رمضان نزول قرآن جنگ بدر و فتح مکہ - محی الدین بن احمد دین
01:44 pm
15/04/2021
محی الدین بن احمد دین
ماشاء اللہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ خوشی اور باعث مسرت یہ امر ہے کہ اس دفعہ پورے ملک میں ایک ہی دن رمضان کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ، سعودی عرب میں رمضان المبارک کا آغاز بروز ’’منگل‘‘ ہوا اور ہمارے ہاں بروز ’’بدھ‘‘ ہوا ہے۔ یورپی سرزمینوں میں مسلمانوں کی اکثریت نے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ آغاز رمضان مبارک کیا ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ حلقے ایسے ہیں جو روزہ سعودیہ کے ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ خصوصاً ہمارے قبائلی علاقہ جات کے مسلمان، اسی طرح مشرق بعید کے کچھ ممالک میں روزہ اسی دن رکھا جاتا ہے جب سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں روزہ رکھا جاتا ہے مثلاً ملائیشیا و انڈونیشیاء ترکی اور افغانستان میں بھی عموماً آغاز رمضان سعودی عرب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
پنجاب میں کچھ مسلمان انفرادی طور پر سعودی عرب کی ’’رئویت‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے ’’پہلا‘‘ روزہ سعودی مسلمانوں کی طرح رکھتے ہیں اور لیلتہ القدر‘‘ کا اہتمام بھی سعودی عرب کی رئویت کے مطابق آخری عشرہ میں کرتے ہیں۔ یہی صورتحال ’’یوم عرفہ‘‘ کے ساتھ ہے، میں خود ’’یوم عرفہ‘‘ کا اہتمام سعودی عرب کی طرح حجاج کرام کے میدان عرفات میں قیام کے دن کے ساتھ کرتا ہوں جبکہ پاکستانی رئویت کے مطابق لیلۃ القدر اور یوم عرفہ سعودی عرب سے ایک دن بعد تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ علماء کرام کا اصرار ہوتا ہے کہ ہمیں لیلۃ القدر اور یوم عرفہ کو صرف پاکستان میں رئویت کی بنیاد پر قبول کرنا چاہیے مگر معلوم نہیں ایسا کیوں ہے کہ میں اپنے علماء کرام کے موقف سے کبھی متفق نہیں ہو پایا اور خود حرمین شریفین میں قبول کی گئی رئویت کے ساتھ زیادہ آسانی سے اتفاق رائے پاتا ہوں۔ اگرچہ روزہ، عیدین پاکستانی رئویت کے ساتھ اپناتا ہوں۔ مگر دل میں خلش موجود رہتی ہے کہ اگر مسئلہ ’’رئویت‘‘ ہی کا ہے تو پاکستان (کراچی) صرف ڈیڑھ گھنٹہ اور (اسلام آباد) دو گھنٹے کے فضائی فرق کی دوری پر ہے۔ جبکہ مواصلات، خبروں کی موجودہ آسان دنیا میں آسانی سے ہماری رئویت وہی ہوسکتی ہے جسے مشرق وسطیٰ، سعودی عرب میں قبول کیا جاتا ہے اور مشرق بعید، سینٹرل ایشیاء کے مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ایسا ہونے سے مسلمانوں کی وحدت و اجتماعیت کا تصور پیدا ہوتا ہے جیسا حج کے ذریعے وحدت امت مسلمہ دکھائی دیتی ہے۔
روزہ اور رمضان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں پارہ 2سورہ البقرہ کی آیت نمبر183کا مطالعہ کرنا ہے ترجمہ: ’’اے ایمان والو، تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کی امتوں پر روزے فرض کئے گئے تھے، آیت نمبر184’’یہ گنتی کے دن ہیں (29یا 30دن ) البتہ جو مریض ہو یا مسافر ہو، وہ روزہ ترک کر سکتاہے البتہ بعد میں اسے روزہ رکھنا ہوگا اور جو استطاعت رکھتے ہوں مالی طور پر تو وہ روزہ نہ رکھ سکنے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا کر دیں اور جو دوسرے مسلمان کو کھانا پیش کرنے کا عمل کرے گا تو یہ نیکی اس کے لئے باعث خیر ہوگی۔ البتہ اگر تم روزہ خود ہی رکھ سکو تو یہ تمہارے لئے زیادہ باعث خیر ہوگا۔ اگر تم اس روزے کے ساتھ وابستہ خیر و برکت کی حقیقت سے آگاہی پاسکو۔
رمضان اور قرآن کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یہ آیت نمبر185میں یوں ہے ’’رمضان کا مہینہ ہی وہ ہے جس میں لوگوں کو ہدایت فراہم کرنے والا قرآن پاک نازل ہوا تھا (لوح محفوظ سے) اس قرآن میں ہدایت سے وابستہ دلائل ہیں ۔گمراہی اور ہدایت یافتگان کے حوالے سے بنیادی فرق کا اظہار ہے تم میں سے جو بھی رمضان میں زندہ ہونے کے سبب اسے پالے، تو اسے رمضان میں روزے رکھنا ہوں گے۔ البتہ جو مریض ہو، اسے دوسرے دنوں میں روزے رکھنا ہوں گے۔‘‘ آیت نمبر186ترجمہ’’ اور جب میرے بندے آپؐ سے میرے یعنی (اللہ تعالیٰ) کے بارے میں پوچھیں تو انہیں معلوم ہو کہ میں تو تمہارے بہت ہی قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا اور پکار کو اسی وقت قبول کرلیتا ہوں جب وہ مجھے (اللہ تعالیٰ) کو پکارتا ہے اور تاکہ وہ اپنے اللہ کی دعوت کو قبول کریں اور اس اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل بھی لے آئیں تاکہ وہ ہدایت یافتہ میں سے ہو جائیں۔‘‘
رمضان المبارک میں جس طرح قرآن پاک کا نزول ہوا، روزے فرض ہوئے تو رمضان المبارک میں ہی جنگ بدر 18رمضان المبارک کو وقوع پذیر ہوئی جس میں مسلمانوں کو فتح کامل اور قریشی مکی کافر سرداروں کا قتل عام ہوا۔ البتہ احد کی جنگ کی ابتلاء کا تعلق بھی فتح بدر ہی سے وابستہ ہے جبکہ فتح مکہ بھی رمضان المبارک میں ہوئی۔
فتح مکہ کے لئے سفر کا آغاز پہلے عشرہ میں ہوا، جس طرح جنگ بدر کی فتح کے ساتھ جنگ احد کی آزمائش وابستہ ہوئی اس طرح فتح مکہ کے بعد جنگ حنین کے ابتدائی مرحلے میں شکست بھی وابستہ ہوئی۔ احد میں آخری لمحے نصرت الٰہی آئی اسی طرح حنین میں بھی ابتدائی شکست فاش کے بعد ہی نصرت الٰہی کا نزول ہوا اور اگلے مرحلے میں حنین کی فتح ہوئی اور طائف بھی بالآخر فتح ہوا۔
یہ نکتہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے اپنی کتاب سیرۃ المصطفیٰ ؐ میں مفسرین کرام کے حوالے سے جلد دوئم صفحہ 190-191 پر لکھا ہے، جسے میں نے اوپر قارئین کی نذر کیا ہے۔ مولانا ادریس کاندھلوی کی کتاب 2جلدوں میں ہے، وہ دارارلعلوم دیوبند میں شیخ التفسیر تھے اور پھر جامعہ اشرفیہ لاہور میں شیخ الحدیث تھے انہوں نے عباسی عہد کے عربی ادب کی مشہور کتاب مقامات حریری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔
مولانا ادریس کاندھلوی کا انداز فکر اور انداز تحریر مدرسانہ، معلمانہ، دینی مدارس کے مزاج و سوچ کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے سیرۃ المصطفیٰ میں علامہ شبلی نعمانی کے ’’سیرت النبی‘‘ میں پیش کئے گئے اجتہادات پر سخت تنقید کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں