میرے پاکستانیو! احتیاط بالکل نہیں کرنی
Mar 21, 2021
میرے پاکستانیو! احتیاط بالکل نہیں کرنی - محمد اکرم چوہدری
وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ان کی اہلیہ کا کرونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔ دعا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی اہلیہ سمیت دنیا بھر میں تمام متاثرین جلد صحت یاب ہوں اور اس تباہ کن وائرس سے آزاد ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ گذشتہ ڈیڑھ برس میں اس وائرس کی وجہ سے دنیا کے معمولات بدترین طریقے سے متاثر ہوئے ہیں۔ چلنے پھرنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، گھومنے پھرنے غرضیکہ کوئی ایسا شعبہ نہیں جسے وائرس نے متاثر نہیں کیا۔ ملکوں نے اپنے بارڈرز بند کر دیے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی بے پناہ مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کم وسائل رکھنے والے ممالک تو تباہ ہوئے ہی ہیں اس وائرس نے بلا امتیاز غریب امیر، طاقتور اور کمزور سب کو نشانہ بنایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ملک بھر میں ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی گئی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور کرکٹرز نے بھی وزیراعظم عمران خان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ وائرس کسی بھی وقت کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہم تو ابھی اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں کیونکہ ہم تو ویکسینیشن کے بھی ابتدائی مرحلے میں۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ وزیراعظم سے ملاقات ہوئی ہے ان کی طبیعت بہتر اور وہ ہشاش بشاش ہیں۔ وزیراعظم کو کرونا کی معمولی نوعیت کی علامات ہیں۔ وزیراعظم کی کرونا ویکسین پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ ہمارا معمول بن چکا ہے کہ ہر معاملے میں سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اٹھارہ مارچ کو کرونا ویکسین لگوائی تھی یقیناً وہ اس سے پہلے کرونا کا شکار ہو چکے تھے۔ اس لیے سب سے ضروری ہے کہ ہم کم از کم ایسے معاملات میں عوام کو گمراہ کرنے سے دور رہیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق ویکسین فوری طور پر اثر نہیں دکھاتی قوت مدافعت بننے میں پندرہ بیس دن لگ جاتے ہیں ان حالات میں ویکسین کی افادیت پر سوال اٹھانا لاکھوں کروڑوں افراد کو بدظن کرنے والی بات ہے اور یہ مکمل طور پر معصوم، بزرگ شہریوں اور کرونا کا شکار ہونے والے ہر پاکستانی سے ظلم کے مترادف ہے۔وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ویکسین کی دوسری خوراک لینے کے دو سے تین ہفتے بعد اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد کویتی وزیر خارجہ اور پاکستان کا دورہ کرنے والے کویتی وفد نے بھی قرنطینہ کر لیا ہے۔ دنیا بھر میں ایک مرتبہ پھر کرونا کے پھیلاؤ میں تیزی آئی ہے اور وائرس بے رحمانہ نداز میں لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ کرونا کی نئی لہر کو دیکھتے ہوئے سول ایوی ایشن نے کرونا کی وجہ سے نیا سفری ہدایت نامہ جاری کر دیا ہے۔
جنرل پوسٹ آفس مری میں کرونا کی فری سکریننگ کیلئے کیمپ قائم
کرونا سے بچاؤ کے لیے کیے گئے اقدامات کے مطابق کیٹیگری اے میں آسٹریلیا، چین، جاپان، نیوزی لینڈ اور سعودی عرب سمیت بیس ممالک کو رکھا گیا ہے۔ اس کیٹیگری میں شامل مسافروں کیلئے کرونا ٹیسٹ کروانا لازمی نہیں ہے۔ جنوبی افریقا، پیرو، کینیا، برازیل اور پرتگال سمیت بارہ ایسے ممالک ہیں جہاں سے مسافروں کی آمد اجازت سے مشروط ہے۔کیٹیگری اے اور سی کے علاوہ باقی تمام ممالک کیٹیگری بی میں ہیں جبکہ کیٹیگری بی کے مسافروں کا پی سی آر ٹیسٹ کا دورانیہ 72 گھنٹے قبل کا ہوگا۔
یہ نوٹیفکیشن تیئیس مارچ سے ناف العمل ہو گا۔اس کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ کا دورہ کرنا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر وہاں سے آنے والے والوں کے لیے اجازت کی ضرورت تو یہاں سے جانے والوں کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے؟ کرکٹ بورڈ ہوش کے ناخن لے جیسا بائیو سیکیور ببل پاکستان سپر لیگ کے دوران تھا ویسا ہی عالیشان ببل اس وقت موجود ہو گا اور سب سے بڑھ کر اس ببل کے ساتھ انصاف بھی کر رہے ہوں گے۔ پھر وہاں جا کر بھی ایک بائیو سیکیور ببل کا حصہ بننا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدشہ و خطرہ بہرحال موجود ہے۔ جنوبی افریقہ کے نمایاں کھلاڑی بھی انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے جا چکے ہوں گے ان حالات میں جب پی ایس ایل ملتوی ہو گئی کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کیا ضرورت ہے کہ ہر حال اپنی ٹیم کو جنوبی افریقہ بھجوانا ہی ہے۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلتا کرونا سیاحت ہر بھی حملہ آور ہوا ہے۔ گلگت بلتستان حکومت
اے سی پنڈیگھیب کا دورہ کھوڑ، ذخیرہ اندوزی پر دکانیں سربمہر
سیاحت کے لیے آنے والوں کے لیے کرونا ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا یے کہ حالات کدھر جا رہے ہیں۔ملک میں گذشتہ روز کرونا سے مزید بیالیس افراد ہلاک اور تین ہزار آٹھ سو چھہتر نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں کرونا کے چالیس ہزار نو چھیالیس ٹیسٹ میں سے تین ہزار آٹھ سو چھہتر افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ملک میں مجموعی کیسز 6 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ ہیں جب کہ فعال کیسز کی تعداد 27188 ہے۔ لاہور میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہم ایک اور لاک ڈاؤن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکومت یہاں انتظامی طور پر ایک غلطی کر رہی ہے کہ اس نے معیشت چلانے والے بڑے شعبوں پر تو پابندیاں عائد کر دی ہیں یہ وہ شعبے ہیں جہاں حکومت بہتر اقدامات سے وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکتی ہے۔
کاروباری مراکز، مارکیٹیں، ریسٹورنٹس میں حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد نسبتاً آسان ہے لیکن حکومت نے ان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور شادی کی تقریبات کی اجازت دے رکھی ہے، تھیٹر چل رہے ہیں یہ وہ مقامات ہیں جہاں سینکڑوں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور گھنٹوں ملتے ہیں اس دوران حفاظتی تدابیر کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا ان تقاریب میں امریکہ، انگلینڈ اور دیگر ممالک سے لوگ شریک ہوتے ہیں اور ان تقریبات میں وہ بہت سے لوگوں کو وائرس کا تحفہ دے کر جاتے ہیں۔ ان حالات میں جنہیں بند کرنا چاہیے تھے وہ کھلے ہیں اور جنہیں کام کرنے کی اجازت ملنا چاہیے تھی انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ڈسکہ الیکشنز میں تمام سیاسی جماعتوں نے جلسے اور ریلیاں نکالیں کیا یہ مشق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہیں ہو گی۔ اس سے پہلے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں میں کرونا کو پھیلنے کی دعوت دی گئی۔
پھر جشن بہاراں میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تو یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہوتا رہا کسی نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اب رونا دھونا کس کام کا ہے۔ قوم کے رہنماؤں نے قوم کی تربیت کی نہ ہے ذمہ داری کا احساس کیا اور آج ہم اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ماسک پہننے کو طاقت کے زور پر یقینی نہیں بنایا جا سکتا لیکن ہر شخص اپنی ذمہ داری کا احساس تو کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نہایت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے لوگ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ کرونا جان لیوا مرض ہے۔ بہرحال حکومت کو بہتر حکمت عملی اور آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ موجودہ لہر سے ہونے والے نقصان کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں