ہماری کائنات اصل میں کتنی بڑی ہے، ایک معمہ؟ - انجینیئر نذیر ملک
پیر 5 اپریل 2021
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق یہ کائنات اپنے آغاز کے دھماکے (بِگ بینگ) کے وقت سے مسلسل پھیل رہی ہے، لیکن کتنی رفتار سے؟ اس سوال کا جواب یہ انکشاف کر سکتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی طبیعات کے بارے میں جانتے ہیں وہ شاید سب کچھ غلط ہو۔
آئیے ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ کائنات بہت ہی زیادہ وسیع ہے۔ جب ہم کسی بھی سمت دیکھتے ہیں تو کائنات کے سب سے دور نظر آنے والے علاقوں کا فاصلہ لگ بھگ 46 ارب نوری سال کے فاصلے جتنا بنتا ہے۔ اس کا قطر 540 سیکسٹیلین (یا 54 کے بعد 22 زیرو) میل ہے۔ لیکن یہ اصل میں صرف ہمارا ایک بہترین اندازہ ہے۔ کوئی بھی نہیں جانتا ہے کہ کائنات کتنی وسیع ہے۔
*نوری سال*
روشنی کی رفتار 186000 میل فی سیکینڈ ہے یعنی ایک سیکینڈ میں روشنی اتنا سفر طے کرتی ہے۔
جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ ایک منٹ میں ساٹھ سیکینڈ ہوتے ہیں اور اسی طرح ساٹھ منٹ کا گھنٹہ اور جوبیس گھنٹے کا ایک دن اور تین سو پینسٹھ دنوں کا ایک سال بنتا ہے
حساب کے مطابق ایک سال میں روشنی جتنا سفر طے کرتی ہے وہ فاصلہ ایک نوری سال کہلاتا ہے
ایک نوری سال کا فاصلہ
=186000 x 60 x 60 x 24 x 365.25
=5869713600000
اٹھاون کھرب، انہتر ارب، اکہتر کروڑ،چھتیس لاکھ میل.
=293485680000000000
قیامت کا ایک دن تمہارے حساب سے پچاس ہزار سال کا ہو گا(القرآن)
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کائنات کے آغاز کے بعد سے ہی روشنی (یا زیادہ درست طور پر بگ بینگ کے واقعے کے بعد سے پھیلنے والے مائکرو ویو تابکاری) کے سفر کو جان سکتے ہیں۔ چونکہ یہ کائنات لگ بھگ 13.8 ارب سال پہلے وجود میں آئی، تب سے یہ ظاہراً پھیل رہی ہے۔ لیکن چونکہ ہم کائنات کی عمر کا حتمی طور پر تعین نہیں کر سکتے اس وجہ سے یہ بات مشکل ہو جاتی ہے کہ ہم جن چیزیں کو دیکھ نہیں سکتے ہیں اس کی وسعتوں کے درمیان کا فاصلہ کیسے ناپ سکتے ہیں۔
ماہرین فلکیات (آسٹرونومرز) نے اس مقصد کے لیے اپنی مدد کی غرض سے ایک خاص قدر (یا پراپرٹی) کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک ایسی تعداد ہے جسے 'ہبل کانسٹینٹ' کہا جاتا ہے۔
شکاگو یونیورسٹی کے آسٹرونومر وینڈی فریڈمین کہتی ہیں کہ 'موجودہ دور میں یہ کائنات کس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس کا اندازہ ہے۔ ہبل کانسٹنٹ کائنات کی پیمائیش کا ایک پیمانہ ہے جو اس کا سائز اور اس کی عمر دونوں کو طے کرتا ہے۔
یہ کائنات کے بارے میں بالکُل اُسی طرح غور و فکر میں مدد دیتا ہے جیسے ہوا کے غبارے میں ہوا بھرنے کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے غبارے میں ہوا بھرنے کی صورت میں اس کی سطح پر نقطے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح جب اُن کے درمیان فاصلہ زیادہ سے زیادہ ہونا شروع ہو جاتا ہے تو ستارے اور کہکشائیں ایک دوسرے سے زیادہ تیزی سے الگ ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ ہمارے نقطۂ نظر سے اس کا یہ مطلب بنتا ہے کہ ایک کہکشاں ہم سے جتنی دور ہوتی ہے، یہ اتنی ہی چھوٹی نظر آتی ہے۔
جوں جوں کائنات پھیل رہی ہے، ہماری کہکشاں، ’ملکی وے،‘ اپنے ارد گرد کی کہکشاؤں سے تیزی سے مخالف سمت میں بڑھ رہی ہے
بدقسمتی سے ماہرینِ فلکیات جتنا زیادہ اس پھیلاؤ کے اعداد کی پیمائش کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ لگتا ہے کہ کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ پر مبنی پیشین گوئیوں کی نفی ہو رہی ہے۔ اس کی پیمائش کا ایک طریقہ براہ راست ہمیں ایک خاص قدر دیتا ہے جبکہ ایک اور پیمائش، جو کائنات کے بارے میں دوسرے میعاروں کے بارے میں ہماری سمجھ پر منحصر ہے، کچھ مختلف معلومات دیتی ہے۔ یا تو یہ پیمائشیں غلط ہیں یا کائنات کے کام کرنے کے انداز کے بارے میں ہماری سمجھ میں کچھ خامی ہے۔
لیکن سائنس دانوں کو اب یقین ہے کہ وہ کسی جواب کے حصول کے قریب ہیں، بڑے پیمانے پر نئے تجربات اور مشاہدات کی بدولت جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ 'ہبل کانسٹنٹ' واقعتاً ہے کیا۔
پرنسٹن یونیورسٹی میں کام کرنے والے ماہر فلکیات راشیل بیٹن کہتی ہیں کہ 'ہمیں کاسمولوجسٹ کی حیثیت سے جس انجینئرنگ چیلنج کا سامنا ہے وہ یہ کہ: ہم اس مقدار کو ممکنہ حد سے واضح اور درست طور پر کیسے پیمائش کریں؟ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی پیمائش کرنے کے لیے نہ صرف اعداد و شمار کے حصول کی ضرورت ہے، بلکہ ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ پیمائشوں کی مزید جانچ کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک سائنسدان کی حیثیت سے میرے نقطہ نظر سے، یہ ایگتھا کرسٹی (پُر اسرار قتل کی کہانیوں کی مصنفہ) کی طرز کی پر اسرار کہانی کی بجائے کسی معمہ کو حل کرنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔'
ہبل کانسٹینٹ کی پہلی پیمائش سنہ 1929 میں اس ماہر فلکیات کے ذریعہ کی گئی تھی جس کا نام ایڈون ہبل تھا۔ یہ 500 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پرسیکنڈ (کلومیٹر / سیکنڈ / ایم پی سی) یا 310 میل فی سیکنڈ فی ایم پی سی رکھی گئی تھی۔ اس قدر کا مطلب یہ ہے کہ زمین سے کہیں دور ہر میگا پر سیکنڈ (فاصلے کی اکائی جو 32.6 لاکھ نوری سال کے فاصلے کے برابر ہے) کے لیے، جو کہکشائیں آپ دیکھتے ہیں وہ ہم سے 500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار (310 میل فی سیکنڈ) کی رفتار سے دور ہو رہی ہیں۔
دو متضاد قوتیں جو ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں --- ایک کششِ ثقل کی قوت اور دوسری مرکز گریز قوت جو مدار سے باہر نکالنا چاہتی ہے --- ان دونوں نے کائنات کے ابتدائی دنوں کی کشمکش کے وقت سے ہی اہم کردار ادا کیا ہے
کائناتی توسیع کی رفتار کی شرح کے بارے میں ہبل کے پہلے اندازے کے بعد ایک صدی کے دوران، اس تعداد میں بار بار نظرِ ثانی کر کے اس کی شرح کو کم گیا ہے۔ آج کے اندازوں نے اسے 67 سے 74 کلومیٹر فی سکینڈ فی ایم پی سی کے درمیان کسی مقدار کا تعین کیا ہے۔
پریشانی کی ایک بات یہ ہے کہ ہبل کانسٹنٹ مختلف ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اس کی پیمائش کیسے کرتے ہیں۔
ہبل کانسٹینٹ کی زیادہ تر وضاحتوں میں کہا گیا ہے کہ اس کی قدر کی پیمائش کے دو طریقے ہیں --- ایک یہ دیکھنا کہ قریبی کہکشائیں ہم سے کتنی تیزی سے دور ہو رہی ہیں جبکہ دوسرا کائناتی مائکرو ویو کے پس منظر (سی ایم بی) کا استعمال کرتی ہے کہ بگ بینگ کے واقعے کے وقت خارج ہونے والی پہلی روشنی۔
ہم آج بھی یہ روشنی دیکھ سکتے ہیں، لیکن کائنات کے دور دراز حصوں کی وجہ سے جو روشنی ہم سے دور ہوتی ہے ریڈیو کی لہروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریڈیو سگنل، سنہ 1960 کی دہائی میں حادثے سے پہلی بار دریافت ہوئے، ہمیں کائنات کی حقیقت سمجھنے کے لیے اول ترین بصیرت فراہم کرتے ہیں۔
دو مسابقتی اور متضاد قوتیں --- کشش ثقل کی طاقت اور تابکاری شعاؤں کی مرکز گریز قوت --- کائنات کے ساتھ ابتدائی دور کی کشمکش کا کھیل، جس نے خلل پیدا کیا جو اب بھی کائناتی مائکرو ویو کے پس منظر میں درجہ حرارت میں چھوٹے فرق کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
ان رکاوٹوں کو استعمال کرتے ہوئے، پھر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 'بِگ بینگ' کے فوراً بعد کائنات کس قدر تیزی سے پھیلی اور اس کے بعد آج اس کی توسیع کی شرح یا رفتار کا اندازہ لگانے کے لئے کاسمولوجی کے معیاری ماڈل پر بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ یہ معیاری ماڈل کائنات کا آغاز کیسے ہوا، اس سے کیا بنا ہے اور آج ہم اپنے ارد گرد کیا دیکھتے ہیں، اس کے لئے ہمارے پاس ایک بہترین وضاحت ہے۔
اس کائنات کے ابتدائی ادوار کی رکاوٹوں یا کشمکشوں کے مرحلوں کو قدیم ترین روشنی، مائیکرو ویوز، کے اتار چڑھاؤ میں دیکھا جا سکتا ہے
لیکن ایک مسئلہ ہے۔ جب ماہرینِ فلکیات یہ دیکھ کر ہبل کانسٹینٹ کی پیمائش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آس پاس کی کہکشائیں کس طرح ہم سے دور ہورہی ہیں تو وہ ایک مختلف بات دریافت کرتے ہیں۔
فریڈمین کہتی ہیں کہ 'اگر (معیاری) ماڈل درست ہے تو آپ یہ تصور کریں گے کہ دونوں قدریں --- اور ابتدائی مشاہدات سے جو قدر مقامی طور پر ناپتے ہیں، دونوں قدریں ایک جیسی ہوں گی۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔'
جب یوروپی اسپیس ایجنسی (ای ایس اے) کے 'پلانک' سیٹلائٹ نے سی ایم بی میں تضادات کو ناپا تو، پہلے سنہ 2014 میں پھر ایک بار سنہ 2018 میں، ہبل کانسٹینٹ کے لیے آنے والی قدر 67.4 کلومیٹر (41.9 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی تھی۔ لیکن یہ قریب قریب کی کہکشاؤں کو دیکھتے وقت فریڈمین جیسے ماہر فلکیات کی پیمائش سے تقریباً 9 فیصد کم ہے۔
اٹاکاما کاسمولوجی ٹیلی سکوپ کا استعمال کرتے ہوئے سنہ 2020 میں سی ایم بی کی مزید پیمائشیں 'پلانک' کے اعداد و شمار سے لیے گئے ہیں۔ بیٹن کا کہنا ہے کہ 'اس سے یہ فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے کہ پلانک کے ساتھ ایک دو ذرائع سے منظم مسئلہ تھا۔' اگر سی ایم بی کی پیمائش درست تھی --- تو اس نے دو امکانات میں سے ایک کو تقویت دی: یا تو قریبی کہکشاؤں سے روشنی استعمال کرنے کی تکنیک بند تھی، یا کاسمولوجی کا معیاری ماڈل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
فریڈمین اور اس کے ساتھیوں کی استعمال کردہ تکنیک ایک خاص قسم کے ستارے جسے سیفائڈ متغیر کہا جاتا ہے، کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہنریٹا لیویٹ نامی ماہر فلکیات کے ذریعہ لگ بھگ 100 سال پہلے دریافت کیا گیا یہ ستارہ دن یا ہفتوں میں اپنی چمک کو تبدیل کرتے ہوئے اور زیادہ روشن ہوتا ہے۔ لیویٹ نے دریافت کیا تھا کہ یہ ستارہ جتنا روشن ہے، اسے روشن ہونے میں اتنا ہی زیادہ لمبا وقت لگتا ہے، پھر یہ مدھم ہوجاتا ہے اور پھر دوبارہ روشن ہوجاتا ہے۔ اب ماہر فلکیات ان کا چمکتی حالت میں ان کا مطالعہ کر کے قطعی طور پر بتاسکتے ہیں کہ ایک ستارہ واقعی کتنا روشن ہے۔ یہ پیمائش کرکے کہ یہ زمین پر ہمارے لئے کتنا روشن دکھائی دیتی ہے اور روشنی کو دُوری فاصلے کی حیثیت سے جاننے سے، یہ ستاروں کے فاصلے کی پیمائش کا قطعی طریقہ فراہم کرتا ہے۔
اگر کائنات ہمارے اندازوں سے زیادہ تیز رفتار شرح سے پھیل رہی ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی عمر موجودہ 13.8 ارب سال سے کم ہے
فریڈمین اور اس کی ٹیم ہبل خلائی دوربین کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے ہبل کانسٹینٹ کی پیمائش کرنے کیلئے ہمسایہ کہکشاؤں میں سیفائڈ متغیرات کو استعمال کرتی تھی۔ سنہ 2001 میں انہوں نے اس کی پیمائش 72 کلومیٹر (45 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی میں کی۔
تب سے مقامی کہکشاؤں کے مطالعہ سے حاصل ہونے والی قدر اسی نقطہ کے آس پاس موجود ہے۔ اسی قسم کے ستاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک اور ٹیم نے سنہ 2019 میں ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ کا استعمال کرتے ہوئے 74 کلومیٹر (46 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی کے اعداد و شمار پر پہنچنے تھے۔ پھر کچھ ہی مہینوں بعد فلکی طبیعیات دانوں (آسٹرو فیزیسِٹ) کے ایک اور گروپ نے 73 کلومیٹر (45 میل) فی سیکنڈ فی ایم پی سی کی قدر حاصل کرنے کے لئے کواسار (دور دراز فاصلے کے اجسام فلکی جن سے ریڈیائی لہریں کثیر مِقدار میں نکلتی ہیں) سے آنے والی روشنی کو ماپنے کے لئے ایک مختلف تکنیک کا استعمال کیا۔
اگر یہ پیمائشیں درست ہیں، تو پھر یہ تجویز کرتی ہیں کہ کاسمولوجی کے معیاری ماڈل کے تحت کائنات کے پھیلاؤ کے نظریات پھیلاؤ کی شرح کی جو قدر پیش کرتے ہیں کائنات اُس شرح سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہوگی۔ اس کا مطلب اس ماڈل کا ہوسکتا ہے --- اور اس کے ساتھ کائنات کی بنیادی نوعیت کو بیان کرنے کی ہماری پوری کوشش --- اور جس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ فی الحال جواب یقینی نہیں ہے، لیکن اگر یہ ثابت ہوتا ہے تو اس کے اثرات و مضمرات گہرے ہوسکتے ہیں۔
فریڈمین کہتی ہیں کہ 'یہ پیش رفت ہمیں یہ بتانے والی ہوسکتی ہے کہ ہمارے معیاری نمونے میں جو کچھ ہمارا گمان بنا ہے اس میں کوئی چیز غائب ہے۔ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک دریافت کا موقع ہے۔'
اگر اسٹینڈرڈ ماڈل غلط ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری کائنات کے جو ماڈل بنائے گئے ہیں اس کی نسبتی مقدار میں سب اٹامک ذرات یا 'نارمل' مادہ، 'تاریک توانائی' اور تابکاری، یہ سب کے سب بالکل ٹھیک نہیں ہیں۔ اور اگر کائنات واقعتاً ہمارے نظریات کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے تو یہ فی الحال قبول شدہ 13.8 ارب سال سے کہیں کم عمر کی ہے۔
تھرکنے والے ستارے جسے سیفائیڈ متغیرات کہا جاتا ہے انہیں کائنات کی وسعت اور اس کے آخری حصوں تک کی پیمائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
ان قدروں میں فرق کی ایک متبادل وضاحت کائنات کا وہ حصہ ہے جس میں ہم رہتے ہیں باقی کائنات کے مقابلے میں کسی نہ کسی طرح مختلف ہے اور یہ فرق پیمائش کو متاثر کرتا ہے۔ بیٹن کا کہنا ہے کہ 'یہ ایک کامل تشبیہ سے کافی دور ہے، لیکن آپ اس کے بارے میں اس طرح سوچ سکتے ہیں کہ اگر آپ کسی پہاڑی کے اوپر یا نیچے جاتے ہیں تو بھی آپ کی گاڑی کی رفتار یا اس کی تیزی کس طرح تبدیل کی جاتی ہے چاہے آپ سپیڈ پیڈل کو دبا رہے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں اس میں ہبل کانسٹینٹ میں تضاد کی حتمی وجہ کا یہ امکان نہیں ہے، لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان نتائج کی روشنی میں کیے گئے ان کاموں کو نظرانداز نہ کرنا ضروری ہے۔'
لیکن ماہرین فلکیات کے خیال میں وہ یہ کہتے ہوئے کہ ہبل کانسٹنٹ کونسا ہے اور کون سی پیمائش درست ہے اب وہ کسی نتیجے کے قریب پہنچتے نظر آ رہے ہیں۔
فریڈمین کہتے ہیں کہ 'کتنی حیرت انگیز بات ہے، مجھے لگتا ہے کہ ہم بہت ہی کم عرصے میں اس مسئلے کو ایک ترتیب کے ساتھ حل کریں گے، چاہے وہ ایک سال ہو یا دو یا تین سال ہوں۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اب نظر آتی ہوئی لگ رہی ہیں جو درستگی کو بہتر بنائیں گی جس کی مدد سے ہم یہ پیمائش کرسکتے ہیں کہ ہم اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔'
ایک ای ایس اے (ESA) کی خلائی رصد گاہ کا نام 'گیہا' ہے جسے سنہ 2013 میں لانچ کیا تھا اور ایک ارب کے قریب ستاروں کی پوزیشنوں کی پیمائش کرتا ہے اور اِس کی پیمائش بہت زیادہ درست ہوتی ہے۔ سائنس دان اس کا استعمال ستاروں کے فاصلوں کو ماپنے کے لیے ایک تکنیک کے ذریعہ کر رہے ہیں جس کو 'پیرالاکس' کہتے ہیں۔ جیسے ہی گیہا سورج کی گردش میں جگہ کی تبدیلیوں میں اس کی نشاندہی کرنے کا مقام بناتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے اگر آپ ایک آنکھ بند کردیتے ہیں اور کسی شے کو دیکھتے ہیں تو دوسری آنکھ کے ساتھ دیکھیں تو یہ قدرے مختلف جگہ پر نظر آتا ہے۔ لہذا اپنے مدار کے دوران سال کے مختلف اوقات میں اشیاء کا مطالعہ کرنے سے گیہا سائنس دانوں کو درست طریقے سے کام کرنے کا اہل بنائے گی کہ کس طرح تیزی سے ستارے ہمارے اپنے نظامِ شمسی سے دور ہورہے ہیں۔
ایک اور سہولت جو اس سوال کے جواب میں مددگار ہوگی کہ ہبل کانسٹینٹ کی کیا اہمیت ہے، جیمس ویب اسپیس ٹیلی سکوپ، سنہ 2021 کے آخر میں لانچ ہونے والی ہے۔ اورکت طول موج (انفرا ریڈ ویولنتھس) کا مطالعہ کرنے سے بہتر پیمائش کا موقعہ ملے گا اور ہمارے اور ستاروں کا درمیان جو ذرات ہیں وہ بصارت میں رکاوٹ نہیں بن سکیں گے
اٹھارہ حصوں پر مشتمل سونے کی بنی جیمز ویب ٹیلی سکوپ کائنات کی ابتدا میں خارج ہونی والی روشنی کی انفرا ریڈ شعاؤں کی دیکھ سکے گی
اگر انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ہبل کانسٹینٹ میں فرق برقرار ہے، لیکن اب یہ نئی طبیعیات کا وقت ہو گا۔ اور اگرچہ بہت سے نظریات کو فرق کی وضاحت کے لیے پیش کیا گیا ہے، لیکن ہمارے ارد گرد جو کچھ نظر آتا ہے اس میں کچھ بھی مناسب نہیں رہے گا۔ ہر ممکنہ تھیوری کا ایک منفی پہلو ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ ابتدائی کائنات میں ایک اور قسم کا تابکاری اثر موجود تھا، لیکن ہم نے سی ایم بی کو اتنے درست طریقے سے پیمائش کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تاریک توانائی میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔
فریڈمین کہتی ہیں کہ 'یہ تعاقب کرنے والے ایک ایوینیو کی طرح نظر آ رہا تھا، لیکن اب اس میں دوسری رکاوٹیں ہیں کہ وقت کے کام کے طور پر تاریک توانائی کتنا بدل سکتی ہے۔ آپ کو یہ واقعی ایک نئے انداز سے کرنا پڑے گا اور یہ زیادہ امید افزا نظر نہیں آتا ہے۔' اس کا ایک متبادل یہ ہے کہ کائنات کی ابتدا میں تاریک توانائی موجود تھی جو محض غائب ہو گئی، لیکن اس کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہو گا۔
ان حالات نے سائنسدانوں کو نئے نظریات کے خواب دیکھنے پر مجبور کیا ہے جن سے یہ وضاحت مل سکتی ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ کیسے ہو رہا ہے۔ فریڈمین نے مزید کہا کہ 'لوگ اس میں واقعتاً سخت محنت کر رہے ہیں اور یہ بات دلچسپ ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ کسی کو اس بات کا ادراک نہیں ہوا ہے کہ (اس کی وضاحت) ابھی باقی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی اچھا خیال سامنے نہیں آئے گا۔'
ان نئی دوربینوں سے مستقبل میں ملنے والی معلومات پر انحصار کرتے ہوئے بیٹن اور فریڈمین خود کو ایک ایسی پراسرار کہانی کے درمیان پاتی ہیں جن کا اگاتھا کرسٹی کے ناولوں میں ذکر ہے۔
تم خدا کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں