بیانیے کی موت - قیوم نظامی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

بیانیے کی موت - قیوم نظامی

 قیوم نظامی

Mar 20, 2021

شیئر کریں:

بیانیے کی موت

دنیا کی تاریخ شاہد ہے ایسی تحریکوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے جن میں ایسے سلوگن نعرے استعمال کیے جاتے ہیں اور ایسا بیانیہ اختیار کیا جاتا ہے جو متفقہ نہیں بلکہ اختلافی ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ اس کا بیانیہ اجتماعی اور متفقہ یعنی آزاد وطن کا حصول تھا قائد اعظم نے کبھی ایسا سلوگن اور بیانیہ استعمال نہ کیا جو مسلمان قوم کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا۔ جنرل ایوب خان کے خلاف بھی تحریک اس لیے کامیاب ہو سکی کیونکہ اس کا بیانیہ بھی روٹی کپڑا اور مکان تھا جو پاکستان کا ہر شہری مانگ رہا تھا۔

 مسلم لیگ نون کے لیڈروں نے ذاتی انتقام اور غصے کی بنیاد پر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا جس پر اپنی جماعت کے اندر بھی اتفاق رائے پیدا نہ کیا جا سکا۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے واحد لیڈر میاں محمد نواز شریف نے سلامتی اور دفاع کے اداروں اور ان کے سربراہوں کو نشانہ بنانا شروع کیا  ان کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کے عوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ پاکستان کے عوام کی یہ خواہش ضرور ہے کہ مقتدر ادارے آئین کی حدود میں رہیں مگر عوام ریاست کے محافظ ادارے کے مقابل کھڑے ہونے پر آمادہ نہیں ہیں۔ مسلم لیگ نون کی قیادت کسی حد تک عوام  میں جوش و خروش پیدا کرنے میں تو کامیاب ہوئی ہے مگر وہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کو ووٹ کو عزت دو کے سلوگن پر متفق کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ 

میاں نواز شریف اگر پاکستان سے باہر بیٹھ کر الطاف حسین کی طرح سلامتی کے اداروں کی کلیدی شخصیات کا نام لے کر نہ للکارتے  تو پی ڈی ایم کی جماعتیں کسی نہ کسی متفقہ احتجاجی پروگرام پر متفق اور متحد ہو جاتیں۔ ہر سیاسی لیڈر کی اپنی ایک سیاسی عمر ہوتی ہے جس کے بعد اس کی عوام میں دلکشی پذیرائی اور چاشنی ختم ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف اپنی سیاسی عمر بسر کر چکے ہیں اس کے باوجود وہ سیاست میں زندہ رہنے کے لئے اور اپنی بیٹی کو سیاسی ورثہ منتقل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں جس میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان کے کرپٹ کلچر میں کوئی ایسا سیاستدان کامیاب نہیں ہوسکتا جو اخلاقی وجود کا حامل ہو۔ پاکستان جیسی غیر انسانی غیر اخلاقی غیر جمہوری سیاست میں آصف علی زرداری  پاکستان کے انتہائی ماہر اور شاطر سیاستدان ثابت ہوئے ہیں۔ 

انہوں نے اپنے مخالف تیز ہواؤں کے باوجود حکومت کے پانچ سال مکمل کئے۔ بارہ سال ثابت قدمی کے ساتھ جیل بھی کاٹی  اور مجاہد صحافت محترم مجید نظامی نے ان کو مرد حر کا خطاب بھی دیا۔آصف زرداری نے پی ڈی ایم کی تحریک کے دوران سیاسی شطرنج کے مہرے مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ایسی کامیاب سیاسی چالیں چلیں کہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن دونوں کو سیاست کے میدان میں مات دے دی۔جو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پھانسی میں شریک جرم تھے ان کو گڑھی خدابخش میں شہیدوں کے مزار کے سامنے  عوام سے معافی مانگنے اور شہیدوں کی قبروں پر پھول ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ سیاست کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پی ڈی ایم میں شامل وہ سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی سے استعفوں کا مطالبہ کر رہی ہیں جو پاکستان کے کسی صوبے میں  حکومت میں شامل نہیں ہیں۔ صوبہ سندھ میں حکومت کی وجہ سے جو سیاسی دہاڑی لگتی ہے اس سے وہ سیاسی جماعتیں آشنا ہی نہیں ہیں جو کبھی اقتدار میں نہیں رہیں۔ سیاسی جماعت اربوں روپے خرچ کرکے اقتدار میں آتی ہے اور کھربوں روپے جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ 

ایسی سیاسی جماعت سے استعفوں کا  مطالبہ  کرنا اور یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی حکومت کو ختم کردے گی احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے۔ پی ڈی ایم کے آخری اجلاس  میں آصف علی زرداری نے جو خطاب کیا ہے وہ تاریخ کا سچ ہے انہوں نے بالکل درست مطالبہ کیا ہے کہ میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر ’’مفرور بھبکیاں‘‘ لگانے کے بجائے پاکستان واپس آئیں  اور لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک میں عملی کردار ادا کریں۔ پی پی کے سیاستدان  اتنے سادہ نہیں ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو احتساب کے شکنجے سے چھڑانے کے لئے اپنی حکومت ہی ختم کر دیں  اور جیل بھی کاٹیں جب کہ میاں نواز شریف خود لندن کی آزاد فضاؤں میں عیش و عشرت کرتے رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے مہم جویانہ  اور غیر دانشمندانہ بیانیے کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے ان کو پورا ادراک تھا کہ وہ اگر میاں نواز شریف کو نشانہ بنائیں گے تو مقتدر ادارے ان سے خوش ہوں گے۔ انہوں نے ضمنی انتخابات اور سینٹ کے انتخابات میں اپنی جماعت کے لیے سیاسی کامیابیاں بھی حاصل کر لی ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو واضح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اور پی ڈی ایم نے 26 مارچ کو شروع ہونے والا لانگ مارچ بھی ملتوی کر دیا ہے۔ اب شاید لانگ مارچ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ تحریک انصاف اور پی پی پی کے درمیان قربتیں بڑھیں گی کیونکہ دونوں جماعتیں اقتدار کی زنجیر سے بندھی ہوئی ہیں اور دونوں کا مفاد اس میں ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کر یں۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو  انتخابی اور معاشی نظام  میں جوہری اور انقلابی اصلاحات لانے کے لئے مشاورت کا آغاز کرنا چاہیے اور انتخابی نظام کو حقیقی معنوں میں صاف اور شفاف بنانے کے لئے  اصلاحات پر اتفاق رائے کرلینا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے انقلابی فیصلے کیے جانے چاہئیں۔

 اگر یہ دونوں جماعتیں آپس میں سمجھوتہ کر لیں تو وہ پاکستان کے نظام کو فعال اور موثر بنا سکتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے سپیکر قومی اسمبلی کے نام خط لکھ کر مفاہمتی عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ سیاستدانوں کی آپس میں محاذ آرائی کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور بے حسی پیدا ہو رہی ہے جسے ختم کرنے کا ایک ہی علاج  ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں  سنجیدہ غور و خوض کیا جائے  اور ایسی اصلاحات نافذ کی جائیں جن سے عوام کا اعتماد سیاست اور جمہوریت پر بحال ہو سکے۔ موجودہ ریاستی نظام ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے اسے عوام کی آرزوؤں اور تمناؤں کے مطابق فعال موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف اور پی پی پی اگر تھانہ کلچر پٹوار کلچر  ختم کر دیں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی اور مقامی حکومتوں کو خودمختار بنانے پر متحد اور متفق ہو جائیں  تو پاکستان کی سیاست اور جمہوریت  بھی مضبوط اور مستحکم ہوجائے گی گورننس بھی بہتر ہو سکے گی اور معیشت کا پہیہ بھی چلنے لگے گا۔ 

بے سود متنازعہ بیانیے کی وجہ سے میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اپنا سیاسی مستقبل مخدوش بنا لیا ہے۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز مسلم لیگ کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ کامیاب بیانیہ وہ ہوتا ہے جو عوام کی تمناؤں اور توقعات کے مطابق ہو۔پاکستان کے سابق بیوروکریٹ اور نامور مصنف مسعود مفتی اپنی کتاب’’دو مینار‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’آج کا پاکستانی نوجوان صرف اس پاکستان کو جانتا ہے جس کے سیاستدان موقع پرست ہیں۔ عوام بے آواز ہیں۔ بیوروکریسی بد نام ہے اور لیڈر خود غرض ہیں۔ جس میں بد امنی ہے بدقماشی ہے۔ بد عہدی ہے  اور ہر بدی کے سر پر چمکدار تاج ہے۔ منافقت بھرے ماحول میں اسلام جمہوریت آئین قانون انصاف اور عوامی بہبود  کے قصیدے تو دن رات گائے جاتے ہیں لیکن عملی طرز عمل سے ہر دم عوام کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج