مولانا فضل الرحمن، غالب کو برا کیوں کہو، اچھا، مرے آگے
نسیم شاہد
Mar 19, 2021
مولانا فضل الرحمن، غالب کو برا کیوں کہو، اچھا، مرے آگے
جسے دیکھو مولانافضل الرحمن کو سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ خود ان کی اپنی جماعت سے نکالے جانے والے دوست بھی انہیں طعنے دے رہے ہیں کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دھوکے پہ دھوکہ کھانے کے باوجود مولانافضل الرحمن کو عقل نہیں آتی اور وہ خود کو ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے ہوئے ہیں، جس کی کوئی منزل ہے ہی نہیں۔میں ان باتوں کو نہیں مانتا۔ مولانافضل الرحمن کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کے خلاف ایک محاذ گرم رکھا ہوا ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ مولانافضل الرحمن کا کردار اپوزیشن سے مائنس کر دیں اور بتائیں کہ دوسرا کون ہے جو اس چنگاری کو بجھنے سے بچائے ہوئے ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے سیاسی حکمت عملی بدلنے کا فیصلہ کر لیا ، شیخ رشید کو پی ڈی ایم کے خلاف کیا کام کرنے سے روک دیا ؟ بڑی خبر
حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف اور آصف زرداری بھی اکیلے کچھ نہ کر سکتے اگر مولانافضل الرحمن میدان میں موجود نہ ہوتے، ان کے کردار کو اس حوالے سے دیکھا جانا چاہئے کہ انہوں نے عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف پہلے دن جو مؤقف اپنایا وہ ابھی تک اس پر ڈٹے ہوئے ہیں کیا خیال ہے انہیں ایسی پیشکشیں نہیں ہوئی ہوں گی جو ہمیشہ سرگرم لیڈروں کو ہوتی رہی ہیں، مگر انہوں نے اندر خانے کسی سے کوئی ڈیل نہیں کی، کیا یہ ان کی کامیابی نہیں کہ آصف زرداری پر یہ شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ملے ہوئے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے بارے میں افواہیں پھیلتی ہیں کہ اس کے بیک ڈور رابطے ہیں، لیکن مولانافضل الرحمن کے حوالے سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آتی۔ وہ آج بھی پہلے دن کی طرح اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ یہ حکومت جعلی ہے، اسے عوام پر مسلط کیا گیا ہے، 2018ء کا الیکشن چرایا گیا اور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر ایک کٹھ پتلی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
سرکاری ملازمین کو مقررہ وقت سے 2 منٹ پہلے چھٹی کرکے گھر جانا مہنگا پڑگیا
مولانافضل الرحمن کے موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے جھوٹ یا فریب سے کام لیا ہو۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ 2018ء کے انتخابی نتائج کو مسترد کرنا ایک بڑی جلد بازی تھی اور اس سے بھی بڑی جلد بازی یہ تھی کہ اپوزیشن کے منتخب ارکان کو اسمبلی کا حلف اٹھانے سے روکا جائے۔ اس وقت اگر مولانافضل الرحمن تھوڑی لچک کا مظاہرہ کرتے اور پیپلزپارٹی نیز مسلم لیگ (ن) پر دباؤ نہ ڈالتے کہ وہ اسمبلی کا حلف نہ اٹھائیں تو حکومت کے خلاف تحریک زیادہ بہتر طور پر منظم ہو سکتی تھی، احتجاج کے اور بھی بہت سے راستے تھے جنہیں اپنانا چاہئے تھا مگر مولانافضل الرحمن ایک ایسا مطالبہ لے کر سامنے آ گئے جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لئے پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔
اگر پیپلز پارٹی راضی نہیں ہوتی تو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کیاکریں گے ؟ نجی ٹی وی نے بڑا دعویٰ کر دیا
یہ پہلی دراڑ تھی جو اس اتحاد میں پڑی اور وہ آنکھ مچولی شروع ہوئی، جس میں دونوں بڑی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کو یہ تسلی دیتی رہیں کہ وقت آنے پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آپشن استعمال کیا جائے گا۔ مولانافضل الرحمن کی سادگی کہیں یا سیاست کے مروجہ رموز کو سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان کہ وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ جو مطالبہ وہ پہلے دن لے آئے تھے، وہ تو آخری دن تک پورا نہیں ہونا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنے طور پر ایک آزادی مارچ بھی کیا۔ ایک بڑا دھرنا اسلام آباد میں دیا، وہاں بھی ان سے جھوٹے وعدے کر کے دھرنا ختم کرایا گیا اور ان کی سادگی پھر دھوکہ کھا گئی۔ وعدے کرنے والے غائب ہو گئے اور مولانا یہ دہائی دیتے رہے کہ جنہوں نے وعدہ کیا تھا حکومت ختم ہو جائے گی وہ اپنے وعدے سے مکر گئے ہیں۔
لودھراں میں فائرنگ 4 افراد ہلاک 2 زخمی
میں سمجھتا ہوں مولانافضل الرحمن نے ماضی بعید میں جو سیاست کی، ان کی آج کی سیاست اس سے کہیں مختلف ہے۔ ماضی میں ان کا کردار یہ رہا کہ وہ ہر حکومت کے اتحادی بن جاتے تھے، انہوں نے آمروں کے ساتھ بھی گزارا کیا اور جمہوری حکومتوں کے ساتھ بھی انڈر سٹینڈنگ جاری رکھی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ان کے فیض سے حظ اٹھاتی رہیں۔اس بار ایک حادثہ تویہ ہوا کہ مولانافضل الرحمن اسمبلی کے رکن نہیں بن سکے وہ شکست کھا گئے اور اپنی شکست کو قبول نہیں کیا۔ چونکہ وہ خود اسمبلی کے رکن نہیں تھے، اس لئے ان کے اس مطالبے کو کہ اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھایا جائے، اسی تناظر میں دیکھا گیا۔ شاید اسی وجہ سے ان کے اس مطالبے کو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بے وقت کی راگنی سمجھا مگر چونکہ وہ مولانا کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لئے استعفوں کے آپشن سے صریحاً انکار بھی نہیں کیا۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعہ) کا دن کیسا رہے گا؟
اگر مولانافضل الرحمن اس مطالبے سے بالاتر ہو کر پی ڈی ایم کی صدارت سنبھالتے تو بات دوسری تھی۔ وہ اس مطالبے کو اپنا دکھ بنا کر چلتے رہے اور آخر میں سب نے دیکھا کہ یہی مطالبہ پی ڈی ایم کے گلے کی ہڈی بن گیا اور آج یہ حال ہے کہ اس کی بقا کے بارے میں گو ناں گوں سوالات پیدا ہو چکے ہیں مولانافضل الرحمن نے آصف زرداری کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، یہ بھی ان کی سادگی کا کرشمہ نظر آتا ہے، وگرنہ یہ بات تو کوئی نئی نہیں تھی کہ آصف علی زرداری نے استعفوں کا آپشن استعمال کرنے سے انکار کیا، اسمبلیوں میں حلف اٹھانے سے انکار کے معاملے پر بھی یہ پیپلزپارٹی اور آصف زرداری ہی تھے، جنہوں نے مولانا کو واضح پیغام دیا تھا کہ اسمبلیوں سے باہر رہنے کی بجائے ان میں بیٹھ کر جدوجہد کریں گے۔
پیرس اور گرد و نواح میں سمارٹ لاک ڈاؤن، سکول کھلے رہیں گے
ان سب باتوں کے باوجود ایک بات کا کریڈٹ مولانافضل الرحمن کو ضرور ملنا چاہئے انہوں نے تین سال کے قریب عرصہ گزرنے کو ہے اپنی وہ راہ نہیں چھوڑی جو پہلے دن اختیار کی تھی۔ وہ آج بھی حکومت کے سب سے بڑے مخالف ہیں اور ان کی مخالفت میں کوئی اگر مگر نہیں حکومت کے خلاف تحریک کا کریڈٹ بعض لوگ آصف زرداری اور نوازشریف کو دیتے ہیں حالانکہ اس کریڈٹ کے اصل حقدار مولانافضل الرحمن ہیں وہ اگر ایک ستون کی صورت درمیان میں نہ ہوتے تو پی ڈی ایم کی عمارت کب کی منہدم ہو چکی ہوتی۔ اب بھی اسے سہارا دینے کے لئے مولانافضل الرحمن ہی کردار ادا کر رہے ہیں تاہم ان کی سادگی ہے کہ پیپلزپارٹی استعفوں پر راضی ہو جائے گی یہ ایسی بات ہے جیسے آصف زرداری پیپلزپارٹی کی چیئرمین شپ چھوڑ دیں۔ آج بھی 9 جماعتیں مولانا کی قیادت میں یکجا ہیں، اور فی الوقت قومی سیاست میں ایسا کوئی دوسرا نہیں جو مولانا فضل الرحمن کا اس حوالے سے مقابلہ کر سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں