کو معاشرتی اصولوں پر مرتّب کریں،اور اساتذہ کے چُناؤ، اُن کی تربیت، اورمعاشرتی مقام کا واضح تعین کرنے پر توجہ کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں