خاص آدمی کیا جانے عام آدمی کو!!!!
Mar 20, 2021 محمد اکرم چوہدری
خاص آدمی کیا جانے عام آدمی کو
میں کوشش کرتا ہوں کہ قارئین کی طرف سے موصول ہونے والے خطوط اور ای میلز کو شامل کرتا رہوں اس میں تسلسل تو نہیں رہتا کیونکہ ہر روز ایک نیا موضوع اور مسئلہ سامنے ہوتا ہے ان حالات میں قارئین کے خطوط شامل نہیں کر پاتا اس کوتاہی پر معذرت خواہ ہوں۔ آج معزز قارئین کی ای میلز شامل کرتا ہوں۔ اقبال الدین احمد کا بہت مشکور ہوں وہ انگلینڈ میں رہنے کے باوجود نوائے وقتیے ہیں، سائرن بھی پڑھتے ہیں اور ہمیشہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے اقبال الدین احمد نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ اس حوالے سے وہ ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ پاکستان کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں، یادداشت بھی اچھی ہے۔ ملک سے دور تو ہیں لیکن دل پاکستان کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے۔ چند روز قبل لکھے گئے کالم پر انہوں نے لکھا ہے۔شکراً، شکراً، جناب چودھری صاحب! یہ نظم ‘ہم نہیں مانتے،ہم نہیں مانتے لکھ کر آپ مجھے چالیس کا آخری سال یا پچاس کی شروع کی دہائی میں واپس لے گئے جب غالباً نسبت روڈ اور میکلیوڈ روڈ کے سنگم پر یا ذرا پرے ہونے والے جلسے میں حبیب جالب نے یہ نظم پڑھی تھی۔ ہم ہندوئوں کی چھوڑی گئی بلڈنگ کھیڑا ہسپتال قلعہ گجر سنگھ میں رہتے تھے اور میں چچا دین محمد اور بھائی احمد دین مرحومین کے ہمراہ گیا تھا۔ اس وقت لیاقت علی خان اور نواب ممدوٹ/سردار شوکت کے درمیان لیاقت کی بیوی رعنا لیاقت کی بہن کے خاوند اور اس کے بیٹے اشر داس/بدریداس (انڈیا) کی کشمیر سے آنے والی لکڑی روک کر انڈیا جانے کی اجازت نہ دینے پر پنجاب مسلم لیگ میں سخت جھگڑا پڑ گیا تھا۔چک نمبر ۱۱۲، میں والد صاحب نے اپنی ‘کْٹیا’ میں داخل ہونے والے دروازے پر لکھ دیا تھا:
نمبرداروں کوعزت و تحفظ دینا حکومتی ذمہ داری :حسین جہانیاں گردیزی
گْربہ میر وسگ و زیر و مْوش در بانی کْند۔ ایں ہمہ ارکان دولت ملک ویرانی کْند۔
مدثر جمیل لکھتے ہیں. جب سے ھوش سنبھالا ہے گھر میں نوائے وقت دیکھا ہے اور مستقل قاری ہونیکی وجہ سے جس دن اخبار نہ پڑھ سکوں تو ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔آپکا کالم سائرن بہت توجہ اور دھیان سے پڑھنے کے بعد اکثر آپکے تجزیے کو بطور حوالہ استعمال کر کے دوست و احباب کو حیران بھی کر دیتا ہوں خاص طور پر چینی اور گندم کے بحران پر اور قیمت کے بڑھنے کی پیشنگوئی۔
جناب مڈل کلاس لوگ پتہ ہے کون ہوتے ہیں۔جو کوشش کرتے ہیں کہ قرض سے بچتے ہوئے عزت بچاتے ہوئے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے زندگی گزار لی جائے _یہ طبقہ پولیس سے بھی ڈرتا ہے اور قانون پر عمل درآمد بھی کرتا ہے اور اب موجودہ حکومت وقت میں تیزی سے ناپیدہو کر غربت کی لکیر میں داخل ہو کر عزت بچانے کی کوششیں کر رہا ھے۔55 روپیہ کلو والی چینی 110 میں خرید رہا ہے۔600 روپیہ والا آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 1000 میں خرید رہا ہے۔65 روپیہ لٹر والا پٹرول 115 میں خرید رہا ہے۔کون سی چیز ہے جسکی قیمت دوگنا نہیں ہوئی اور آمدنی میں کوئی اضافہ نہیںہوا الٹا کمی ہو گئی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پچھلے لاک ڈاؤن میں اپنی کاروبار کی راس کھا لی مگر عزت بچانے کے لئے 12000 کی لمبی لائنوں میں زلیل نہیں ہوئے کہ کہیں کوئی جاننے والا دیکھ نہ لے۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مجسٹریٹ کہاں ہیں۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔وزیراعظم لنگر خانوں کا افتتاح کر کے اس قوم کو محنت نہ کرنے کے ترغیب دے رہے ہیں اور کوئی بھوکا نہ سوئے کا بورڈ لگا کر کھانے کا ڈبہ کیمرے کے سامنے تقسیم فرما رہے ہیں۔کیا کوئی سفید پوش وہاں جا کر لنگر کھائے گا۔اس سے زیادہ فخر تو وہ داتا دربار لنگر کھا کر بچوں کیلئے لیجا کر کرتا ہو گا۔کتناہی اچھاہوتا کہ کوئی بھوکا نہ سوئے کی بجائے اگر کوئی بیروزگار نہ سوئے کی کوشش کی جَاتی۔صرف خراد مشین کا پہیہ گھومے تو ایک خاندان کا پیٹ بھرنے کا سامان ہو جاتا ہے۔بقول آپکے سابق حکمران چور تھے. اب سپریم کورٹ کے سند یافتہ صادق اور امین نے اب تک کیا چاند چڑہایا ہے اس کی وضاحت فرما دیں۔اگر چوروں نے ملک کو برباد کیا ہے تو کمی صادق اور امین نے بھی نہیں چھوڑی۔فرق صرف یہ ہے کہ چوروں کی حکومت میں کاروبار آسان تھا مہنگائی کم تھی اب جینا دوبھر ہو گیا ہے۔جناب دکانیں بند کرنے سے کرونا ختم نہیں ہوتا روزگار ختم ہوتا ہے۔امید کرتا ہوں کہ آپ سفید پوش طبقے کی آواز بن کر سائرن بجاتے رہیں گے۔
بھارتی شہری کی قرآن کریم میں تحریف کی جسارت قابل مذمت:مولانا عزیزالرحمن
مدثر صاحب آپکی حوصلہ افزائی اور نوائے وقت کے ساتھ جڑے رہنے کا شکریہ۔ اگر میں یہ لکھتا ہوں کہ ماضی کے حکمران چور ہیں تو میں یہ بھی لکھتا ہوں کہ موجودہ حکمرانوں میں اہلیت، قابلیت اور فیصلہ سازی کی شدید کمی ہے۔ میں نے ان صفحات پر عام آدمی کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ جب ہر جگہ دیگر مسائل زیر بحث ہوتے ہیں میں عام آدمی کا مقدمہ لڑ رہا ہوتا ہوں۔ مہنگائی کے حوالے سے گذشتہ چوبیس یا تیس ماہ میں جس تسلسل کے ساتھ میں نے لکھا ہے شاید پاکستان میں کسی نے نہیں لکھا۔ میں یہ کام اپنا فرض سمجھتے ہوئے کرتا ہوں۔ اللہ ہمیں اپنے ملک کی حفاظت کرنے اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
مسلم لیگ ن کی پنجاب اسمبلی میں دومتفرق قراردادیں
چینی کی پیداوار کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ روان کرشنگ سیزن کے دوران لگ بھگ چھپن لاکھ چینی کی پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے۔امکان ہے کرشنگ سیزن کے اختتام پر چینی کی مجموعی پیدا وار ستاون لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہے گی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ اس سال ملک میں چینی کی پیداوار پچپن لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہے گی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ 2020کے مطابق 2019-20میں چینی کا پیداواری حجم 48.19لاکھ ٹن رہا جبکہ کین کمشنر پنجاب کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں شوگر ملوں نے اس کرشنگ سیزن میں 37لاکھ ٹن کے لگ بھگ چینی تیار کی ہے جبکہ 38ہزار ٹن کیری اوور سٹاک ہے جس سے چینی کی کل مقدار 37.38لاکھ ٹن ہے گزشتہ سال پنجاب میں چینی کا پیدا واری حجم 30.5لاکھ ٹن تھا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 6.5لاکھ ٹن ذائد ہے۔ حکومت کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ اس سال سندھ میں 15.25لاکھ ٹن اور خیبر پی کے میں 3.15لاکھ ٹن سے 3.25لاکھ ٹن چینی پیدا ہوئی ہے۔ اس چینی پر جی ایس ٹی بچانے کیلئے 3لاکھ ٹن سے 5لاکھ ٹن کے قریب چینی آف دی بک رکھی گئی ہے اگر اس چینی کو بھی مجموعی پیداوار میں شامل کیا جائے تو ملک میں چینی کی پیداوار 60لاکھ ٹن سے ذائد بنتی ہے ملک میں ایک ماہ کیلئے چینی کی کھپت 4.5لاکھ ٹن ہے اس حساب سے 12ماہ کیلئے 54لاکھ ٹن چینی کی ضرورت ہے جبکہ کین کمشنر پنجاب کے اعدادوشمار کے مطابق کرشنگ سیزن کے اختتام پر چینی کی مجموعی پیدا وار 57لاکھ ٹن کے لگ بھگ رہے گی اس صورت میں بھی 3لاکھ ٹن چینی ملکی ضرورت سے ذائد رہے گی۔
باخبر لوگوں کے مطابق بعض شوگر ملوں کے ذمے کسانوں کے پندرہ ارب روپے کے واجبات ہیں اگر حکومت ان ملوں کی 15ارب روپے کی چینی مارکیٹ میں لے آئے تو مارکیٹ میں نہ صرف چینی کی رسد پوری ہو جائے گی بلکہ اس کی قیمت بھی مستحکم رہے گی۔سندھ کی شوگر ملوں نے پنجاب سے گنا اس لئے خریدا کیونکہ انکو اس میں بھی منافع تھا۔اس سال رمضان میں چینی کی قلت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا شوگر ملیں چینی کی کرنٹ سیل نہیں کرتیں بلکہ چینی کے فاورڈ سودے کرتی ہیں۔قانون کے مطابق شوگر ملیں صرف اگلے پندرہ دن کے سودے کر سکتی ہیں لیکن شوگر مل مالکان نے مئی اور جون کے سودے بھی کر لئے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت کو تین لاکھ ٹن تک جولائی میں چینی درآمد کر لینی چاہیے کیونکہ اس وقت انٹر نیشنل مارکیٹ میں بھی چینی کی قیمت کم ہو گی۔دوسری جانب حکومت نے اس کرشنگ سیزن میں ہی فیصلہ کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑ ی تو ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان یوٹیلیٹی سٹورز کے لئے چینی درآمد کی جائے گی۔ آئندہ چند روز تک کرشنگ سیزن کے خاتمے کے بعد چینی کی پیداوار کے حتمی اعدادوشمار سامنے آجائیں گے جن کی روشنی میں حکومت چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کر لے گی۔
پی ڈ ی ایم کی انتشار کی سیاست دفن ہوچکی:چیئرمین جی ڈی اے
اگر ہم شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ 2020 کا جائزہ لیں تو کئی سوالات سامنے آتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک میں گنے کی پیدا وار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2020-21میں ملک میں گنے کی کاشت کے رقبے میں 135350ایکڑز کا اضافہ ہوا ہے اور مجموعی رقبہ 1174229ایکڑز تک پہنچ گیا جبکہ گزشتہ مالی سال 2019-20میں ملک میں گنے کی کاشت کے مجموعی رقبے کاحجم 1038879ایکڑز تھا۔رواں سال پنجاب میں تقریباگنے کی کاشت کے رقبے میں 20فیصد اضافہ ہوا اور گنے کی کاشت کا رقبہ 776996ایکڑز تک پہنچ گیا پنجاب میں گنے کی مجموعی پیدا وار کا 60فیصد گنا پیدا ہوتا ہے اسی طرح سندھ میں بھی گنے کی کاشت کے رقبے میں ایک فیصد کا اضافہ ہوا اور گنے کی کاشت کا رقبہ 288838ایکڑز تک پہنچ گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کے رواں مالی سال 2020-21میں ملک میں گنے کی مجموعی پیدا وار 75661623ٹن ہونے کا تخمینہ ہے جو مالی سال 2019-20میں ملک میں گنے کی مجموعی پیدا وار 66334369ٹن کے مقابلے میں 9327254ٹن زائد ہوگا۔
حکمرانوں نے عوام کو مسائل کی دلدل میں پھنسا دیا:شبیر بٹ
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مالی سال 2016-17میں ملک میں گنے کی پیدا وار 75450620ٹن ہوئی تھی اور 90شوگر ملوں نے اس سال ملک میں 70لاکھ 5ہزار 4سو80میٹرک ٹن چینی بنائی توسوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ مالی سال 2020-21میں میں بھی تو مالی سال 2016-17بھی تو لگ بھگ ملک میں اتنا ہی گنا پیدا ہوا تو پھر 55لاکھ ٹن یا 57لاکھ ٹن چینی پیدا ہونے کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں؟۔شوگر ملوں کے ان اعدادوشمار پر وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمشن بنایا تھا۔ شوگر ملوں کے صحیح اعدادوشمار جاننے کیلئے شوگر ملوں میں کیمرے نصب کئے جائیں تاکہ چینی کی پیداوار ،سٹوریج اور نقل وحمل پر نظر رکھی جاسکے ابھی اس پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس وقت شوگر ملوں کے گوداموں میں موجودہ چینی کی مارکیٹ میں طلب کے مطابق اگر پائیدار بنیادوں پر جاری رہی تو صارفین کو چینی کی قلت کاسامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس کی قیمتں بھی مستحکم رہیں گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں