معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کا فکر انگیز نوحہ
میں ایک یونیورسٹی پروفیسر ہوں۔اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر کر دیا گیا ہوں۔
مجھے بخوشی فارغ کر دیا گیا کیونکہ جو میں پڑھانا چاہتا تھا، مجھے نہیں پڑھانے دیا گیا۔ اوسط درجے کے معمولی چاپلوس پروفیسر مجھے شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔حاسد اور حسرتوں کے مارے پروفیسر میرے خلاف نالائق طالب علموں کو استعمال کر کے سازشیں کرتے تھے۔ میں خاموشی سے سب دیکھتا رہا۔باہر کی یونیورسٹیوں اور ملکوں سے کانفرنس میں شرکت کے دعوت نامے غائب کرتے رہے۔ مارشل لاء حکومتوں میں میرے جیسے اساتذہ کے خلاف پمفلٹ نکالتے رہے۔ خوشامد کے زور پر ہر طرح کی ترقیاں لینے والے Best Teacherایوارڈ لیتے رہے۔ پڑھانے کی بجائے وائس چانسلروں کے ذاتی کام کرتے رہے۔ ترقیوں کے لئے ریسرچ کے نام پر بھوسہ بھرے پیپرز چھپواتے رہے۔ بڑی کامیابی سے غیر جمہوری حکومتوں کواخلاقی جواز فراہم کرتے رہے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کا نعرہ لگانے والے جابر سلطانوں کے جوتے چاٹتے رہے۔ میں یہ سب دیکھتا رہا۔ اور میں اُن کی بنائی ہوئی ترتیب شدہ کتابیں پڑھانے پر مجبور ہوتا رہا۔ یونیورسٹیوں کے کلچر میں علم اور شفافیت کی جگہ تعصب، تنگ نظری اور سازشوں کو پلتے دیکھتا رہا۔ ہم اندھوں میں کانے راجے پیدا کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے رہے۔
میں جو پڑھانا چاہتا تھا، نہ پڑھا سکا اور جو نہیں پڑھانا چاہتا تھا وہ پڑھانے پر مجبور ہوا۔
آج اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے جو شاگرد پیدا کیے وہ ڈاکٹر، انجینئر، بینکر اور اُستاد بنے۔ مگر اُن میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ اس کا اندازہ مجھے وقتاََ فوقتاََ ہوتا رہتا ہے۔ جب میں اپنے زخموں کے علاج کے لئے چھ دن ہسپتال میں رہا تو چھ لاکھ کا بل دیکھ کر بلبلا اُٹھا۔ میرے کسی شاگرد نے کان میں کہا، ’’سر یہ تو آپ کو دینا پڑے گا کہ آپ نے ہمیں جو پڑھایا اُس میں تو یہی کچھ ممکن ہے۔‘‘
پھر جب میں انجیوگرافی کے لئے داخل ہوا تو میرے شاگرد ڈاکٹر نے میرے کان میں کہا، ’’سر اگر سرکاری علاج کرانا ہے تو دوسال بعد باری آئے گی اور اگر جیب سے علاج کرائیں گے تو دس منٹ میں باری آجائے گی۔‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا اس نے کہا ’’جو آپ نے پڑھایا اُس میں بس یہی ہو سکتا ہے۔‘‘
ایک دن کسی کام سے سیکریٹریٹ گیا۔ سیکریٹری کو نام کی چٹ بھیجی، اُس نے نہیں بلایا۔ میں ڈھیٹ بن کے بیٹھا رہا۔ جب کسی میٹنگ میں جانے کے لئے نکلا تو میں سامنے آگیا۔ میں نے کام بتایا ۔اس نے کہا ’’سر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ آپ نے ہمیں جو پڑھایا تھا اُسے بھلانے میں بہت وقت لگا ہے۔ بڑی مشکل سے وہ سب بھلا کر اس جگہ پہنچا ہوں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
ایک دن میرے گھر کی بجلی کئی گھنٹے تک نہ آئی تو میں ایس ڈی او کے پاس گیا اور اُس نے مجھے دیکھ کر کہا۔ ’’سر جو کچھ آپ نے ہمیں پڑھایا تھا ۔اُس میں تو یہ جو بجلی آپ کو مل رہی ہے۔ یہ بھی نہیں ملنی چاہیے۔‘‘
آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے لولی لنگڑی اور اداس نسلیں پیدا کرنے میں حصہ لیا ہے۔
تنگ نظری اور تعصب نے پڑھے لکھوں میں کیسے راستہ بنایا۔ پھر کس طرح انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ کس طرح بڑے بڑے کالم نگاروں، سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور بیورو کریٹس نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جواز فراہم کیے۔ جب ایک خودکش حملہ آور اپنے دل، دماغ اور آنکھ پر پٹی باندھتا ہے تو اس کا ذمہ دار میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں۔ یونیورسیٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر اقلیتوں اور مسلمانوں کو جب عبادت گاہوں میں بارود سے اڑاتے ہیں تو اس میں کچھ حصہ میرا بھی ہے۔
آج میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے کیا پڑھانا چاہیے تھا۔ میری بڑی خوہش تھی میں یہ پڑھاؤں کہ اللہ کو خوبصورتی پسند ہے۔ جمالیات کیا ہوتی ہے۔ اس کا فلسفہ کیا ہے۔ جمالیات کے فلسفے پر کئی کتابیں موجود تھیں۔ ہم نے اُن کی طرف رجوع نہ کیا۔ جمالیات کو سمجھے بغیر ہم سبحان اللہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے۔ مجھے کسی نے یہ پڑھانے نہیں دیا کہ خوبصورتی کی تحسین کیسے کرنا ہے۔ اس میں تمام فنون لطیفہ کی بحثیں آجاتی ہیں۔ میں جغرافیہ لازمی کرنا چاہتا تھا کہ اللہ کو سمجھنے کی سیڑ ھی جغرافیہ ہے۔ اُس کی زمینیں، اُس کے موسم، اُس کے جنگل، اُس کے دریا، اُس کے سمندر اور پھر سمندروں میں حیات، جنگلوں میں حیات۔ پرند چرند۔ اُن کی نسلیں۔ ان کی عادات کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ جانوروں سے وابستہ منفی تصورات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ کام ہم نے نہ کیا، غیروں نے کیا۔ نیشنل جیو گرافک چینل سے بہتر یونیورسٹی نہیں ہے۔
میں پڑھانا چاہتا تھا کہ ہماری تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے۔ میں انسانی تاریخ پڑھانا چاہتا تھا۔ مجھے اغواء شدہ پاکستانی تاریخ پڑھانے پر لگا دیا گیا۔ ظالم بادشاہوں کے قصیدے پڑھنے والے مورخوں نے وہ ٹیڑھی اینٹ رکھ دی جس پر جو عمارت بھی تعمیر ہوئی اُس کی غلام گردشوں میں ضیا الحقوں نے ٹک ٹکیاں لگا دیں۔ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے میلے میں پٹھورے اور گول گپے بیچنے والوں نے چاندی کمائی اور انسانوں کو بے حس کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ میں تاریخ مسخ کرنے والوں کی نشاندہی کرنا چاہتا تھا۔ مجھے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ کن لوگوں نے نظریہ پاکستان کو پوری قوم سے ٹھگ لیا۔ اور پھر اُس پر لمبی چوڑی مارکیٹنگ کی۔ جو اب تک جاری ہے۔ میں طلبا کو بتانا چاہتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، کن کونے کھدروں سے کیڑے مکوڑوں کی طرح نکلے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر قائداعظم کو ٹھگنے والے بونوں اور ٹھِگنے قد کے لوگوں کو طلباء سے متعارف کرانا چاہتا تھا۔ مجھے روک دیا گیا۔ میں طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا کہ ایوب خان کس طرح فیلڈ مارشل بنا اور اُس کے مشیروں نے ادب اور ادیبوں کو خرید نے کے لئے کس طرح کے گماشتے مقرر کیے۔ اُس نے شاہی قلعے میں حسن ناصر کو کیسے شہید کیا۔ کس طرح دانشوروں، سیاست دانوں اور باضمیر لوگوں کو ساری رات جگانے کے لئے حربے استعمال کیے۔ ان کے ناخن کس طرح پلاس سے اکھاڑ ے گئے۔ کس طرح ان کی چیخوں کو دبانے کے لئے اقدامات کیے گئے۔ ضیا الحق نے کس طرح ادیبوں، شاعروں، وکیلوں (اُس وقت کے وکیلوں) کسانوں اور صحافیوں کے ننگے جسموں پر کوڑوں کے ساتھ گرم پانی کی بوچھاڑ کروائی۔ کس طرح یہ لوگ پاگل ہوئے اور اُن کے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اداکارہ شبنم کیس میں راتوں رات ضیاء الحق نے پھانسی کے مجرموں کو کس طرح معافی دلوائی۔ کون شبنم کے گھر گیا اور اُس سے معافی نامہ لے کر آیا۔ میں یہ طلباء کو بتانا چاہتا تھا۔
میں طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا کہ سعادت حسن منٹو جب پاکستان آئے ہم نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ چھوٹی عدالتوں میں کس طرح ذلیل کیا۔ روزگار کے سارے دروازے بند کر دِیے۔ دس روپے میں تخلیقی مشقت پر افسانہ لکھوایا۔ قسطوں میں نہیں، یک مُشت مرنے پر مجبور کر دیا۔ پاک ٹی ہاؤس میں اُسے دیکھ کر قیوم نظراور شہرت بخاری ٹائلٹ میں ڈرکے کیوں گھسے تھے۔ بقول منٹو اُس نے تو کبھی بھی اُن سے اُدھار نہیں لیا تھا۔ میں منٹو کے افسانے، ’’کھول دو‘‘، ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ ،’’ موذیل ‘‘، ’’ بابو گوپی ناتھ ‘‘، ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘، ’’ شہید ساز ‘‘ اور ’’ننگی آوازیں ‘‘ پڑھانا چاہتا تھا۔ کورس مرتب کرنے والوں نے مجھے روک دیا اور جن اصحاب علم وادب نے یہ راستہ روکا وہ اس وقت بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پروفیسر ایمر یطس ہیں ۔
میں فیض کی نظم ’’ڈھاکہ سے واپسی پر ‘‘ پڑھانا چاہتا تھا اور طلباء کو اس مصرعے کا مطلب سمجھانا چاہتا تھا ۔’’ خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘۔ میں ناصر کاظمی کی غزل طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا۔ جو سنہ 1971ء کے بعد لکھی گئی۔ ’’وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے ‘‘ مجھے بس یہ بتانا تھا کہ وہ بھٹیالی گانے والے ہمارے طرزِ احساس سے کیسے نکل گئے او ر مشرقی پاکستان کی ستاون فلمیں جویہاں ریلیز ہوئیں وہ ہماری فلم انڈسڑی کو یکسر تبدیل کرنے ہی والی تھیں کہ سفر رُک گیا۔ میں بتانا چاہتا تھا کہ قرۃالعین حیدر، بڑے غلام علی خان اور ساحر لدھیانوی پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے اور سجاد ظہیر کو مچھ جیل میں کیوں بند کیا گیا۔ میں بہت کچھ پڑھانا چاہتا تھا ۔ انتظار حسین کا ’’شہر افسوس ‘‘، ’’ بستی ‘‘ اور ’’ہندوستان سے آیا ہو ا خط‘‘ مجھے نہیں پڑھانے دیا گیا۔ میں امر جلیل کی کہانیاں اور شیخ ایاز کی نظمیں پڑھانا چاہتا تھا۔ اور وہ سارا عالمی لٹریچر اور اپنی زبانوں کا لٹریچر جسے ہم نے اپنے طلباء سے چھپا لیا، وہ سب پڑھانا چاہتا تھا۔ اس طرح میں بھی کوتاہ قدرہ گیا اور میرے طلباء بھی ۔
آئینیسکو نے ایک ڈرامہ لکھا تھا، ’’ کرسیاں (The Chairs)‘‘۔ اس میں ایک ریٹائر ڈ افسر رات کے کھانے پر شہر کے تمام بڑے عہدے والے افسروں کو دعوت پر بلاتا ہے۔ جب وہ ایک ایک کر کے آتے ہیں تو سٹیج پر اُن کے وجود کے بجائے اُن کی صرف کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان کرسیوں سے میزبان گفتگو کر کے بتاتا ہے کہ صاحبو درحقیقت تو تم صرف کرسیاں ہو۔ تم اس سسٹم میں اپنی شناخت گم کر بیٹھے ہو۔ میں بھی ایک ڈنر پر سب بڑے لوگوں کو بلا کر یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں جو پڑھانا چاہتا تھا کیوں نہیں پڑھا سکا۔ مگر میرا یہ اعتراف صرف خالی کرسیوں سے ہو گا کہ وہ سب افسر اپنا وجود نہیں رکھتے۔
(اصغر ندیم سید)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں