ثروت ولیم
میں بنت حوا ہوں
منگل 23 مارچ 2021ء
کبھی کبھار کی بات نہیں۔اکثر کسی دوسرے کی جگہ خود کو رکھ کر بھی اس کا غم،تکلیف، بے بسی، بے چارگی کو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔یہ تو بس تکلفات ہیں۔ میں تمھارا غم سمجھ سکتا ہوں، تکلیف محسوس کر سکتا ہوں ،جانتا ہوں کس قدر بے بس ہو تم۔ روح تو اس کی تڑپتی ہے جس پر گزرتی ہے۔
سایہ شفقت سے محروم کا درد یتیم، اولاد کا دکھ بس ایک ماں اور عورت کا درد ایک عورت ہی بہتر سمجھتی ہے۔ اور یہ وہ درد ہیں جن کا مرہم وقت کبھی نہیں بنتا۔ نو ستمبر 2020 کی رات کو موٹر وے پر پیش آیا، سانحہ آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔اکیلی عورت، آٹھ سال سے کم عمر بچوں کا ساتھ اور گھپ اندھیرا۔ ہوس کے مارے درندوں کو کار کی جانب آتا دیکھ کر بھی شاید مدد کی منتظر تھی۔ ایک عورت کی حیثیت سے پیشتر اوقات موٹر وے کا سفر تنہا کیا کیونکہ دو باتیں بہت مضبوطی سے ذہن میں موجود تھیں۔ جی ٹی روڈ کی نسبت موٹر وے سے بحفاظت گھر پہنچوں گی کیونکہ اکیلی لڑکی دیکھ کر آدمیوں کی پیچھا کرتی نظریں اور تنگ کرنے کی بھونڈی حرکات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ خدانخواستہ اگر مدد درکار ہوئی تو بس ایک کال کا فاصلہ ہی تو ہے۔جھٹ پٹ موٹر وے پولیس پہنچ جائے گی۔ مگر اس واقعے کے بعد یہ یقین بھی رخصت ہوا۔ جزا اور سزا کا عمل شروع ہو گیا۔ انصاف کر دیا گیا۔۔
دونوں مجرم شفقت بگا اور عابد ملہی کو سزائے موت سنا دی گئی۔مگر اپیل کا حق ابھی بھی ان انسان نما درندوں کے پاس ہے۔ امید تو بندھ گئی کہ اعلی عدلیہ سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھے گی۔ اسں دلخراش واقعے کے بعد پاکستان کا نام روشن کرنے والی ایتھلیٹ اور سائیکلسٹ ثمر خان بھی اس موقف کے ساتھ سامنے آئی کہ کیسے اسلام آباد جیسا شہر ،جسے بیوروکریٹک سٹی مانا جاتا ہے،جہاں پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے ،وہاں سڑکوں پر انہیں ہراس کیا گیا۔ قصہ مختصر نہیں۔معلوم پڑتا ہے عورت کے مقدس وجود کی پامالی کی ایک رسم چل نکلی ہے۔ یہ المیہ ہی تو ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم ایسے سانحات کا انتظار کرتے ہیں، جو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ پھر چاہے وہ موٹر وے سانحہ ہو یا قصور کی ننھی زینب کا۔
ان دو کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے۔ اچانک دودھ کے ابال کی مانند ہم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بات ''کل کرے سو آج، آج کرے سو ابھی'' کے مصداق ہوتی ہے۔چار دن کیا گزرتے ہیں سب اپنی اپنی ڈیوٹی پر واپس۔ وہ جنسی صلاحیت ختم کر دینے کی بات کہاں تک پہنچی؟ ریپ سے متعلق قوانین کا کیا ہوا؟ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں کبھی یہ سب نہ تھا اور عین ممکن ہے کبھی نہیں ہو گا۔ بیماری ہو یا برائی۔ جڑ سے پکڑی جاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی سرا تلاش کرنا پڑتا ہے۔ علاج اسی صورت ممکن ہے۔ چند سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ عزت ،تقدس اور حفاظت کے معنی ہی بدل گئے۔ وہ بھی تو معاشرے میں بسنے والے انسان ہی تھے جو بچیوں کی حفاظت کرتے تھے۔ مدد کی صورت عورت کی مدد کرتے تھے۔ محلے،گاؤں یا علاقے کی ہر بچی،عورت کی تکریم خاندان کی عورت کے برابر رکھتے تھے۔انکی بھی آنکھ، ناک،چہرے کی شباہت ایسی ہی تھی جیسی آج ہے، وہ بھی ہوا،پانی،خوراک پر زندہ تھے آج کے لوگ بھی ایسے ہیں۔ان کی زندگی کا پہیہ بھی حرکت پر تھا آج کا بھی ایسا ہے۔ تو آخر ہو کیا گیا کہ مقدس وجود داغ دار کئے جانے لگے۔
ہم جیسوں کی مثال اس شہسوار کی طرح ہے جنہیں گھوڑا من مرضی کی جگہ پر لے جاتا ہے۔ ہم نے ٹیکنالوجی بھی ایسے ہی عام کی۔ کوئی چیک نہیں رکھا گیا۔ کوئی قواعد و ضوابط متعین نہیں کئے۔ ایسے میں جس کا دل جو چاہے۔ در حقیقت اخلاقیات کا جنازہ ان گندی اور فحش فلموں نے نکالا جس تک سبھی کی رسائی۔ پھر کیا جوان اور کیا بچہ۔ رشتوں کا تقدس بھی باقی نہیں۔ نوجوان نسل تباہ ہو گئی۔ کبھی ان ویب سائٹس پر بلاک بھی لگایا تو بے سود۔ نوجوانوں نے ان تک رسائی کے متبادل طریقے ڈھونڈ نکالے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک نشئی اپنا نشہ کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالتا ہے۔ چھوٹے علاقوں میں معصوم ذہنوں کو چند روپوں کے عوض کیسے فحش فلمیں دکھا کر تباہ کیا جاتا ہے رپورٹ ہونے کے باوجود انتظامیہ گنگ۔کانٹے بو کر پھولوں کی امید نہیں کی جا سکتی۔
قوانین نہ صرف سخت بلکہ ترجیحات میں شامل کرنا ہوں گے۔معاشرے کے ایسے ناسوروں کے خلاف بلند و بانگ دعووں اور وعدوں کو حقیقت کا روپ دینا ہو گا۔ بلا خوف خطر سزائیں دینا ہوں گی۔قوانین ہر خاص و عام پر لاگو کرنا ہونگے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اصلاح کا پہلو کہیں سے تو شروع ہو گا۔ بار بار پولیس ریفارمز کی بات اسی لئے کی جاتی ہے۔ عدالتی ریفارمز پر زور اسی لئے دیا جاتا ہے۔
مقامی انتظامیہ کو مضبوط کرنے کی باتیں پر بھی زور اسی واسطے ہے۔ ایک عام شہری کی امید آج بھی انہی اداروں سے ہے جو تھانے کی بات اس لئے کرتا ہے شاید مدد مل جائے۔ عدالت کا رخ اس لئے کرتا ہے شاید انصاف مل جائے۔ اس امید کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے، اسی لیے اصلاحات پر زور دیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کوئی ایک بھی حکومت آج تک یہ سمجھ ہی نہ سکی کہ آخر ترجیح کیا ہونی چاہیے۔ اے ابن آدم! میں بیٹی ہوں،بیوی ہوں، ماں ہوں۔ میں ایک عورت ہوں، میں بنت حوا ہوں۔ میں لازم ہوں۔ میرے پاک وجود کو مقدس رکھ۔ مجھے پامال نہ کر! وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں