جنرل سن تزو اور داشتائیں - لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

جنرل سن تزو اور داشتائیں - لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

 


جنرل سن تزو اور داشتائیں 

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان


Mar 19, 2021

جنرل سن تزو اور داشتائیں 


جنرل سن تزو (Sun Tzu) کا نام تو فوج جوائن کرنے سے پہلے بھی ہم نے پڑھ رکھا تھا لیکن بس اتنا ہی معلوم تھا کہ پرانے زمانے میں چین کا کوئی جنرل تھا جس کا مجسمہ دیکھ کر چنگیز خان اور ہلاکو خان کے چہروں کے نقوش یاد آتے تھے۔ ہیرلڈ لیمب  کی چنگیز خان کی سوانح عمری کا اردو ترجمہ بڑا سحر انگیز لگتا تھا لیکن جب اقبال کے شکوہ، جواب شکوہ میں یورشِ تاتار اور ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘ والے بند کی تشریح پڑھی تو چنگیز کی ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ والے شعر نے دوبارہ منگولوں سے ایک گونہ نفرت پیدا کر دی۔



وزیراعظم عمران خان نے سیاسی حکمت عملی بدلنے کا فیصلہ کر لیا ، شیخ رشید کو پی ڈی ایم کے خلاف کیا کام کرنے سے روک دیا ؟ بڑی خبر 

تاہم جب فوج میں وارد ہوئے تو سن تزو کا نام بار بار پڑھنے کو ملا۔ مختلف عسکری مقالہ جات و مضامین میں سن تزو کے مقولے استعمال ہوتے تھے لیکن یہ کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ اس کی شہرت کا دار و مدار جس تصنیف پر ہے وہ صرف 50 صفحات پر مشتمل ایک مقالہ (Treatise) ہے جس کا عنوان ”دی آرٹ آف وار“ ہے…… یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ چینی جرنیل حضرت عیسیٰ کی ولادت سے بھی 500سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ چینی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب شمار کی جاتی ہے۔ یونان و روما اور مصر و ہندوستان کی تہذیبیں تو بہت بعد کی باتیں اور داستانیں ہیں۔ ہماری پوسٹنگ مردان میں ہوئی تو مردان کی ملٹری سٹیشن لائبریری کے علاوہ آفیسرز میس (پنجاب رجمنٹ سنٹر)کی ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی۔ ان دونوں میں یہ مقالہ یعنی The Art of War موجود نہ تھا۔ پشاور کے ایک دوست سے رابطہ کیا اور یہ ’کتاب‘ منگوائی تو پڑھ کر تعجب ہوا۔ معلوم ہوا کہ یہ تحریر 2500 برس قبل کی نہیں، عصرِ حاضر کی کوئی ملٹری ہسٹری ہے جس میں عسکری سمندر (دریا نہیں) کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔


سرکاری ملازمین کو مقررہ وقت سے 2 منٹ پہلے چھٹی کرکے گھر جانا مہنگا پڑگیا

اس کوزے کی تفصیل تو بعد میں کسی وقت بیان کروں گا لیکن آپ سوال کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں جنرل سن تزو کی“ آرٹ آف وار“ پر کالم نگاری کی کیا تُک تھی…… میں ایک طویل عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کا حکمران طبقہ خواہ وردی پوش ہو یا غیر وردی پوش، ایسے عسکری اور غیر عسکری آزاروں میں مبتلا ہے کہ جن کا علاج سن تزو نے سادہ ترین اور مختصر ترین اسلوبِ نگارش میں درج کر دیا ہے…… کل میں نے اپنی چھوٹی سی گھریلو لائبریری کھنگالی تو یہ کتابچہ مل گیا۔ اس کے 95 صفحات ہیں جن میں 45صفحات کا دیباچہ ہے جو کتاب کے برطانوی مترجم نے لکھا ہے اور باقی 50صفحات اصل کتاب کے 13ابواب پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کا چینی متن (Text) تو سینہ بہ سینہ چین کی نژادِ نو تک پہنچا۔ لیکن 1972ء میں ایک کھدائی کے دوران اصل کتاب جو بانس کے ٹکڑوں کو کاٹ کر اس کے اندر کے حصوں میں لکھی گئی تھی وہ بھی مل گئی۔ یہ متن عین مین وہی تھا جو چینی زبان میں دستیاب تھا اور جس کا انگریزی ترجمہ برٹش میوزیم کے کیوریٹر Lionel Giles نے 1910ء میں شائع کیا تھا…… میرے سامنے وہی انگریزی ترجمہ ہے جس کی صحت میں کوئی شک نہیں۔ اگر زندگی نے وفا کی تو ارادہ ہے کہ اس ساری کتاب کا اردو ترجمہ نذرِ قارئین کروں۔


اگر پیپلز پارٹی راضی نہیں ہوتی تو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کیاکریں گے ؟ نجی ٹی وی نے بڑا دعویٰ کر دیا 

یہ بھی بتاتا چلوں کہ ”دی آرٹ آف وار“ کا اردو ترجمہ ایک سے زیادہ مترجمین نے کیا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی مترجم چونکہ ’وردی پوش‘ نہیں اس لئے اس ترجمے کا حق ادا نہیں ہوا بلکہ جگہ جگہ ان تراجم میں ایسی خامیاں اور غلطیاں ہیں کہ اصل مدعا غارت ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے انگریز مترجم جائلز نے اپنی طرف سے جو پیش لفظ لکھا ہے اس کے اولین دو تین صفحات کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے…… اسے پڑھنے کے بعد سنجیدہ قاری اس کے مندرجات کو آج کی پاکستانی سیاست کے تناظر میں رکھ کر دیکھے گا تو اس میں کئی مماثلتیں دیکھنے کو ملیں گی……


لودھراں میں فائرنگ  4 افراد ہلاک 2 زخمی 

…………………………


سن تزو کی ”دی آرٹ آف وار“ تقریباً 500ق م میں لکھی جانے والی دنیا کی قدیم ترین ملٹری تحریر ہے۔ اس میں اختصار کا بہت خیال رکھا گیا ہے اور اگرچہ اس میں اصول و ضوابط عسکری کی پیروی کا بھی از بس لحاظ رکھا گیا ہے پھر بھی اس کی اورجنل قدر و قیمت مستند نوعیت کی ہے اور اگرچہ اس کو منظر عام پر آئے 25صدیاں گزر چکی ہیں پھر بھی آج کا عسکری طالب علم اس مقالے کو جدید اصول ہائے جنگ کے تناظر میں، کاروبارِ حرب و ضرب کو کنڈکٹ کرنے کی ایک بیش قیمت دستاویز اور گائیڈ تصور کرتا ہے۔ اگرچہ آج رتھوں (Chariots) کا زمانہ گزر چکا اور سلاحِ جنگ تبدیل ہو چکے  پھر بھی یہ شخص، یہ اتالیقِ فنِ جنگ، جسے سن تزو کہا جاتا ہے، اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جنگ کی کلیدی مبادیات کا تذکرہ کرتا اور ملٹری آپریشنوں پر سیاسیات اور فطرتِ انسانی کے اثرات پر بحث کرتا ہے۔ وہ نہایت صریح انداز میں بتاتا ہے کہ اسالیبِ جنگ آج بھی وہی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔


ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعہ) کا دن کیسا رہے گا؟

ایک چینی مورخ ’سوماچین‘ کے مطابق سن تزو ریاست چی (Ch`I)کا رہنے والا تھا۔ اس کی تحریر ”دی آرٹ آف وار“ نے 500 ق م میں ریاست وو (Wu) کے حکمران، کنگ ہولو (Ho Lo) کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ ریاست شنگھائی کے مغرب میں وسطی چین میں واقع تھی اور اس کے دارالحکومت کا نام ووچانگ (Wuchang) تھا۔ آج بھی یہ شہر جدید چائنا کا ایک معروف شہر شمار ہوتا ہے…… جب کنگ ہولو کی ملاقات سن تزو سے ہوئی تو اس نے سن تزو سے کہا: ”میں نے آپ کی کتاب کے 13ابواب کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا ہے…… کیا میں آپ کی تھیوری کی عملی صداقت کو پرکھنے کے لئے اس کا ٹیسٹ کر سکتا ہوں؟“


پیرس اور گرد و نواح میں سمارٹ لاک ڈاؤن، سکول کھلے رہیں گے

سن تزو نے جواب دیا: ”بصد شوق“…… ہولو نے پھر پوچھا: ”کیا اس ٹیسٹ کا اطلاق خواتین پر بھی ہو سکتا ہے؟“…… سن تزو نے اس سوال کا جواب بھی اثبات میں دیا۔


یہ سن کر کنگ ہولو نے حکم دیا کہ اس کے محل سے 180 نو عمر اور حسین خواتین کو فی الفور حاضر کیا جائے۔ سن تزو نے ان کنیزوں کو دو کمپنیوں میں برابر  برابر تقسیم کر دیا۔ اس طرح ہر کمپنی میں 90خواتین ہو گئیں۔ سن تزو نے ہر کمپنی کی کمانڈ ایک ایسی داشتہ کے سپرد کی جو بادشاہ سلامت کی خاص منظورِ نظر تھی!


سن تزو نے ہر داشتہ کو کہا کہ وہ اپنے ہاتھ میں ایک نیزہ پکڑ لے۔ جب ایسا ہو چکا تو سن تزو ان سے مخاطب ہوا: ”میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ کو آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سمتوں کا پتہ ہے“۔…… لڑکیوں نے جواب دیا: ”ہاں“ سن تزو نے اپنا بیان جاری رکھا اور کہا: ”جب میں یہ کاشن دوں کہ ”سامنے دیکھ“ تو آپ سب نے ناک کی سیدھ میں سامنے دیکھنا ہے اور جب میں بولوں: ”بائیں مُڑ“ تو آپ سب نے بائیں طرف منہ کر لینا ہے اور جب میں ’اباؤٹ ٹرن‘ کا کاشن دوں تو آپ سب نے دائیں ہاتھ سے پیچھے کی طرف مُڑ جانا ہے“۔


اس طرح جب کمانڈ کے یہ الفاظ ان حسین خواتین کے ذہن نشین کروا دیئے گئے تو سن تزو نے ان سب کے ہاتھوں میں کلہاڑے اور گنڈاسے پکڑوا دیئے تاکہ ڈرل شروع ہو…… پھر ڈرم بجنے لگے اور ان کی آوازوں کے ساتھ ہی سن تزو نے پہلا آرڈر دیا: ”دائیں مُڑ“ لیکن ان لڑکیوں نے تعمیلِ حکم کی بجائے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر سن تزو نے کہا: ”اگر کمانڈ کے الفاظ صاف اور واضح نہ ہوں اور ان میں کوئی شک ہو اور احکامات پوری طرح سپاہ کی سمجھ میں نہ آئیں تو قصور جرنیل (کمانڈر انچیف) کا ہوگا“۔


اس کے بعد سن تزو دوبارہ شروع ہوا اور کاشن دیا: ”بائیں مُڑ“…… یہ سن کر دوبارہ تمام داشتائیں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے لگیں۔ جب قہقہوں کا شور تھما تو سن تزو گویا ہوا: ”اگر کمانڈ کے الفاظ صاف اور واضح نہ ہوں اور پوری طرح سپاہ کے فہم میں نہ آئیں تو جرنیل موردِ الزام ہے۔ لیکن اگر اس کے احکام صاف اور صریح ہوں اور سولجرز پھر بھی ان کی تعمیل نہ کریں تو پھر سولجرز کا آفیسر قصور وار ہے“…… چنانچہ یہ کہہ کر سن تزو نے حکم دیا کہ دونوں کمپنی کمانڈروں کے سر تن سے جدا کر دیئے جائیں!


کنگ ہولو ایک بلند پاولین سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی دو محبوب ترین داشتاؤں کے سر قلم کئے جا رہے ہیں تو اس نے بہت تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سن تزو کو یہ پیغام بھجوایا: ”مابدولت اپنے جنرل کی اہلیت و قابلیت پر حد درجہ مطمئن ہیں۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ سپاہ پر حکم چلانے پر ہر طرح قادر ہیں …… اگر ہم ان دو داشتاؤں سے محروم ہو گئے تو ہمارے کباب و شراب کی خورد و نوش میں خلل واقع ہو گا۔ اس لئے مابدولت کی خواہش ہے کہ ان دونوں لڑکیوں کے سر نہ کاٹے جائیں“۔


یہ پیغام سن کر سن تزو نے جواب دیا: ”جب جہاں پناہ نے مجھے اپنی فوج کی کمانڈ پر فائز فرمایا تھا تو عزت مآب کی اس کمانڈ میں بعض شقیں ایسی بھی تھیں جن کو میں آپ کی افواج کا جرنیل ہونے کی حیثیت میں تسلیم کرنے کا پابند نہیں“…… یہ کہہ کر سن تزو نے دونوں داشتاؤں کے سر تن سے جدا کروا دیئے اور ان کی جگہ دونوں کمپنیوں سے ایک ایک نیا لیڈر منتخب کرکے اسے کمپنی کمانڈر کے عہدے پر فائز کر دیا۔


جب ان دونوں داشتاؤں کے قتل کی کارروائی مکمل ہو چکی تو ایک بار پھر ڈرم گونجنے لگے اور ڈرل کا از سر نو آغاز ہوا۔ اب کی بار یہ تمام لڑکیاں ٹھیک ٹھیک دائیں بائیں اور آگے پیچھے مڑنے لگیں اور احکامات بجا لانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ان کو جو حکم بھی دیا جاتا خواہ وہ سیدھا کھڑا ہونے کا تھا یا گھٹنوں کے بل جھکنے کا، اس کو من و عن بجا لایا جاتا اور کسی طرف سے بھی کوئی ہلکی سی آواز سنائی نہ دیتی۔


اس کے بعد سن تزو نے کنگ ہولو کو یہ پیغام بھیجا: ”سر! آپ کے سولجرز کی ڈرل مکمل ہو چکی اور ڈسپلن کا نفاذ ہو چکا۔ اب جہاں پناہ تشریف لا کر پریڈ کا معائنہ کر سکتے ہیں“۔


……………………


جنرل سن تزو کی ”دی آرٹ آف وار“ کی یہ تحریر آپ نے پڑھی…… اس میں پاکستانی قوم اور اس کے حاکموں کے لئے جو اسباق ہیں، ان پر غور و خوض کرنا اب آپ کا کام ہے!!!


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج