مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف مکافات عمل کا شکار
میاں اشفاق انجم
Mar 19, 2021
مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف مکافات عمل کا شکار
عموماً کہا جاتا ہے سیاست بڑی ظالم ہے، صحافتی طالب علم کی حیثیت سے زمانہ طالب علمی سے سیاسی جوڑ توڑ، مفادات کی جنگ کا کھیل دیکھتے چلے آ رہے ہیں، پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن کی طرف سے مختصر ترین انداز میں 26 مارچ سے طے شدہ لانگ مارچ کے ملتوی کرنے کے اعلان کے وقت جو بے بسی ان کے چہرے پر نظر آئی اور مریم بی بی کی طرف سے بار بار مولانا صاحب پکارنے کے باوجود صحافیوں سے دور بھاگنے کے عمل سے ہی سوشل میڈیا پر پنڈورا بکس کھولتے چلے گئے، 31دسمبر، پھر31جنوری اور اب26مارچ کو عمران حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے خواہش مند دانشور، صحافی،اینکر، کالم نویس بھی اضطراب کا شکار نظر آئے۔ سب سے پہلا دبنگ تبصرہ جناب حامد میر کا نظر آیا، جن کا وصف رہا ہے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان کا کہنا تھا آج مولانا فضل الرحمن کے ساتھ آصف علی زرداری وہی کچھ کر رہے ہیں،جو مولانا فضل الرحمن نے14سال پہلے قاضی حسین احمد کے ساتھ کیا تھا، عموماً کہا جاتا ہے دُنیا کا دستور ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے
وزیراعظم عمران خان نے سیاسی حکمت عملی بدلنے کا فیصلہ کر لیا ، شیخ رشید کو پی ڈی ایم کے خلاف کیا کام کرنے سے روک دیا ؟ بڑی خبر
جو بوؤ گے وہی کاٹنا پڑے گا
موجودہ حالات میں میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن مکافات عمل کا شکار نظر آئے،یہ زیادہ دیر کی بات نہیں ہے آج جیسے آصف علی زرداری نے استعفیٰ تحریک کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے ایسے ہی فضل الرحمن اور نواز شریف نے اپوزیشن سے ہاتھ کیا تھا۔اگر مولانا فضل الرحمن استعفیٰ دے کر جماعت اسلامی کے ساتھ سرحد اسمبلی سے نکل آتے تو الیکٹورل کالج ٹوٹ جاتا اور مشرف صدر منتخب نہ ہو پاتے۔ ایسے ہی ایک دفعہ مولانا اور میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو نکیل ڈالنے کو جواز بنا کر الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور مولانا فضل الرحمن نواز شریف اور قاضی حسین احمد نے متحد رہنے اور اسٹیبلشمنٹ کو سبق سکھانے کا عزم کیا اور پھر تاریخ گواہ ہے، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن الیکشن میں چلے گئے اور جماعت اسلامی اصولی موقف کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے اکیلی کھڑی رہ گئی۔ صدر مشرف کی زیر نگرانی جمہوریت کا جام مولانا نے بھی پیا اور میاں نواز شریف نے بھی! کہاں کی اخلاقیات، وعدے کی پاسداری اس وقت میاں نواز شریف کی لائن مل گئی تھی اور مولانا فضل الرحمن کو بھی حصہ مل رہا تھا،
سرکاری ملازمین کو مقررہ وقت سے 2 منٹ پہلے چھٹی کرکے گھر جانا مہنگا پڑگیا
وہ سب ٹھیک تھا جماعت اسلامی کو کئی ہفتوں تک سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ مولانا اور میاں نواز شریف ہمیں جمہوریت کی کون سی شراب پلا گئے ہیں، کیونکہ جب جماعت اسلامی نے دائیں بائیں دیکھا تو چڑیاں کھیت چُگ چکیں تھیں، اب گھبرانے والی کیا بات ہے اب پیپلزپارٹی کی لائن مل رہی ہے، تو ان کا بھی حق ہے کہ اپنا حصہ وصول کرے، کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی اخلاقیات کا تقاضا۔ یہ بھی زیادہ دور کی بات نہیں ہے، گیارہ جماعتوں کے پی ڈی ایم اتحاد میں شامل نہ ہونے پر جو طعنہ زنی جماعت اسلامی پر اہل دانش اور اینکر اور مخصوص لابی نے کی، اب ان سے بھی سوال کیا جا سکتا ہے۔ جناب والا گیارہ جماعتوں کا تاریخی اتحاد پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کا پہلا مرحلہ بھی گزر گیا، دوسرا مرحلہ بھی گزر گیا اور اب شیرازہ بکھرتے پی ڈی ایم کے ایجنڈے میں کسی جگہ عوام کی حالت ِ زار کا ایجنڈا نظر آیا ہے؟
اگر پیپلز پارٹی راضی نہیں ہوتی تو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کیاکریں گے ؟ نجی ٹی وی نے بڑا دعویٰ کر دیا
کھاتا ہے لگاتا بھی ہے کا فقرہ پروان چڑھا ہے، گیارہ میں سے چھ جماعتیں اسلام پسند اور اسلامی اقدار کی حامل ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان کو ہی اپنی سرپرست اور بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی اے این پی اور جے یو آئی سے سوال کرنا تو بنتا ہے، جناب ڈھائی سال میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں،8 مارچ کو نبی ئ مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہؓ کی تضحیک (نعوذ باللہ)،کمر توڑ مہنگائی کی مرمت کیوں نہیں کی گئی، پی ڈی ایم کے کسی ایک اجلاس میں اب تک عوام کی مشکلات کے حل کا ایجنڈا اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی ایک بھی قرارداد نہیں آئی۔ ڈھائی سالوں میں پی ڈی ایم کے مطابق نالائق نااہل حکومت نے صرف قرضے لیے ہیں، یہ منتخب نہیں ہے سلیکٹڈ ہے اس کے وزیر چینی، آٹا چور ہیں،ان کو این آر او نہیں دیں گے اسی طرح کا موقف تحریک انصاف کی حکومت کا ہے، پی ڈی ایم چوروں کا گٹھ جوڑ ہے، ہم نے ان پر مقدمات نہیں بنائے جو مرضی کر لیں ان کو این آر او نہیں ملے گا۔
حکومت اور اپوزیشن کے موقف اور پالیسیاں تقریباً ایک جیسی اور ملتی جلتی ہیں، عوام نہ حکومت کے ایجنڈے میں ہے اور نہ اپوزیشن کے ایجنڈے میں، موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی اور فضل الرحمن+ مریم نواز بالمقابل ہیں۔ پی ڈی ایم کے اختلافات کی وجہ سے بظاہر ٹھنڈ ہو گئی ہے، لیکن میرا ذاتی خیال ہے کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی لڑائی کی وجہ سے عوام کا کچومر نکل رہا ہے، آئی ایم ایف کی مانیٹرنگ سٹیٹ بینک کی گرفت نئی کہانیاں سنا رہی ہے۔ ہر آنے والا دن خوفناک اور خطرناک ہوتا نظر آتا ہے ان حالات میں کیا ہونا چاہئے،نام نہاد جمہوریت بھی بچ جائے اور حکومت اور اپوزیشن کو عوام بھی یاد آ جائے،جن کو گزشتہ72 سال سے ووٹ لینے کی حد تک عزت دی جا رہی ہے اس کے لئے ملک بھر میں اگر بڑے بزرگ محب وطن دس بارہ افراد موجود ہیں تو ان کو آگے آنا چاہئے اور دونوں کو اللہ کا واسطہ دے کر ڈائیلاگ پر لانا چاہئے ورنہ کسی جماعت کے پاس کچھ نہیں ہے، نہ ماضی میں اور نہ حال میں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں