جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر کی تلاش ہے
تین برسوں میں خان صاحب کی لیڈری کا واقعی اگر کوئی امتحان تھا تو پچھلے دو ہفتے تھے۔ امتحانی پرچے کا یہ وہ سوال تھا جس کے بارے میں شاید یقین دلایا گیا تھا کہ یہ نہیں آئے گا اور آ گیا۔
عفت حسن رضوی جمعرات 22 اپریل 2021 8:00
facebook sharing buttontwitter sharing buttonsharethis sharing button
قیادت کا اصل امتحان (پی آئی ڈی) - عفت حسن رضوی
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
دنیا کو ہم پاکستانی اچھے ہاتھ لگے۔ سماجی سائنس دانوں کی تجربہ گاہ، سیاسی محققین کا تختہ مشق، عالمی طاقتوں کے لیے کھیل کا میدان، مذہب کو سیاست اور سیاست کو مذہب کے نام پہ استعمال کرنے والوں کے لیے نیٹ پریکٹس۔ ہم ہر صورت حال کے حساب سے مال آرڈر پہ تیار کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔
تجرباتی مال جمہور کے نام پہ ہانکا جانے والا ریورڑ ہی نہیں، لیڈرز بھی آرڈر پہ تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی ڈیڈی کا چہیتا بن کر، کوئی عطائی ڈاکٹر کے انکیوبیٹر میں 22 برس گزار کر، کوئی مرد مومن کا متوالا بن کر، کوئی بیٹی، داماد بن کر کوئی سالا بن کر کسی نہ کسی طرح آرڈر پہ لیڈر دستیاب ہو ہی جاتا ہے۔
رہنما فطری ہوتا ہے، یا تو رہنما ہوتا یا نہیں ہوتا یہ بنایا نہیں جا سکتا۔ ٹوئٹر فیس بک پہ پیسوں کے عوض بچے بچیاں بٹھا کر سوشل میڈیا ٹرینڈز چلانے سے لیڈر نہیں بنتے۔ پارٹی کے شاندار ترانے سُپرہٹ ہو جائیں اس کا بھی ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بندہ لیڈر بن گیا۔
بڑے بڑے اخبارات، رسائل، چینلز، بڑی شخصیات کی زباں پہ اور کتابوں میں آپ کا نام آئے، لوگ آپ کو سراہیں چاہیں، آپ کی بلائیں اتاریں اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ رب کا بڑا کرم ہے آپ پہ کہ آپ کی کرشماتی شخصیت دوسروں کو مرعوب کرتی ہے۔
لیکن یہ وصف بھی ضروری نہیں کہ سند ہو کہ آپ میں قائدانہ صلاحیتیں بھی ہیں۔ اللہ سب کو سب کچھ نہیں دیتا اس کا کرم اور آزمائش ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
زور خطابت سے مجمعے کی واہ واہ سمیٹ لی، لہو گرما دیا تو آپ اچھے مقرر ہو سکتے ہیں، لیڈر نہیں۔
اچھی شخصیت من موہنی صورت قدوقامت اور وجاہت، یہ بھی اللہ کی دَین ہے مگر راہبر ہونے کی نشانی نہیں۔ یہاں تک کہ آپ سربراہ مملکت بن جائیں کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ لیڈر بھی ہیں۔
ایک اور کڑوی کسیلی بات مگر بالکل سچ۔ بندہ ایمان دار ہو، نیت کا بھرا ہوا ہو، دنیا کی رنگینیوں سے رجا ہوا ہو، کرپٹ نہ ہو، سیدھا سچا ہو، کھرا ہو یہ بھی برے اعلیٰ اوصاف ہیں قابل تعریف ہیں۔ مگر افسوس کہ یہ محاسن بھی ایک عظیم لیڈر ہونے کے لیے کافی نہیں۔
لیڈر کی پہچان اس کا قد کاٹھ، لب ولہجہ، پروجیہہ شخصیت، اس کا نام و نسب یا بین الاقوامی شہرت نہیں، قوم کے مشکل وقت میں اس کی قائدانہ صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کے سخت فیصلے، معاملہ فہمی، منطقی دعوے اور بہادری اسے لیڈر بناتی ہے۔ راہبر کی رہبری اس وقت پرکھی جاتی ہے جب قوم کے سامنے کئی راستے ہوں اور سیدھا راستہ صرف ایک جسے راہبر جانتا ہو۔
پچھلے تین برس قوم بحیثیت مجموعی انگشت بدنداں رہی کہ یا اللہ اب تو لیڈر بھی کرپٹ نہیں، بندہ بھی کھرا ہے، اسے تو جھکنے اور بکنے کی عادت نہیں، پرچی کی بھی ضرورت نہیں پھر بات کیوں نہیں بن پا رہی۔
ستر برسوں کی ستائے بیچارے عوام کو تقریروں نے بڑی امید دی تھی، وزیر اعظم کے ووٹرز اسی کشمکش کا شکار تھے کہ عمران خان کچھ تو اچھا کر رہا ہوگا، وہ کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور لڑا رہا ہوگا۔ کالی عینک کے پیچھے سے وہ عقابی نظریں کچھ تو ایسا دیکھ رہی ہوں گی جو ہم کوتاہ نظروں کو دکھائی نہیں دے رہا۔
خان صاحب کی حکومت کو اب تک کسی بڑے ان دیکھے چیلنج کا سامنا نہیں رہا۔ ان کی کابینہ کو قانونی محاذ نہیں بھگتنے پڑے۔ سینیٹ الیکشن کا طوفان بھی کنارے سے سر پٹک کے واپس چلا گیا۔ کرونا (کورونا) کو حکومت اور عوام مل کر بھگت رہے ہیں۔
لے دے کہ ایک دم توڑتی معیشت تھی جس کا انہیں پہلے سے پتہ تھا وہ سنبھل نہ سکی۔ راستے میں اگر کوئی روڑا اٹکنے والا تھا وہ اپوزیشن کی تحریک پی ڈی ایم تھی جو اپنی موت آپ مر گئی۔
مزید پڑھیے
پاکستان کی نئی قیادت مسئلہ کشمیر سے واقف نہیں: راجہ فاروق حیدر
شاہ محمود قریشی کی بےسمت قیادت
عمران سیریز: علی عمران سے عمران خان تک
عمران خان کی ’کمزوریاں‘
تین برسوں میں خان صاحب کی لیڈری کا واقعی اگر کوئی امتحان تھا تو پچھلے دو ہفتے تھے جب تحریک لبیک سڑکوں پہ تھی۔ امتحانی پرچے کا یہ وہ سوال تھا جس کے بارے میں شاید یقین دلایا گیا تھا کہ یہ نہیں آئے گا اور آ گیا۔
خان صاحب کی راہبری پہ تکیہ کرنے والے دیکھ رہے تھے کہ ملک کی شاہراہیں فتنہ گروں کے قبضے میں تھیں اور لیڈر کے پاس کوئی پلان نہ تھا۔ مذہب کے نام پہ پولیس والوں کے سر پھاڑے جا رہے تھے اور وہ کرشماتی شخصیت اپنی لیڈری کے سارے جلوے سمیٹ کر کسی گپھا میں غائب تھی۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کی سیاست کو لگام دینے کے لیے جن قوتوں نے ایم کیو ایم کے لیے راہ ہموار کی تھی، انہی ہاتھوں نے پھر ایم کیو ایم کو نتھ ڈالنے کے لیے حقیقی اور سُنی تحریک کے نام سے گروہ بنائے۔ پھر کراچی نے وہ دن دیکھے کہ اللہ پھر کبھی نہ دکھائے۔ یہاں تک کہ سانحہ نشتر پارک ہوا اور سُنی تحریک کو ختم کر دیا گیا۔
خاں صاحب کی لیڈری کو تحریک لبیک کی شکل میں بیک وقت سیاسی، مذہبی، سکیورٹی اور سفارتی چیلنج کا سامنا ہے۔ بیٹھی معیشت آٹا چینی دال چاول سستے گھر اور نواز زرداری سیاست سے در بدر جیسے معاملات تو ہم نے دیکھ لیے کیسے ہینڈل کیے، اب تو وہ سب معاملے آٹو پہ چل رہے ہیں۔ البتہ جناب کی لیڈری کے کرشمے پہ اندھا یقین رکھنے والوں کو تحریک لبیک کا معاملہ دیکھ کر نتیجے پہ پہنچ جانا چاہیے۔ اور جو کوئی پھر بھی سمجھنا نہ چاہے تو
مرے نامراد جنون کا ہے علاج کوئی تو موت ہے
جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر کی تلاش ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں