وزیر خزانہ کی تلاش - رانا زاہد اقبال - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

وزیر خزانہ کی تلاش - رانا زاہد اقبال

 وزیر خزانہ کی تلاش - رانا زاہد اقبال

Rana Zahid Iqbal, column writer, Urdu, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

30 اپریل 2021 (11:17) 2021-04-30 

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے وزیرِ خزانہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم نے حکومت بنانے کے بعد اسد عمر کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپا، وزیراعظم ان سے مطمئن نہ ہوئے تو حفیظ شیخ کو وزارتِ خزانہ کی مسند عطا کر دی گئی، پھر یہ عہدہ حماد اظہر کو دیا گیا اور پھر صرف 17 دنوں کے بعد ہی وزارتِ خزانہ سابق بینکر شوکت ترین کے سپرد کر دی گئی ۔ وزیرِ خزانہ چاہے سیاسی حکومت کا ہو یا فوجی حکومت کا وزیرِ اعظم کے بعد کابینہ میں اس کی کلیدی حیثیت ہوتی ہے۔ اس کی پالیسیاں، مینجمنٹ اور فیصلے حکومت کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس عہدے پر کسی ایسی شخصیت کو مامور کیا جائے جو نا صرف معیشت اور مالیات کے رموز کو جانتا ہو بلکہ وہ دیانتدار بھی ہو اور اس میں سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ اتنی ہو کہ اس کی بنائی ہوئی پالیسیاں نا صرف ملکی معیشت کو استحکام دیں بلکہ سماجی اور معاشی تضادات کو دور کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں۔


مفتاح اسماعیل نے این اے 249 کے انتخابی نتائج کو چیلنج کر دیا


پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ اسے کبھی کوئی منتخب وزیرِ خزانہ میسر نہیں آیا۔ اس کے حصے میں زیادہ تر ایسے وزیرِ خزانہ آئے جو نا صرف غیر سیاسی تھے بلکہ ان کی معاشی سوجھ بوجھ نمبروں کے ہیر پھیر سے آگے کچھ نہیں تھی اور سماجی طور پر وہ تقریباً نابلد تھے، یہی وجہ ہے کہ آج تک جتنے بھی بجٹ بنے ہیں ان کے کبھی اہداف پورے نہیں ہوئے اور نہ ہی وطنِ عزیز اس حد تک معاشی ترقی کر سکا۔ غلام محمد، چودھری محمد علی، محمد شعیب، این ایم عقیلی، ڈاکٹر مبشر حسن، غلام اسحاق خان، ڈاکٹر محبوب الحق، سرتاج عزیز، اسحاق دار، شاہد جاوید برکی، شوکت عزیز، سلمان شاہ، حفیظ شیخ اور شوکت ترین سب کے سب ٹیکنو کریٹ تھے، ان میں سوائے ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر محبوب الحق اور سرتاج عزیز کے کسی میں بھی سماجی مسائل کو سمجھنے کی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ اکثر ایسا ہوا کہ یہ لوگ پاکستان آئے وزیرِ خزانہ کا منصب سنبھالا فارغ ہوئے تو پھر بیرونِ ملک جا کر انہی نوکریوں پر بیٹھ گئے۔ یوں ہمارے زیادہ تر وزرائے 


امریکا، افغانستان اور پاکستان میں ڈیوٹی فری زونز کی تجدید کرے گا

خزانہ ایسے لوگ تھے جن کا پاکستان کی سیاست اور اس کے سماجی حالات سے محض سرسری تعلق تھا اور ان میں اکثر یا تو اکاؤنٹنٹ تھے یا بنکر یا ایسے لوگ تھے جن کا زیادہ تر تجربہ ورلڈ بینک یا کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے تھا چنانچہ ان کی زیادہ تر کوشش ہوتی تھی کہ وہ امداد دینے والے بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کو خوش رکھیں تا کہ امداد کا سلسلہ جاری رہے اور انہیں بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے اپنے ملک کے وسائل پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھانے کی کوشش نہ کرنا پڑے۔ ان غیر ملکی اداروں اور ملکوں کو خوش رکھنے کا ان کا ایک ہی طریقہ تھا وہ یہ کہ اپنے ملک کی معیشت ان کے حوالے کر دیں اور امداد کی وہ جو بھی شرائط رکھیں انہیں من و عن قبول کر لیا جائے۔قرض چڑھتا رہا اور ہماری معیشت غیروں کے ہاتھوں میں گروی ہوتی چلی گئی۔ وہ ممالک جو امداد کی صورت میں قرض دیتے تھے ان کی شرائط کچھ ایسی ہوتی تھیں کہ ہر امدادی رقم کا 90 فیصد ان ہی ملکوں کو واپس چلا جاتا تھا کیونکہ شرائط میں یہ بھی شامل تھا کہ جو بھی اشیاء امداد سے درآمد ہوں گی وہ امداد دینے والے ملک سے ہی خریدی جائیں گی چاہے اس کی قیمت بین الاقوامی منڈی میں رائج قیمتوں سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور نہ صرف یہ بلکہ مال لانے کے لئے جہاز بھی اسی ملک کا ہو گا اور یہ بھی کہ کنسلٹنٹ بھی اسی ملک کے ہوں گے۔ اس امداد کے پسِ پردہ مقصد یہ ہوتا تھا کہ اصل میں امداد دینے والے ملک کی معیشت کی ترقی ہو نہ کہ امداد لینے والے ملک کی۔ جب کہ غیر ضروی درآمدات پر پابندی لگا کر 6 سے 7 بلین ڈالر تک زرِ مبادلہ کی بچت کی جا سکتی ہے۔


عوامی نیشنل پارٹی کا پی ڈی ایم میں واپس نہ جانے پر اتفاق

اگر ہم غور کریں تو حکومت نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بہت سے معاہدے کئے لیکن ابھی تک کوئی بہتری صورت نظر نہیں آئی اب جب کہ جب کہ شوکت ترین کو معیشت کی بہتری کے لئے لایا گیا ہے تو کیا عوام کو کچھ ریلیف ملے گا؟۔ یہ سوال خراب ملکی معیشت کے تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میری ذاتی رائے میں مسئلہ چہرے بدلنے کا نہیں بلکہ پالیسیوں کو بدلنے کا ہے۔ ہمارے ہاں آج یہ صورتحال ہے کہ سارے وزیروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں چلانے کا شوق ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیا گیا ہے اور اب تمام پالیسیاں انہی کی ہیں۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیرِ خزانہ بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں اور ان کی اصلاح کرنا بہت مشکل ہے۔ ماہرین کی رائے میں حکومت کا صرف قرضے واپس کرنے پر فوکس کرنا بھی درست حکمت عملی نہیں ہے کیونکہ اس طرح عوامی اور ملکی ترجیحات پسِ پشت جاتی جا رہی ہیں۔ حکومت کے قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہونے سے وہ عوامی فلاح، صنعتوںکی بہتری، زراعت کی پیداواری صلاحیت اورا ہم معاشی امور کے حوالے سے کچھ نہیں سوچ رہی ہے۔  


حکومت پی ڈی ایم میں اہم معاملات طے پا گئے ،پیپلزپارٹی کو بڑا دھچکا

پاکستان اپنا توازنِ ادائیگی بہتر کرنے کی بجائے باربار بیل آؤٹ پیکیجز کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے رجوع کرتا ہے، جب کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اسی وقت امداد دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں جب ان کے تجویز کردہ منصوبوں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں چاہے یہ منصوبے ملک کی معیشت کے لئے فائدہ مند ہوں یا نہ ہوں اور ان کی زیادہ تر شرائط قرضوں کی بروقت واپسی کا تقاضا کرتی ہیں چاہے اس شرط کو پورا کرنے کے لئے ان منصوبوں کو بھی سرے سے ختم کرنا پڑے جو غربت کو کم کرنے کے لئے بے حد ضروری ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی قرضے کے بدلے کڑی شرائط، ہمارے ریاستی اداروں میں تضادات ان سب کا خمیازہ صرف غریب آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہماری معیشت دن بدن سکڑتی جا رہی ہے، ایسے حالات میں کیسے معیشت کی بہتری، غربت میں کمی، آمدنیوں اور روزگار میں اضافے، معاشی خوش حالی اور آسودگی کی امید باندھی جا سکتی ہے۔ اسی لئے آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اکنامک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بار بار ہمیں کشکول اٹھانا پڑتے ہیں، ہم کہنے کی حد تک کہتے تو ہیں کہ آئی ایم ایف کو خیر آباد کہہ دیں گے لیکن صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔ اس لئے وزیر خزانہ بدلنے سے کچھ نہیں فرق پڑے گا جب تک معاشی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہ کی گئی۔ 


کورونا وائرس کا پھیلاؤ، ترکی میں پہلی مرتبہ مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہو گیا


رانا زاہد اقبال

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج