کرونا سے بڑھتی اموات اور جشن بہاراں - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کرونا سے بڑھتی اموات اور جشن بہاراں

 20 مارچ 2021 |12:52 pm


’’ کرونا سے بڑھتی اموات اور جشن بہاراں ‘‘


Iftikhar Hussain Shah, column writer, Urdu, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

20 مارچ 2021 (11:24) 2021-03-20 

 میں نے دیکھا ہے کہ تیسری دنیا کے حکمران عموماً انتہائی بے حس ہوتے ہیں۔اُن کی بے حسی کی مثالیں آپ کو قدم قدم پر نظر ائیں گی۔ اس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے عوام زیادہ تر ان پڑھ اور غربت کی بھول بُھلیوں میں ہاتھ مارتے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، اس لیے اُنہیں اُن کے ساتھ حکمرانوں کے روا رکھے سلوک کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔اب آپ ذرا صوبہ پنجاب کی موجودہ حکومت کی بے حسی ملاحظہ فرمائیں۔کسے معلوم نہیں کہ صوبہ پنجاب میں اور خصوصاً لاہور شہر میں کرونا کی وبا زوروں پر ہے۔ لاہور شہر کا کو نسا ہسپتال ہے جس سے ہر روز کرونا کے مریضوں کے جنازے نہیں نکل رہے ہیں۔

ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر کم پڑ رہے ہیں۔ لوگ اپنے مریضوں کو اُٹھائے ہسپتالوں میں بستر تلاش کرتے پھرتے ہیں۔کرونا ایمر جینسیز (emergencies ) میں فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں اور نرسز کے لیے ویکسین تقریباً ختم ہو رہی ہے لیکن ہماری حکومت پنجاب جشن بہاراں اور پنجاب کلچر ڈے منانے میں مشغول رہی۔ اگر آپ لاہور شہر میں رہتے ہیں تو آپ ریس کورس پارک میں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کی طرف سے arrange کئے گئے جشن بہاراں کی تقریبات دیکھ سکتے تھے جہاں آپ کو انسانوں کے ہجوم در ہجوم نظر آتے۔کیا پنجاب حکومت نے یہ تمام اہتمام کرونا مریضوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کئے تھے۔ اسی طرح آپ لاہور شہر کی مشہور شاہراہ جیل روڈ پر آجکل ایک نظر ڈالیں ۔ قرطبہ چوک سے لے کر صدیق ٹریڈ سنٹر تک اورپھر صدیق ٹریڈ سنٹر سے گلبرگ کے مین بلیوارڈ سے ہوتے ہوئے کلمہ چوک تک آپ کو یہ شاہرائیں روشنیوں کے سمندر میں ڈوبی نظر آئینگی۔ ہر طرف آپ کو روشنیاں ہی روشنیاں بکھری نظرآئیں گی اور روشنیوں میں ڈوبے کئی structures نظر آئیں گے۔ لاہور کی نہر کے کنارے لگے درخت بھی آپ کو روشنیوں میں ڈوبے نظر آئینگے، حتیٰ کہ ان درختوں کے پائوں میں بھی روشنیوں کے گھنگرو باندھ دئیے گئے ہیں۔ کیا 


ڈاکٹر فیصل سلطان نے ملک میں سفری پابندی کا عندیہ دیدیا


دنیا کے کسی اور ملک میں بھی اس مہلک وبا کے دنوں میں لوگوں کے ہجوم اکٹھے کرکے جشن منائے جا رہے ہیں۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بجلی بہت مہنگی تیار ہوتی ہے اس لیے عوام کو سستے داموں نہیں دی جا سکتی ۔ کیا یہ مہنگے داموں تیار ہونے والی بجلی کو حکومتی ادارے یوں ضائع نہیں کر رہے ہیں ۔اس جشن بہاراں کے تمام انتظامات سرکاری ادارہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچراتھارٹی کر رہا ہے۔ کیا غریب عوام جو غربت کے مارے سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں اُس کے پیسے یُوں لٹائے جا رہے ہیں اور نتیجتاً انہیں کورونا جیسی مہلک بیماری میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ کہنے کو اس غریب ملک کے پاس کورونا جیسی مہلک بیماری سے بچائو کے لیے ویکسین خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور آج تک اس ملک میں جو ویکسین لوگوں کو لگائی جا رہی ہے وہ چین کی طرف سے ایک مدد کے طور پر دی گئی ہے۔لیکن اس غریب ملک کے حکمرانوں کو جشن مناتے دیکھیں۔ اس ملک کی بیوروکریسی کو اللہ موجودہ جیسے نا تجربہ کار حکمران دے دے۔ مجھے یقین ہے کہ بیورو کریسی موجودہ وزیر اعلیٰ کو یہ سبق پڑھا رہی ہو گی کہ ان تمام تقریبات کا انعقاد وہ اس ملک میں کام کرتی ملٹی نیشنلز اور دوسری کمپنیوں سے کرا رہے ہیں اور حکومت پنجاب کا اگر کوئی خرچہ ہو رہا ہے تو بالکل برائے نام۔

 آپ خود سوچیں کہ ملٹی نیشنلز اتنی بیوقوف ہیں کہ وہ بغیر کسی منفعت یا فائدہ کے اخراجات کیے جا رہی ہیں۔امریکی شہری ایک محاورہ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور وہ ہے There is no free lunch ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز مفت میں نہیں ملتی۔اسی طرح حکومت پنجاب کے محکمہ انفارمیشن اور کلچر نے موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب کوکلچر ڈے منانے کے فیوض و برکات سے آگاہ کرکے اسی کام پر لگا دیا ہے۔ کبھی ’’ پگ ڈے‘‘ منایا جا رہا ہے اور وزراء و افسران ’پگ‘ باندھے فوٹو کھنچوا کر وزیراعلیٰ ہاوس بھجوا رہے ہیں اور اپنے دفتروں کی دیواروں پر لگوا رہے ہیں۔ خدا سے ڈریں ، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ پچھلی حکومتوں کے لیے گئے قرضے ہم نے واپس کرنے ہیں تو دوسری طرف آپ ’کلچر ڈے‘ جیسی تقریبات پر اس غریب قوم کے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں، کیا انہیں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ حکومتی پیسہ در اصل بیوائوں اور یتیموں کا ہے جسے وہ اپنے ترجمانوں اور مشیروں کی فوج ظفر موج پر لٹائے چلے جا رہے ہیں ، جسے وہ جشن بہاراں اور پنجاب کلچر ڈے جیسے کاموں پر لُٹا رہے ہیں۔ 

آپ پچھلے تمام حکمرانوں کی لوٹ مار کا ذکر کرتے رہتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انہوں نے قوم کو لوٹا، چلو مانا ، لیکن یہ تو بتائیں کہ قوم ان کے لیے کتنا سڑکوں پر نکل آئی ہے جب وہ سب جیلوں میں پڑے ہوئے تھے اور پڑے ہوئے ہیں۔تو یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ قوم بیشک ان پڑھ اور غریب سہی لیکن خلوص اور ہمدردی کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے، سو انہیں معلوم ہے کہ اس ملک کے سیاستدانوں نے اُن کے ساتھ کیا کیا ہے۔آپ اس ملک کی تخلیق سے لے کر آج تک کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ، آپ کو بڑا واضح ہو گا کہ جب بھی اس ملک کے فوجی حکمرانوں نے اس ملک کے سیاستدانوں کی حکومتوں کو ختم کر کے انہیں جیلوں میں بند کر دیا تو اس ملک کی سڑکوں پر خاموشی ہی چھائی رہی ، نہ کوئی احتجاج ہو ا اور نہ کوئی جلوس ،بلکہ سچ پوچھیں تو لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ سچ یہ ہے کہ اس ملک کے so called جمہوری نظام نے قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔موجودہ سیاسی حکمرانوں سے اس غریب قوم نے کتنی امیدیں باندھی تھیں اور اب قوم پر جو گزر رہی ہے وہ قوم ہی جانتی ہے۔

صرف غربت میں اضافہ ہو ا ہے ۔ کیا آپ کو ہر طرف بھکاریوں کے جُھنڈ نظر نہیں آتے ، کچھ مانگتی آنکھیں نظر نہیںآتیں۔بھوک سے ماری اور کرونا سے تڑپتی قوم کو جشن بہاراں اور پنجاب کلچر ڈے نہیں چاہئیں۔ آپ انہیں پناہ گاہیں و لنگر خانے نہ دیں ، انہیں خیرات کی ضرورت نہیں ۔ بس اس غریب قوم کے پیسوں کا یوں استعمال کریں جیسے کوئی ریاست مدینہ کا امین کرتا تھا۔ 


1 تبصرہ:

پیج