باصفا دوست یاد آتے ہیں الطاف حسن قریشی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

باصفا دوست یاد آتے ہیں الطاف حسن قریشی

 

باصفا دوست یاد آتے ہیں

الطاف حسن قریشی 19 مارچ ، 2021

FacebookTwitterWhatsapp

ہمارے اسلاف نے تحریکِ پاکستان کی صورت گری جس آفاقی تصور پر کی تھی، اُسے صراحت کے ساتھ حضرت قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں بیان کیا جو 1943میں کراچی میں منعقد ہوا تھا۔ اُن کا ارشاد تھا: ’’وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اِس اُمت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اِس اُمت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان اور وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہمارے اندر زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک اللہ، ایک رسولؐ، ایک کتاب اور ایک اُمت‘‘۔


اِس بلند ترین تصور کے ساتھ پیوستہ رہ کر برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی بےمثال قیادت میں بیسویں صدی کا ایک سیاسی معجزہ تخلیق کیا اور 14؍اگست 1947کی شب پاکستان وجود میں آیا۔ باہمی اتحاد کی بدولت پاکستان ایٹمی طاقت بنا جو پوری مسلم اُمہ کے لئے طاقت کا منبع ثابت ہوا۔ بدقسمتی سے آج اتحاد کے بجائے انتشار کا دور دورہ ہے اور وُہ رُوحانی، تہذیبی، فکری، سیاسی اور معاشرتی قدریں روبہ زوال ہیں جو ہماری کشتی کے لئے ایک مضبوط لنگر اور ایک ناقابلِ تسخیر چٹان کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایک جداگانہ شان کا حامل یہ ملک جمہوریت کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے دو پہیے شمار ہوتے ہیں اور اُن کے درمیان مشاورت، مصالحت اور باہمی رواداری سے اُمورِ مملکت سرانجام پاتے ہیں۔ اِس نظام کے اندر اصل قوت آئین کو حاصل ہے جس کے تحت تمام ریاستی ادارے اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہیں۔ عدلیہ عوام کو انصاف فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی اور ایگزیکٹو کو حدود میں رکھتی ہے۔


یہ سارے تصورات آج ہمارے ہاں مدھم پڑتے جا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پل پل خبر دے رہے ہیں کہ ایگزیکٹو ہر آئینی ادارے کو مسخر کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ اِس کا تازہ ترین ہدف الیکشن کمیشن ہے جس کے سربراہ اور اراکین سے تین منہ زور وزیروں نے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اِس کا غالباً سب سے بڑا ’جرم‘ یہ ہے کہ اُس نے حکومت کی خواہشات کے آگے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اِس بنا پر عوام کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی عظمت کو سلام کر رہے ہیں اور اُن کے اندر اُمید کی شمع روشن ہوتی جا رہی ہے کہ یہ کمیشن شفاف انتخابات کرانے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہے۔ اِسے بدنصیبی ہی کہنا چاہئے کہ پارلیمان کو حکمران جماعت نے قانون سازی کے اعلیٰ مقاصد کی بجاآوری کے بجائے مچھلی گھر بنا دیا ہے۔ وزیرِاعظم ایوان میں آنے کو اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو اور لُٹیروں کے القاب سے پکارتے ہیں۔ وہ اپوزیشن سے بات کرنے کے روادار نہیں۔ اب سیاسی رنجشیں گالم گلوچ میں ڈھلنے کے بعد ہاتھاپائی اور مارکٹائی کی پستی کو چھو رہی ہیں۔ حکومت کا اصل کام ٹھپ ہے اور معیشت کا سانس اکھڑتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مہنگائی ایک عفریت بن چکی ہے۔ زندگی کی اداس راتیں طویل اور گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں جو آئین کی بالادستی قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں، وہ بھی داخلی مسائل پر قابو پانے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ اِس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کی فضا پیدا کی جائے اور اَربابِ اقتدار اصلاحات کا ورد کرنے سے پہلے اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کریں۔


عدمؔ نے کہا تھا ؎


زندگی کی اداس راتوں میں


بےوفا دوست یاد آتے ہیں


مَیں اِس شعر میں تھوڑا سا تصرف کرنا چاہتا ہوں کہ ’باصفا دوست یاد آتے ہیں‘۔ ہمارا سب سے بڑا اَلمیہ یہ ہے کہ اہلِ نظر اٹھتے جا رہے ہیں اور اُن کی جگہ لینے والے دستیاب نہیں۔ 14مارچ کو ہمارے عظیم دوست ڈاکٹر انوار حسین صدیقی کئی سال ڈی مینشیا کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے لواحقین کو صبرِجمیل سے فیض یاب کرے۔ وہ جےپور رِیاست سے ہجرت کر کے حیدرآباد (سندھ) آئے۔ سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی اور اَمریکہ کا رخ کیا۔ کراچی میں اُن کے تعلقات پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری اور خرم جاہ مراد سے قائم ہوئے۔ امریکہ کی مشہور یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ کیا۔ وہ ایک بیدار مغز ماہرِ تعلیم، زبردست منتظم اور بےمثال ادارہ ساز شخصیت کے حامل تھے۔ اُنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز نیپا کراچی سے کیا اور وہاں شوقِ فراواں کا ایک نقش چھوڑا تھا۔ اُنہیں جو منصب اور جو ذمےداری ملی، اُنہوں نے اُس ادارے میں جان ڈال دی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے، تو اُس کی کایا پلٹ ڈالی۔ پہلے اُس کی ڈگریاں فروخت ہوتی تھیں اور وُہ شدید خسارے میں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسا نظم قائم کیا کہ داخلہ صرف میرٹ ہی پر ہوتا اور کوئی قریب ترین تعلق بھی اِس پر اثرانداز نہیں ہو سکتا تھا۔ جب یونیورسٹی سے رخصت ہوئے، تو اُس کے اکاؤنٹس میں74 کروڑ رُوپے جمع تھے۔وہ جوڈیشل اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے، تو اُس کی عمارت کی تعمیر میں غیرمعمولی دلچسپی لی، تربیت کا نہایت اعلیٰ معیار قائم کیا اور اُسے ایک عظیم الشان ادارہ بنا دیا۔


ڈاکٹر صاحب کی بےکنار صلاحیتوں کی بدولت اُنہیں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اعلیٰ ترین مناصب پر کام کرنے کا موقع ملا اور اُنہوں نے شب و روز کی محنت سے اُسے چار چاند لگا دیے۔ میرے اُن کے ساتھ روابط عشروں پر محیط تھے۔ میں اُن کی اقامت گاہ پر بھی قیام کرتا اور اُن کا ہم سفر بھی رہا۔ وہ تازہ افکار کا ایک بیش قیمت خزینہ تھے اور قومی ایشوز کا گہرا اِدراک رکھتے تھے۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی ان کی ذہنی اور مالیاتی دیانت داری اور فرض شناسی تھی۔ ایک پیسے کے روادار نہ اصولوں پہ سمجھوتہ کرنے کے قائل۔ ایک سچا اور کھرا انسان جو نچلے درجے کے ملازمین کی فلاح میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔ جب ادارے ٹوٹ رہے ہیں، تو ڈاکٹر انوار صدیقی جیسے باصفا دوست ہر لحظہ یاد آتے رہیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج