مَیںکس کا پاکستان ہوں؟ - ڈاکٹر اشفاق احمد ورک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

مَیںکس کا پاکستان ہوں؟ - ڈاکٹر اشفاق احمد ورک

ڈاکٹر اشفاق احمد ورک

مَیںکس کا پاکستان ہوں؟
منگل 23 مارچ 2021ء

جی ہاں! میرا ہی نام پاکستان ہے۔ نہ اِس کا پاکستان، نہ اُس کا پاکستان! بلکہ جو لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کے ، نعرے لگا لگا کے ، لوگوں کو دکھا دکھا کے مجھ پر اپنی ملکیت کی دھونس جماتے ہیں، اُن کا تو مَیں بالکل بھی نہیں ہوں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ میری نظریاتی عمر اب نویں دہائی میں داخل ہو چکی ہے۔میرے جغرافیائی وجود کو قرار پا ئے بھی آج اکاسی برس ہو گئے ہیں۔ میری اصلی عمر کی کشتی بھی تمام تر ڈکے ڈولوں کے باوجود محض خدا کے فضل سے تہتر ویں سال کے کنارے کو پیچھے چھوڑچکی ہے لیکن یہ عمر وہی ہے ،


 جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا: ’گزری نہیں گزاری ہے‘ ۔جب مَیں اپنے ہم عمر بلکہ اپنے سے بھی کم عمر ممالک کی صحت و تندرستی، خوش بختی و خوشحالی اور وقار و افتخارپہ نظر کرتا ہوں تو ہر الیکشن میں خونِ دل دے کے رُخِ برگِ گلاب نکھارنے کی قسمیں کھانے والوںکے لیے چُلو بھر پانی کی طلب شدت اختیار کر جاتی ہے۔ میری رام کہانی یہ ہے کہ 1947ء میں مَیں نے ایشیا کے سب سے بڑے ’سپوت‘ برصغیر کے کلبلاتے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آنکھ کھولتے ہی ایسے ایسے مناظر و واقعات کا سامنا ہوا کہ صحیح معنوں میں آنکھیں کھل گئیں بلکہ کھلیں بھی کیا؟ پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے، مجھے یہ نام بھی میری پیدائش سے پیشتر ہی میرے ایک خیر خواہ نے عطا کر دیا تھا۔ میری پیدائش سے قبل ہی بعض بدخواہوں کی طرف سے میرے وجود میں آنے کو محض دیوانے کی بَڑ قرار دیا جاتارہا۔انگریزوں کی عیاری، ہندوؤں کی مکاری اور حالات کی دشواری پہ نظر کریں تو یہ خدشات کوئی اچنبھے کی بات نہیں لگتے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اس طرح کی پیدائش کی بابت تاریخ نے بھی چپ کا روزہ رکھ چھوڑا تھا۔ میرے عدم سے وجود میں آنے کا یہ خواب ایک دیدہ ور دانا، حکیم الامت اور شاعرِ مشرق نے دیکھا تھا،اسی بنا پر انھیں مفکرِ پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ایک شاعر کا تخیل ہونے کے سبب لوگوں کو اس کی الٹی سیدھی تشریحات اور ٹکے ٹکے کی باتیں کرنے سے بھلا کون روک سکتا تھا؟لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ایک دبلے پتلے سے پُر عزم اور باکردار شخص کی ہوشیاری اور گرتے پڑتے عوام الناس کی دلداری کے سامنے نہ صرف عیاری و مکاری دُم دبا کر بھاگتی نظر آئیں بلکہ حالات کی دشواری بھی کوششِ پیہم اور عزمِ صمیم کے سامنے دست برداری کا برملا اعلان کرتی نظر آئی۔ نتیجہ یہ کہ مَیں دیکھتے ہی دیکھتے عدم سے وجود میں آ گیا۔نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی جملہ سازشوں اور تلملاہٹ نیز کچھ اپنے نما شاطروں کی چالوں اور بڑبڑاہٹ کے سبب میری اس انوکھی پیدائش پر ’’ان نیچرل بے بی‘‘ اور ’’ست ماہا‘‘ کے آوازے بھی کسے گئے۔ مَیں نے کسی کا برا نہیں منایا، کسی کے اعتراض کا جواب نہیں دیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ مخالفین کی ناکام حسرتوں اور بے ہودہ کوششوں کی چِتا سے اٹھنے والا دھواں ہے، جو کچھ ہی عرصے بعد خود بخود بے وجود ہو جائے گا۔ 

لیکن دوستو! مجھے اس بات کا قلق تمام عمر رہے گا کہ میرے اپنوں کی دور نااندیشی اور وقتی مفادات کی وجہ سے میری پیدائش کے دنوں میں ایسا خونی اور جنونی ڈراما رچایا گیا کہ جس کا خوف ناک منظر میری پُتلیوں میں گھس کے بیٹھ گیا ہے۔ مَیں لاکھ آنکھیں ٹپٹپاؤں ، ذہن کو جھٹکوں، اس اعصاب شکن دورانیے سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ وہ نقوش میرے نہاں خانۂ دل میں اس طرح ثبت ہو گئے ہیں، جیسے کسی کمپیوٹر سکرین پہ کوئی انوکھا اور ڈراؤنا منظر ہَینگ ہو جائے۔مَیں وہ منظر بیان کرنا چاہوں تو زبان، الفاظ اور حواس میرا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ الٹا منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘، شہاب کا ’یاخد‘، فکر تونسوی کی ’چھٹا دریا‘، شفیع عقیل کی ’خون ہی خون‘ ، قرۃ العین کا ’آگ کا دریا‘ اور نسیم حجازی کی ’خاک اور خون‘ اندوہ ناک ہیولوں کی طرح میرے سامنے ناچنے لگتے ہیں۔ ہمارے کچھ دردِ دل رکھنے والے شعرا نے بھی ان خونی مناظر اور دل دوز کیفیات کو الفاظ کے پنجرے میں قید کرنے کی سعی کی ہے۔ بذاتِ خود ہجرت کے ہولناک تجربے سے گزرنے والے ناصر کاظمی نے لکھا: انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں


 ایسے ہی ایک حسّاس سخن ساز جناب انجم رومانی نے کہا: میرے اکھڑ پن پر مجھ کو معاف رکھیں احباب وہ لمحے، وہ منظر دیکھے ، بھول گئے آداب دوستو! مجھے اصل قلق تو اس بات کا ہے کہ جب میرے زرخیز خطے مشرقی و مغربی پنجاب میں سروں کی فصلیں کاٹی جا رہی تھی،جس کی ٹیسیں آج تک بزرگ پیڑھی کے وجود، بد حواس نسلوں کے نمود اور اس دھرتی کے انگ انگ سے عیاں ہو رہی ہیں۔ نوجوان شاعر شاہین عباس نے شاید ایسی ہی کیفیت کو محسوس کر کے لکھا تھا: کوئی بتاؤ کہ یہ نیرنگیِ نمو کیا ہے؟ چُبھے جو پاؤں میں کانٹے سروں سے نکلے ہیں پوچھنے اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب میری اس پاک سر زمین پہ عزت و ناموس کا ننگا ناچ جاری تھا، اس وقت یہ تا دیر اقتدار کے مزے لوٹنے والے نام نہاد وڈیرے لیڈر جو اپنے چنگیز سے تاریک تر باطن کے اوپر کالی شیروانیاں پہنے، بقول اکبر الٰہ آبادی ’آنکھیں پھاڑے، دانت نکالے‘ وزارتوں، سفارتوں اور شرارتوں کے موڈ میں انھی میدانِ جنگ بنے علاقوں سے بالا بالا پرواز کرتے دارلحکومت کراچی کے ایوان ہائے بالا کو رونق بخشے ہوئے تھے، وہاں کیوں نہیں پہنچے؟ شاید یہ وہی لوگ تھے،

 جنھیں بابائے قوم نے اپنی جیب کے کھوٹے سکے قرار دیا تھا ، جو بہت حد تک ان حالات کے پروردگان اور ذمہ داران بھی تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو اہلِ وطن کے لیے نقل مکانی کی غلط حکمتِ عملی تیار کر کے خود اپنے وسیع و عریض قبیلہ جات کے ہمراہ محفوظ ترین مقامات پر منتقل ہو چکے تھے۔یہ وہی بد روحیں تھیں جنھوں نے محض اپنی جاگیریں بچانے بلکہ مزید بڑھانے کی خاطر اس آزاد دھرتی کا رُخ کیا تھا۔

 یہ سر تاپا انگریزوں کی غلامی سے سرشار وہی لوگ ہیں جو بہت دیر تک بھولے بھالے عوام کو کبھی جھوٹی جمہوریت، کبھی گلی سڑی سوشلزم اور کبھی اسلام کے جعلی نعرے لگا کے بے وقوف بناتے رہے ہیں لیکن کبھی اپنی لامحدود جاگیروں میں ایک انچ بھی میرے یا عوام کے نام پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سرسراتے گیتوں پہ جھومنے اور میری دھرتی کا کونا کونا چومنے کو ہمہ وقت تیار ملیں گے لیکن کبھی یہاں خالص دین اسلام اور قومی زبان کے نفاذ کی نوبت نہیں آنے دیں گے۔یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی غلط سلط پالیسیوں پر اصرار کی وجہ سے پہلے مشرقی پنجاب کا ایک قیمتی حصہ گنوایا، پھر حیدرآباد سے ہاتھ دھوئے، 1971ء میں میرا بازو کٹوا دیا، کشمیر کو بہت دیر کشمیر کمیٹی کی ڈسٹ بِن میں ڈالے رکھا۔ کیا کہوں جو لوگ بعد میں اس دوڑ میں شامل ہوئے وہ ان سے بھی بد تر تھے ، ان کے لیے بھی رہ رہ کے ناصر ہی کا ایک شعر یاد آتا ہے: یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج