آفتاب اقبال اور لنڈا بازار
::::::::::::::::::::::::::::
پاکستان کے فکری لنڈا بازار میں آفتاب اقبال اور حسن نثار کی دکانیں ایک ہی گلی میں واقع ہیں۔ اس لنڈا بازار میں سجائی گئی کچھ اہم چیزیں یہ ہیں
٭ برداشت کی بکینی
٭ احترام انسانیت کے انڈر ویئر
٭ اعتدال کے بلاؤز
لیکن حقیقت اس بازار کی یہ ہے کہ مذہب کی بات سنتے ہی ان کی بکینی اتر جاتی ہے اور یہ پورے ننگے ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔ احترام انسانیت کی ان کے ہاں کل حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان صرف دین بیزار شخص کو سمجھتے ہیں، سو اپنا احترام انسانیت والا انڈرویئر اسی کو پہناتے ہیں۔ رہ گیا اعتدال تو وہ ان کے ہاں مغرب کی پیروی کا ہی دوسرا نام ہے۔ جو مشرقیت سے دستبردار ہوجائے اسے یہ اعتدال کا بلاؤز پہنا دیتے ہیں۔ حالانکہ بظاہر خود کو مشرقی کالچر کا بہت دلدادہ باور کرا تے ہیں۔ لیکن واردات دیکھئے کہ ان کا "مشرقی کلچر" صرف شوبز کی دنیا تک محدود نظر آتا ہے۔ گانے اور ڈانس پر ہی ان کا سارا مشرقی کلچر ختم ہوجاتا ہے۔ جسے اعتدال کہتے ہیں وہ ان کے ہاں کتنا پایا جاتا ہے یہ آپ حسن نثار اور آفتاب اقبال کے منہ سے آئے روز جھڑنے والی غلاظت کی صورت دیکھتے ہی ہیں۔
آفتاب اقبال کو دنیا نیوز کے میاں عامر نے آج سے گیارہ سال قبل اس بات پر کان سے پکڑ کر "حسب حال" سے باہر کردیا تھا کہ اس نے ایک پروگرام میں کچھ مسلم شخصیات کا نام لے کر کہا تھا کہ یہ ہمارے ہیروز نہیں، بلکہ فلاں فلاں ہمارے ہیروز ہیں۔ اور یہ فلاں فلاں کچھ نامی گرامی سکھ تھے۔ لنڈا بازار میں احمد شاہ ابدالی، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کو گالی دینا ایک عام سی بات ہے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہم پٹھان پنجابی دانشوروں کی اس حرکت پر ردعمل نہیں دیتے ورنہ سکھوں کی یاد میں آہیں بھرتی اس مخلوق کو اس کی اوقات دکھانا کچھ مشکل نہیں۔ مگر یہ سوال تو اہم ہے نا کہ ہم یہ ردعمل کیوں نہیں دیتے ؟ وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بکواس عام پنجابی کی سوچ نہیں بلکہ صرف غیر کا اترن فروخت کرنے والے لنڈا بازار کا ہی ذریعہ معاش ہے۔ عام پنجابی بھی اگر اس بکواس پر یقین رکھتا تو اس ملک میں طاقت کی اہم علامتوں کے نام ابدالی، غزنوی اور غوری نہ ہوتے۔ ہم آج بھی بھارت کو اپنے میزائلوں کے ذریعے غوری، ابدالی اور غزنوی کا ہی ڈروا دیتے ہیں۔ اور اس بات میں کیا شک کہ لنڈا بازار ہمیشہ بھارت کا ہمدرد رہا ہے۔ یوں پاکستان ریاستی پالیسی میں ابدالی، غزنوی اور غوری پختون قومیت نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا ورثہ ہیں۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ لنڈا بازار تو اقبال تک کو نہیں بخشتا۔ ان کا جھگڑا کسی لسانی اکائی سے نہیں بلکہ اسلام اور اس کے پیرو کاروں سے ہے۔ ایک شخص سکھوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہو اور ابدالی سے خار کھاتا ہو تو اس کا مسئلہ پوری طرح سمجھ آجاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب اس ملک میں انتہا پسندی کے خلاف صرف سیاسی نہیں بلکہ عسکری ایکشن بھی چل رہے ہیں تو یہ ایکشن صرف مذہبی انتہا پسندوں تک کیوں محدود ہیں ؟ لنڈا بازار کو اس انتہاپسندی کی اجازت کیوں حاصل ہے کہ اس کے دکاندار ابدالی اور اقبال سے ہوتے ہوئے دور رسالت تک کھلی یلغار کرتے نظر آرہے ہیں ؟ جو بکواس یہ کرتے ہیں کیا وہ "ہیٹ سپیچ" نہیں ؟ کیا اس ملک میں ہیٹ سپیچ کے خلاف قوانین موجود نہیں ؟ کیا یہ قوانین صرف ملا پر لاگو کرنے کے لئے ہیں ؟ ریاست اپنا یہ دوغلا پن ختم کرے۔ کیونکہ اس کے ہوتے انتہاپسندی ختم ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ ایکشن نہیں لیں گے تو کوئی عام شہری لے گا۔ اور پھر آپ بیٹھ کر انتہا پسندی کے نوحے پڑھتے نظر آئیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں