فنونِ لطیفہ کا خادم! - عطا ء الحق قاسمی
08 اپریل ، 2021
FacebookTwitterWhatsapp
قیام پاکستان سے قبل ایک معروف شاعر کی ایک نظم اس وقت کے ایک مقبول ادبی پرچے میں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم بہت عرصہ قبل میں نے اپنے کالم میں شائع بھی کی تھی، گزشتہ روز ایک دوست نے پھر اس کی یاد دلائی۔ یہ ’’نظم‘‘ کچھ یوں تھی
چھم چھم چھم
چھم چھم
چھم
چھم.....چھم.....چھم......چھم -
میں نے اپنے دوست سے یہ نظم سنی تو ایک بار پھر پریشان ہوا اور کہا یار یہ کیا یاد دلا رہے ہو، ایک بار پھر اس کا مطلب تو بتائو؟دوست نے بتایا جب یہ نظم متذکرہ پرچے کے ایڈیٹر کو موصول ہوئی تو اس نے بھی یہی سوال کیا تھا جس پر شاعر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا عنوان’’برہن‘‘ ہے اور اب اس حوالے سے نظم پڑھی جائے تو سمجھ میں آ سکتی ہے ۔ایڈیٹر نے پوچھا ’’وہ کیسے ؟‘‘اس پر شاعر نے نظم کی تشریح کرتے ہوئے کہا ، پہلی لائن میں یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ایک جدائی کی ماری ہوئی دوشیزہ اپنے گھر میں بیٹھی ہے اور اس دوران کوئی دروازے کی کنڈی کھڑکھڑاتا ہے چھم چھم چھم۔اس پر وہ چونکتی ہے 'چھم ! کہ شاید اس کا محبوب آ گیا ہے۔ چنانچہ وہ تیزی سے دروازے کی طرف جاتی ہے چھم چھم چھم چھم چھم چھم۔وہ کنڈی کھولتی ہے چھم چھم ! مگر سامنے دودھ والا ہوتا ہے جس پر اس کی ساری خوشیاں خاک میں مل جاتی ہیں ، چھم !اور پھر وہ مایوسی کے عالم میں ہولے ہولے چلتی واپس اپنی جگہ آ جاتی ہے ، چھم.....چھم.....چھم......چھم ...!
سو آج کل بھی میرے کچھ دوست ہیں جو کچھ اسی طرح کی شاعری کر رہے ہیں۔ ان سے اگر ابلاغ کی بات کریں تو وہ منیر نیازی کو ’’کوٹ‘‘ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح کا ابلاغ نہ صید کی سمجھ میں آتا ہے نہ صیاد کی سمجھ میں۔ میں اگر کبھی ان سے گزارش کرتا ہوں کہ کم از کم صید کو اپنے حلقہ معانی میں شامل کرلو، تو وہ تڑپ تڑپ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ہم کوئی سیاست دان نہیں، شاعر ہیں۔ ہمیں تمہارے اس حلقۂ معانی سے کوئی الیکشن نہیں لڑنا‘‘۔
ایک دوست اوربھی ہیں، وہ ’’ماہر فنون لطیفہ‘‘ ہیں۔ ان سے بوقت ملاقات کچھ اس طرح کا مکالمہ ہوتا ہے!
’’سنائو جانِ برادر کیسے حال ہیں؟‘‘
’’بالکل ٹھیک ہوں، یہ جان برادر سے ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک شخص اپنے دوست کے ساتھ ........‘‘
’’لطیفے کوچھوڑو وہ تم نے جس ملازمت کے لئے اپلائی کیا تھا کیا بنا؟‘‘
’’بننا کیا ہے، درخواست بھیج دی ہے، ایک شخص جب ملازمت کیلئے انٹرویو دینے گیا، تو انٹرویو لینے والے نے ......‘‘
’’یہ تم لطیفہ سنانے لگے ہو؟‘‘
’’ہاں ....ذرا زحمت کر کے سن لو، بالکل نیا لطیفہ ہے، تو انٹرویو لینے والے نے....‘‘
’’گزشتہ دنوں ایک جگہ سے تمہیں انٹرویو کے لئے بلایا گیا تھا اس کا کیا بنا؟‘‘
’’یار لعنت بھیجو، تم کیا ایک چیز کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہو....؟‘‘
’’چلو لعنت بھیجتا ہوں، یہ کہو آج کل کیا لکھ پڑھ رہے ہو؟‘‘
’’کل ہی ایک کتاب ختم کی ہے، اس میں ایک لطیفہ تو کمال کا تھا۔ بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا....‘‘
’’تمہارا سب سے چھوٹا بچہ بیمار تھا اس کا کیا حال ہے؟‘‘
’’بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ بازار جائو اور....‘‘
’’بچے کے لئے دوا لے کر آئو؟‘‘
’’ہا ہا ہا .... شکر ہے تم میں بھی مزاح کی حس پیدا ہوئی ہے، مگر پورا لطیفہ تو سن لو ‘‘
’’یار لطیفوں کی جان چھوڑو، یہ بتائو تم آج کل عارضی ملازمت کررہے ہو، اس کے مستقل ہونے کا بھی کوئی امکان ہے؟‘‘
’’اگر خدا کو منظور ہوا۔ تو مستقل بھی ہو جائے گی۔ ویسے وہ اب ٹھیک ہے!‘‘
’’کون ٹھیک ہے؟‘‘
’’یہ تمہارے حافظے کو کیا ہوگیا ۔ تم ابھی بچے کے بارے میں پوچھ رہے تھے نا۔ وہ اب ٹھیک ہے۔ یہ حافظے سے یاد آیا۔ چار بوڑھے ایک جگہ بیٹھے اس پر گرمبل کررہے تھے کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ان میں سے ایک بوڑھا ....‘‘
’’میں نے یہ لطیفہ سنا ہوا ہے!‘‘
’’چلو خدا کا شکر ہے تم نے زندگی میں کوئی لطیفہ تو سنا، اگر تم دن میں ایک دو لطیفے سنو اور سنائو، تو تمہیں کبھی کمر میں ’’چک‘‘ نہ پڑے!‘‘
’’یہ لطیفوں کا ’’چک‘‘ پڑنے سے کیا تعلق ہے؟‘‘
’’ممکن ہے کوئی تعلق نہ ہو، مگر یہ نسخہ آزمانے میں حرج کیا ہے؟‘‘
’’اوہ تمہارا بیڑہ غرق! تم تو لطیفہ سنا گئے ہو!‘‘
’’ہا ہا ہا! آخر ساری زندگی ’’فنون لطیفہ‘‘ کی خدمت میں گزاری ہے۔ یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ کرکٹ میچ کے دورران ایک بائولر نے جو بائیں ہاتھ سے....‘‘
’’پھر لطیفہ؟‘‘
’’ہاں، ذرا سنو تو! بائولر نے بائیں ہاتھ سے جب گیند....‘‘
’’میں مومن ہوں ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ دوسرا لطیفہ میں نہیں سنوں گا۔ خدا حافظ‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں