تہذیبوں کاعروج وزوال - سمیع اللہ ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

تہذیبوں کاعروج وزوال - سمیع اللہ ملک

تہذیبوں کاعروج وزوال -  سمیع اللہ ملک
03:18 pm
 08/04/2021



 
 (گزشتہ سے پیوستہ)
سائنس بابلی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے دورِاول ہی میں شروع ہوگئی تھی یعنی اسلامی سائنس اسلامی تہذیب کے آغازہی میں اپنے عروج پرتھی۔مثال کے طورپر جابربن حیان دوسری صدی ہجری کاآدمی ہے۔آج تک الکیمیاجابرسے آگے نہیں بڑھ سکی۔نویں صدی میں توایک سے بڑھ کرایک عظیم علمائے فلکیات اورریاضی داں کام کررہے تھے۔دسویں صدی میں البیرونی اور ابن سیناجیسے عظیم لوگ برسرعمل تھے۔پھرایک طویل عرصے تک کئی صدیوں تک نشیب وفرازآتے رہے،پھراسلامی تہذیب کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے دھارے نے رفتہ رفتہ اپنارخ بدل لیا۔ 15ویں صدی کے آغازمیں مغرب طاقت پکڑچکا تھا۔ انکشافات اور دریافتوں کادورشروع ہوچکاتھا۔ یورپین نے امریکہ دریافت کرلیاپھروہ افریقہ کے گردچکرکاٹ کربحرِہندکوعبورکرکے ایشیاء کے ساحلوں تک پہنچ گئے لیکن وہ دارالسلام میں داخل نہ ہوسکے۔اس زمانے میں دنیائے اسلام اب تک بہت بڑی طاقت تھی۔اس وقت دنیاکی طاقتورترین سلطنتیں عثمانیوں اورصفویوں کی تھی اورامیرترین ہندوستان کی سلطنتِ مغلیہ تھی۔یہ تینوں مسلم سلطنتیں معاشی، سیاسی اورعسکری لحاظ سے اس وقت بھی بہت مضبوط،مستحکم اور طاقتور تھیں۔ تاریخ انسانیت کے عظیم ترین فن پارے اس دورمیں تخلیق ہوئے۔ آگرہ کاتاج محل،اصفہان کی شاہی مسجد،استنبول کی مسجد سلطان احمد،یہ فن تعمیرکے انمٹ نقوش ہیں۔ پھرخطاطی،ادبیات اوردوسرے فنون کے شاہکارہیں جن کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔

 
تاہم مسلم امہ کاسب سے بڑاخسارہ یہ ہواکہ جس دین کی وجہ سے انہیں غلبہ حاصل ہواتھا،ان کی اپنی لگژری،سستی اورنااہلی کی بنا پریہ اپنی ہی ریاستوں میں ایسے زوال پذیرہوگئے کہ مسلمان مشاہیرجن کی سائنسی اورعلمی شاہکارکانہ صرف برملااعتراف کیاجاتاہے بلکہ موجودہ سائنسی ترقی کی عظیم الشان عمارت کی بنیادیں بھی انہی کی ایجادات کی مرہون منت گنی جاتی ہیں،آج امت مسلمہ مغلوب ہوکررہ گئی ہے۔جب تک مسلمان اسلام کے اصل ماخذومنبع سے اکتساب علم کرتے رہے اورصحیح غوروفکر سے کام لے کراپنے اجتہاد سے علمی وعملی مسائل حل کرتے رہے اس وقت تک اسلام نہ صرف زمانہ کے ساتھ حرکت کرتارہا بلکہ مسلمان بھی عروج  پررہے لیکن اہل اسلام کوآج وہ مقام حاصل نہیں ہے کہ جب وہ دنیا کی قیادت وسیادت کررہے تھے۔
 مغلوب قوم کے بارے میں عصرحاضرکے جیدمفکرسیدمولانا مودودی کایہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ’’تحقیقات دوسرے کرتے ہیں ان کوجمع دوسرے لوگ کرتے ہیں،ان کوترتیب دے کر ایک فلسفہ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں،ایک نظام فکروعمل دوسرے لوگ کرتے ہیں اوریہ مغلوب قوم ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اوران کی ہرچیز کو قبول کرتی چلی جاتی ہے ۔یہ عمل جتناجتنا بڑھتا جائے گا،اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ وہ فنابھی ہوسکتی ہے اورہورہی ہے‘‘۔مولانا مودودی کے نزدیک تحقیقات کرنا،علوم وفنون کوجمع کرنا،معلومات فراہم کرنااوران کومرتب کرکے ایک تہذیب بناناغالب قوم کی پہچان ہوتی ہے۔وہ صرف سیاست یااسلحہ اورفوج کی بدولت کسی قوم پرغالب نہیں آتی بلکہ اپنی پوری تہذیب کومغلوب قوم پر غالب کردیتی ہے۔ 
ذہنی غلبہ واستیلاکی بنادراصل فکری اجتہاد اورعلمی تحقیق پرہوتی ہے،جوقوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیاکے رہنمااورقوموں کی امام بن جاتی ہیں اوراسی کے افکاردنیامیں چھا جاتے ہیں اورجوقوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلد اورمتبع بن کے رہناپڑھتاہے۔ مولانااس فطری قانون کابھی تذکرہ کرتے ہیں جوقوموں کے عروج وزوال میں اہم رول اداکرتاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ’’یہ ایک فطری قانون ہے کہ جوقوم عقل وفکرسے کام لیتی اورتحقیق وتفتیش کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہیں اس کوذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اورجوکوئی قوم تفکروتدبر کے میدان میں مسابقت کرناچھوڑدیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلاہوجاتی ہے۔ (تنقیحات ازسیدمودودی) 
مولانامودودی لکھتے ہیں کہ جب قرآن پرغوروفکرکرناچھوڑدیاگیا،جب احادیث کی تحقیق اورچھان بین بندہوگئی،جب آنکھ بندکر کے پچھلے مفسرین اورمحدثین کی تقلید کی جانے لگی، جب پچھلے فقہااورمتکلمین کے اجتہادات کواٹل اوردائمی قانون بنالیاگیا ،جب کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب علم ترک کر دیا گیا اور جب کتاب و سنت کے اصول کو چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنالئے گئے تواسلام کی ترقی دفعتاًرک گئی۔مسلمانوں نے علم وفن سے متعلق ہر چیزکو چھوڑا اورہراس چیز سے ناطہ توڑاجوان کوعروج  پر لے جاسکتاتھااورعلوم وفنون سے مغرب نے رشتہ جوڑاتو مسلمان خودبخودزوال کاشکارہوگئے ۔  جب جہادواجتہاد کا جھنڈامسلمانوں نے پھینک دیاتو اس کومغربی قوموں نے اٹھا لیا ،مسلمان سوتے رہے اوراہل مغرب اس جھنڈے کو لے کر علم وعمل کے میدان میں آگے بڑھے یہاں تک کہ امامت کا منصب جس سے یہ معزول ہوچکے تھے،ان کومل گیا،ان کے افکار ونظریات،علوم وفنون اوراصول تہذیب وتمدن دنیاپرچھاگئے،ان کی فرمانروائی نے صرف اجسام کاہی نہیں دلوں اوردماغوں کوبھی فتح کرلیا۔آخرصدیوں کی نیندسے جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں توانہوں نے دیکھاکہ میدان ہاتھ سے نکل گیاہے(ملاحظہ تنقیحات،ص:23اور134)
سوکسی تہذیب کوجانچنے کے لئے یہ سوال عائد کرناکہ ’’اس میں سائنس کوزوال کیوں آیا؟‘‘اور پھرسائنس کے زوال کاموازنہ اس تہذیب کے زوال سے کرنابالکل غلط ہے۔اس لیے کسی بھی تہذیب میں معلومہ تہذیبوں میں سے بھی تمام تخلیقی توانائیوں کوبہ تمام وکمال صرف علم الکائنات اورریاضی پرنہیں جھونک دیاجاتا۔ایک وقت ایسابھی آتاہے،جب تہذیب صرف اپنے تصورِکائنات ہی میں مطمئن ہوجاتی ہے اوربعدازاں کسی بھی وقت اس کی تخلیقی فعالت کارخ فلسفے،آرٹ،تصوف،ادب،قانون اوردوسرے میدانوں  کی طرف مڑ جاتا ہے۔میں کہنایہ چاہتاہوں کہ سوال کی نوعیت ہی غلط ہے۔آج جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سائنس کی ترویج واشاعت کے مسئلے کوہمیں اسلامی تہذیب ہی کے دائرے میں رکھ کراسلامی تہذیب کے تناظرمیں دیکھناچاہئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج