درخواستیں - جاوید چوہدری - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

درخواستیں - جاوید چوہدری

 درخواستیں - جاوید چوہدری 


 6درخواستیں 


  اتوار‬‮ 81 اپریل‬‮ 1202 


اتاترک جدید ترکی کے بانی ہیں‘ ان کا شمار دنیا کے دس بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا‘ والد ایک چھوٹے سے سوداگر تھے لیکن اتاترک فوج میں بھرتی ہو گئے‘ مصطفی کمال پاشا میں دو ایسی خوبیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ بہت کم لوگوں کو نصیب کرتا ہے‘ یہ بے انتہا بہادر انسان اور دوسرا اللہ تعالیٰ نے انہیں انتہائی مضبوط قوت فیصلہ دے رکھی تھی‘ آپ ان کی بہادری کا اندازہ صرف گیلی پولی کے واقعے سے کر لیجیے‘پہلی جنگ عظیم میں اتاترک فوج میں کرنل تھے‘ ان کی یونٹ گیلی پولی میں تعینات تھی‘ ان کے پاس جوانوں اور اسلحہ کی شدید کمی تھی‘ 25 اپریل 1915ء کو اچانک برطانوی فوج کا ایک بڑا لشکر گیلی پولی پہنچ گیا‘ لشکر سمندر میں تھا جب کہ اتاترک کے جوان خشکی پر تھے اور ان چند درجن جوانوں نے برطانوی لشکر کوقبضے سے روکنا تھا‘ اتاترک کے جوان لڑائی کے لیے تیار نہیں تھے کیوں کہ ان کے پاس اسلحہ بھی کم تھا اور یہ تعداد میں بھی تھوڑے تھے‘ برطانوی فوج نے ساحل سے ترکوں کے مورچوں پر بمباری شروع کر دی‘ اتاترک نے اپنے فوجیوں کوگھبرائے ہوئے دیکھا تو وہ مورچے سے نکلے اور ٹہلتے ٹہلتے پانچ فٹ اونچی دیوار پر چڑھ کر بیٹھے گئے‘ انہوں نے ٹانگ کے اوپر ٹانگ چڑھائی‘ جیب سے سگریٹ نکالا‘ سلگایا اور اطمینان سے سگریٹ پینے لگے‘ برطانوی فوجی انہیں اپنے جہاز سے دیکھ رہے تھے‘ انہوں نے انہیں ٹارگٹ کیا اور ان کی طرف گولہ داغ دیا‘ گولہ اتاترک سے دو سو گز کے فاصلے پر گرا‘ بارود‘ پتھر اور مٹی اڑی لیکن اتاترک اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے‘ اگلا گولہ ان سے سو فٹ کے فاصلے پر پھٹا لیکن وہ اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے‘ تیسرا گولہ ان کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا ان کی پشت پر پچاس فٹ کے فاصلے پر گرا‘ ایک دھماکا ہوا اور اتاترک دھویں اور غبار میں گم ہو گئے‘ ان کے ساتھیوں کو محسوس ہوا کرنل مصطفی پاشا شہید ہو چکے ہیںلیکن جب دھواں ختم ہوا تو جوان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اتاترک دیوار پر بیٹھ کراسی طرح سگریٹ پی رہے ہیں‘ مصطفی کمال نے سگریٹ کا ٹوٹا نیچے پھینکا‘ اسے جوتے سے بجھایا‘ قہقہہ لگایا اور اپنے مورچوں کی طرف واپس چل پڑے‘ وہ مورچوں کے پاس پہنچ کر جوانوں سے بولے ’’میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مار نہیں سکتی‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں موت صرف ایک بار آتی ہے‘بار بار نہیں آتی چناں چہ ڈرنا اور گھبرانا بند کر دو‘‘ اتاترک کے ان دو فقرں نے جادو کا کام کیا‘ ترک جوانوں نے حوصلہ پکڑا اور اپنے سے کئی گنا بھاری لشکر سے بھڑ گئے اور گیلی پولی برطانوی فوجیوں کا قبرستان بن گیا‘ یہ وہ فتح تھی جس نے مصطفی کمال پاشا کو بین الاقوامی لیڈر بنا دیا‘ 1921ء میں عثمانی خلافت ختم ہو گئی اور دنیا کی بڑی طاقتوں نے ترکی کو آپس میں تقسیم کرنا شروع کر دیا ‘اس وقت اتاترک نے نعرہ لگایا ’’میں ترک ہوں اور ترکی کے مقدر کا فیصلہ میں نے کرنا ہے‘‘ اس نعرے کے بعد انہوں نے ترک قوم کو اٹھایا اور ترکوں نے آزادی حاصل کر لی۔قائداعظم محمد علی جناح اتاترک سے متاثر تھے‘ پاکستان بنا تو قائداعظم نے ملک فیروز خان نون کو اپنا نمائندہ بنا کر ترکی بھجوایا‘ نون صاحب نے اتا ترک کا ایک قریبی دوست اور مشیر تلاش کیا اور ان سے پوچھا ’’ہم پاکستان کو ایک جدید اور کام یاب ملک کیسے بنا سکتے ہیں؟‘‘ اتاترک کے دوست نے فیروز خان نون کو دو مشورے دیے‘میں آج یہ سمجھتا ہوں اگر ہم نے 1947-48ء میں ان دونوں مشوروں پر عمل کیا ہوتا تو آج کا پاکستان ایک مختلف پاکستان ہوتا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں اتاترک کہا کرتے تھے‘ کسی بھی انقلاب کے بعد پہلے دو سال بہت اہم ہوتے ہیں‘ آپ شروع کے دو برسوں میں ملک کو جو بنیاد فراہم کر دیں ملک اس کے بعد اس کے مطابق چلتا ہے‘ میرا آپ کو بھی مشورہ ہے آپ یہ دو سال ضائع نہ ہونے دیں‘ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں آپ پہلے دو برسوں میں کر لیں‘ دو برس بعد لوگوں کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے گااور یہ آپ کو پھر کچھ نہیں کرنے دیں گے اور دو ‘ سر آپ اپنے سارے فیصلے خود کریں‘ کسی دوسرے ملک‘ کسی دوسری طاقت کو فیصلے نہ کرنے دیں‘ آپ کام یاب ہو جائیں گے۔ فیروز خان نون نے واپس آ کر یہ دونوں مشورے قائداعظم کے گوش گزار کر دیے لیکن افسوس قائداعظم علیل ہو گئے اور یہ بعدازاں انتقال فرما گئے ورنہ شاید ہم دو سال میں ملک کا آئین بھی بنا لیتے اورملک کی سمت بھی درست کر لیتے‘ہم اگر آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا ہم اس ملک میں دو بڑی غلطیاں کرتےرہے ہیں‘ پہلی غلطی اس ملک کی بنیاد تھی‘ ہماری بنیاد میں کنفیوژن ہے‘ ہم نے ملک کی بنیاد اور بقا دونوں کو بھارت دشمنی سے وابستہ کر دیا اور ہم دو باتیں بھول گئے ‘انسان مذہب بدل سکتا ہے لیکن یہ ہمسایہ نہیں بدل سکتا اور دوسرا نفرت وہ آگ ہوتی ہے جو دوسروں کو بعد میں اور اپنے آپ کو پہلے جلاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو جلاتے چلے گئے‘ آج حالت یہ ہے اگر عمران خان دہلی جا کر نریندر مودی سے ہاتھ ملا لیں یا نریندر مودی اسلام آباد آ کر عمران خان سے گلے مل لیں پورے ملک میں عمران خان کےخلاف پوسٹر لگ جائیں گے‘ یہ عرش سے فرش پر آ جائیں گے جب کہ دنیا میں عرب اسرائیل سے معاہدے کر رہے ہیں اور روس اور امریکا بھائی بھائی بن رہے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دوسرا ہم نے اپنا ہر فیصلہ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیا‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ ہم نے آج تک کون سا فیصلہ خود کیا ہے؟ ہماری حالت یہ ہے ہم میاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب اور امریکا کے کہنے پر ملک سے باہر بھجواتے ہیں اور امریکا اور برطانیہ کے حکم پر بے نظیر بھٹو کو واپس آنےاور الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہیں‘ ہم ایف اے ٹی ایف کے حکم پر حافظ سعید کے مدارس بند کرتے ہیں اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی‘ گیس اور پٹرول کے ریٹس طے کرتے ہیں چناں چہ ہم پھنس گئے ہیں اور ہم مزید پھنستے چلے جا رہے ہیں۔میں بقراط یا سقراط نہیں ہوں‘ میں صرف اور صرف ایک عام انسان ہوں‘ اللہ نے کرم کیا اور مجھے پ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج