خالصتان کیوں نہیں؟ - اکرام سہگل - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

خالصتان کیوں نہیں؟ - اکرام سہگل

خالصتان کیوں نہیں؟ -  اکرام سہگل
03:16 pm
 08/04/2021



 
 (گزشتہ سے پیوستہ)
 اس کے علاوہ پنجاب کے دیگر گردواروں سے بھی سکھ عسکریت پسندوں کو نکالنے کے لیے کارروائی شروع کی گئی۔یکم جون سے شروع ہونے والے آپریشن 10جون  1984ء تک جاری رہا۔ اصل کارروائی تین جون کو شروع ہوئی۔ سکھوں نے بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا اور بھارتی فوج 40گھنٹے کے محاصرے کے بعد گوردوارے کا کنٹرول حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس آپریشن میں 83فوجی مارے گئے اور  249زخمی ہوئے۔ ستمبر  1984ء میں راجیو گاندھی نے انکشاف کیا کہ اس کارروائی میں 700فوجی مارے گئے۔ یہ آج تک معمہ ہے کہ بھارتی حکومت نے ہرمیندر صاحب کے بانی گرو ارجن کی برسی کے دن 3000سکھ زائرین کو گولڈن ٹیمپل میں داخلے کی اجازت کیوں دی اور بعد میں انہیں وہاں محصور کردیا گیا۔ سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں اور سکھ آج تک شبہہ کرتے ہیں کہ ان سکھوں میں بھارتی فوج زیاد سے زیادہ شہریوں کی موت چاہتی تھی تاکہ سکھوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس آپریشن کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ اس کے بعد دہلی میں ہونے والی سکھوں کی قتل  و غارت میں اندازا تین ہزار سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کے علاوہ تین ہزار سکھ فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ درجنوں سکھ افسران نے بھارت کی مسلح افواج سے استعفی دے دیا۔ 

 
بھارتی حکومت نے  1985ء میں سکھوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے راجیو لونگووال ایکارڈ کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں سکھوں کی ایسے مذہبی، علاقائی اور اقتصادی مطالبات کو تسلیم کیا گیا جن پر اندرا گاندھی کے دور میں بات بھی نہیں کی جاتی تھی۔  معاہدے میں چندی گڑھ اور دریا کے تنازعات ختم کرنے کے لیے کمیشن اور ٹرائبونل بنائے گئے جس نے اگلے  انتخابات میں اکالی دل کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ تاہم سبھی سکھوں نے اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ 
بے نظیر دور میں راجیو گاندھی کی پاکستان آمد کے بعد انٹیلی جنس کے حلقوں میں یہ افواہ گرم رہی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ نے خالصتان تحریک کے مسلح سکھ کارکنان کی فہرستیں بھارت کے حوالے کیں۔ اعتزاز احسن کی تردید کے بعد یہ خبر گردش میں رہی۔ 1990ء کی ابتدا میں بھارت نے اس مزاحمت کو کچلنے کے لیے بے رحمانہ کارروائیوں کا آغاز کیا جس میں کئی شہریوں کی جانیں گئیں۔ پنجاب میں ریل گاڑیوں کی پٹڑی سے اترنے اور دہلی اور پنجاب کی مارکیٹوں اور ریستورانوں میں دھماکے کے واقعات بڑھنے لگے۔ مسلح گروہوں نے اپنے مخالف معتدل سکھ رہنماؤں کو قتل کیا اور ان کی باہمی چپقلش میں بھی جانیں گئیں۔  اس کے نتیجے میں ہزاروں ہندوؤں نے پنجاب سے نقل مکانی کی۔ آج تک خالصتان کا مطالبہ زندہ ہے۔  حالیہ دور میں بالخصوص بھارت سے باہر بسنے والے  سکھوں میں خالصتان تحریک کی جانب جھکاؤ بڑھا ہے اور علیحدگی پسندی کا از سر نو احیا ہورہا ہے۔ 2019ء کے ورلڈ کپ میں خالصتان کی حمایت سے متعلق کی گئی جرسیاں تماشائیوں میں دیکھی گئیں تاہم بعدا ازاں ان افراد کو اسٹیڈیم سے نکال دیا گیا۔ 
2019ء کے دسہرے کے موقعے پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ بھارت ہندو ملک ہے۔ اس بیان پر اکال تخت کے جتھے دار گیانی ہرپریت سنگھ اور گوبند سنگھ لونگوال  جیسے سکھ قائدین نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا کہ جب ہم آر ایس ایس کی مخالفت کرتے ہیں تو اسے ہندوئوں کی مخالفت نہ سمجھا جائے ، ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن انہیں سکھ مذہب کو تشریح سے باز رہنا چاہیے۔ سکھ اپنی شناخت کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ کوئی باہر کا آدمی ہمیں ہماری شناخت بتائے ، ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ہم آر ایس ایس کی ہندو قوم میں شامل نہیں۔‘‘ 
پاکستان میں سکھ ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ انہیں مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اس کا تعلق تقسیم پنجاب کی ہولناک یادوں سے بھی ہے،  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سکھوں اور مسلمانوں کے تعلقات میں بہتری آئی۔ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی اور مذہبی خیالات رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید ناصر کو جب چیئرمین متروکہ املاک بنایا گیا تو انہوں پاکستان میں سکھ عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کا اچھا اہتمام کیا۔ بعد کی حکومتوں نے بھی بھارتی سکھوں کو ان کے مختلف تہواروں کے موقعے پر پاکستان میں ان کے مقدس مقامات پر آسان رسائی دی۔ 
کرتار پور راہداری کے آغاز کے بعد پاکستان نے بھارتی سکھوں کے حوالے سے اپنے رویے میں کئی بڑی اور مثبت تبدیلیاں کیں تاہم بھارت کی جانب سے اس کا یکساں جواب نہیں ملا۔ پاکستانی سکھوں کو آج بھی سرحد پار کرکے بھارتی حدود میں ڈیرہ بابا نانک جانے کی اجازت نہیں، اس کے لیے ویزا کی کڑی شرائط رکھی گئی ہیں۔ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیوول اور فتنہ پرور بھارتی اینکر بلوچستان کے حالات کو بہت ہوا دیتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں خالصتان کی تحریک مکمل جواز بھی رکھتی ہے اور بھارت کے اندر اور باہر اس کی قبولیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان کو سکھوں کی اپنا وطن حاصل کرنے کی جدوجہد کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سوال بالکل جائز ہوگا کہ خالصتان کیوں نہیں؟  (فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج