بھٹوز، ناپسندیدہ سے اپنا ہو جانے تک - محی الدین بن احمد دین - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

بھٹوز، ناپسندیدہ سے اپنا ہو جانے تک - محی الدین بن احمد دین

بھٹوز، ناپسندیدہ سے اپنا ہو جانے تک - محی الدین بن احمد دین
02:56 pm
 12/04/2021
 محی الدین بن احمد دین

 ذوالفقار علی بھٹو نے جنرلز کے ہاں سے سیاسی جنم لیا، وہیں سے  سیاسی و ریاستی امور سے وابستہ انتظامی بصیرت حاصل کی، جاگیردانہ پس منظر کے

 
ذوالفقار علی بھٹو نے جنرلز کے ہاں سے سیاسی جنم لیا، وہیں سے  سیاسی و ریاستی امور سے وابستہ انتظامی بصیرت حاصل کی، جاگیردانہ پس منظر کے ساتھ جدید تعلیم اور تاریخ کا شعور حاصل کیا۔ دلیری و جرات کا پیکر بنا اور تیسری دنیا کو آواز دی کہ ہم موجود ہیں۔ عربوں میں نیا شعور دیا اور عربوں کا محبوب بنا، مگر کچھ غلطیاں انسانی فطرت کا حصہ بھی ہوتی ہیں۔ ’’قومی تحویل‘‘ کی پالیسی شائد جاگیردار بھٹو کی ذاتی منشاء نہ تھی، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، جے اے رحیم جیسے دیگر ’’خیالاتی‘‘ اور کمیونسٹ دنیا کے سادہ لوح پاکستانی مفکرین کی خواہش تھی، بھٹو کے اقتدار سے صنعت و حرفت تباہ ہوگئی۔
سقوط ڈھاکہ سے جو پاکستانی مورال تباہ ہوا۔ اس کا ازالہ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس سے کیا، کمیونسٹ کرنل قذافی اور شاہ فیصل جیسے بادشاہ کو یکجاء کر دیا۔90ہزار قیدیوں کو آزادی دینے کی نیت سے جیل سے نکال کر شیخ مجیب الرحمان کو جہاز پر سوار کیا۔ لندن بھجوایا، ساتھ میں ڈالروں سے بھرا سوٹ کیس بھی دیا۔ اگر شیخ مجیب کو آزاد کرکے بنگلہ دیش روانہ نہ کیا جاتا تو 90ہزار جنگی قیدی کبھی آزاد نہ ہو پاتے، نہ ہی بعدازاں جنگی قیدیوں پر مقدمات نہ چلانے کا معاہدہ ہوتا، یہ معاملات بھٹو کے تاریخ کے گہرے شعور کے سبب ظہور پذیر ہوئے۔
بھٹو جاگیردار تھا لہٰذا اقتدار میں آکر اس نے اپنے ہی نظریاتی کمیونسٹوں کو کچل دیا۔ جے اے رحیم کو پٹوایا، ملک سلیمان ایم این اے کو فیملی سمیت تھانے میں بند کروایا، مخالفت کرنے والے میڈیا کو بند  اور صحافیوں کو جیلوں میں رکھا، دلائی کیمپ میں مصطفیٰ کھر کے دست و بازو بنے باغی پی پی پی  والوں کو ٹھونس دیا مگر دائیں بازو (مولانا کوثر نیازی) اور بائیں بازو کے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں کو ’’ایک‘‘ چھتری تلے جمع کرکے نادر سیاسی ناجفہ ہونے کا بھی کردار پیش کیا جونہی اور جب جب اقتدار میں موجود اپنوں نے بغاوت کی، فوراً انہیں اقتدار سے نکالا، مصطفی کھر گورنری سے گئے یعنی مصطفیٰ کھر اور حنیف رامے جو مدبر، مفکر، قرآنی علوم سے وابستہ معاشی سوشلزم کا موجد تھا، دانشور اور صاحب قلم شیخوپورہ کا آرائیں ، نصرت کا بانی ایڈیٹر وزارت اعلیٰ ملی، پھر جونہی پنجاب کے حقوق پر اصرار کیا، وزارت سے محروم  مگر سینیٹر بنا دئیے گئے، پھر وہ بھی باغی کامل ہوا، میں نے تاج پورہ لاہور کے غلام مصطفیٰ کھر کے ضمنی انتخابی جلسے میں دونوں کو بھٹو مخالف میں یکجا خود دیکھاتھا۔ بھٹو فورس کا تاج پورہ میں ظلم اور قاتل گولیوں کا مشاہدہ کیا تھا کہ میں خود شدید زخمی ہوا تھا۔ یہ بھٹو کا ظالمانہ جابرانہ رخ تھا۔
بھٹو نے برصغیر میں قادیانیت کے شجر خبثیہ کا قلع قمع کیا، علامہ اقبالؒ کے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے اور ختم نبوت کے نظرئیے کو پارلیمنٹ سے آئینی عمل بنا دیا کچھ اسلامی اخلاقیات نافذ کیں۔ بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے سبب مولویوں کا محبوب ہوگیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا گیا کہ بھٹو کے اردگرد ’’نظریاتی‘‘ لوگوں کے  ’’انخلاء‘‘ سے جو ’’خلاء‘‘ پیدا ہوا، اسے جاگیرداروں، وڈیروں اور مفاد پرستوں نے بھر دیا، سرکاری ’’انتظامیہ ‘‘ نے سیاسی ورکروں کی جگہ لے لی۔ اور یوں محبوب ترین بھٹو، خود غرضوں، ابن الوقتوں، طوطہ چشموں، اقتدار پرستوں میں یرغمال ہوگیا۔ اور بالآخر قتل کے ایک ایسے منفرد مقدمہ میں پھانسی پا گیا جس میں قانونی طور پر جنگ لڑنے کے سبب باعزت بری ہونا بہت ہی زیادہ ممکن تھا۔
یحییٰ بختیار جیسا وکیل بھی مقدمے کو کھیل تماشہ سمجھ کر سیاسی بن بیٹھا، حالانکہ اکثر وکلاء کہا کرتے تھے کہ قتل کے مقدمے کو سیاسی نہیں قتل کے مقدمے کے طور پر قانونی بنانا اور جیتنا ضروری ہے ورنہ بھٹو مارا جائے گا یہی ہوا۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا علماء کا محبوب پھانسی پا گیا اور وہ بھی اپنے لاابالی سیاسی روئیے، یحییٰ بختیار کی قانونی عدم صلاحیت کے سبب (مگر میں بھٹو کو شہید سمجھتا ہوں) سزا اس کی پھانسی نہیں تھی مگر اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے تیسری دنیا بنانے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے کی سزا دی۔ اسلامی دنیا میں شعور، جرات دینے کی سزا دی، بھٹو نے غریب کو زبان دی مگر بدتہذیبی، بدمعاشی بھی اس غریب کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ کارخانوں، جائیدادوں پر پی پی پی کے نعروں کی آغوش میں قبضے ہوگئے۔ جو کرایہ دار تھے کوٹھیوں میں وہ ’’قابض‘‘ ہو کر ’’مالک‘‘ بن گئے۔ یہ سب کچھ بھٹو اقتدار کے زور پر ہوا۔ میں نے خود ایک پی پی پی کے ایم پی اے کے گھر میں اس سے ملاقات کرکے پوچھا۔ کوٹھی کیسے لی ہے؟ کہا ملک مجبور تھا، اس نے مجھے فروخت کر دی۔ وہ پچاس ہزار میں، شائد اس وقت وہ بیس لاکھ کی ہوگی مارکیٹ میں۔
جوانی میں دوسرے اسلام پسندوں کی طرح میں بھٹو سے شدید نفرت کرتا تھا۔ ذہنی طور پر اس کا شدید مخالف تھا۔ مگر پھانسی کے بعد میری آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ ’’اسلامی اتحاد‘‘ جو ’’قومی اتحاد‘‘ کہلاتا تھا کی بھٹو دشمنی کی طاقت دیکھ لی۔ بھٹو زوال میں ’’مذہب‘‘ کا کتنا کردار تھا وہ بھی دیکھ لیا۔ جنرل ضیاء الحق کا اسلامی مارشل لاء خوب دیکھا۔ مجھے نفاذ شریعت کے جنرل ضیاء الحق کے کارنامے میں شریک کرنے کے لئے میرے مربی سرپرست مولانا عبدالرحیم اشرف (فیصل آباد) نے بہت دبائو ڈالا، پلاٹ دلوانے کی پیشکش کی۔ انکار پر ممبر شوریٰ بنوانے کا وعدہ کیا، انہیں میرے علم پر نہیں بلکہ میری امانت و دیانت پر مکمل یقین تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مربی و سرپرست، جس کے گھر میں بی اے کے دنوں میں میں کئی کئی دن رہتا تھا اور کھانے کھاتا تھا، اس کے سامنے انکار کی جرات نہ دی۔
پھر یہی بھٹو میرے خواب میں آیا مجھ سے جو کچھ میرے گھر آکر مانگا وہ اس نے مجھ سے لے لیا۔ میں بھٹو کاروحانی دوست ، ساتھی بن گیا۔بھٹو میرے محبوب ہوگئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج