پنجاب پولس،176 اعلیٰ افسر کرپٹ!پولیس کی اپنی رپورٹ - سرفراز سید - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

پنجاب پولس،176 اعلیٰ افسر کرپٹ!پولیس کی اپنی رپورٹ - سرفراز سید

پنجاب پولس،176 اعلیٰ افسر کرپٹ!پولیس کی اپنی رپورٹ - سرفراز سید
01:06 pm
 14/04/2021
 سرفراز سید

 
٭اپوزیشن کے مزید ٹکڑے، پیپلزپارٹی اور اپوزیشن اتحاد کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات ایک دوسرے سے معافی کا مطالبہO آئی جی پولیس پنجاب کی اپنے 176 افسروں کے خلاف فرد جرم! ایک سابق آئی جی، ایک ایس ایس پی، 22 ڈی ایس پی 125 انسپکٹر بدعنوانی، کرپشن کے مجرم قرار!!O دو بڑے صحافی آئی اے رحمان و ضیا شاہد رخصت ہو گئے!! کرونا پنجابی کا ایک اور بڑا شاعر بشیر باوا مزید 58 افراد کرونا کی زد میں ہلاکO مقبوضہ کشمیر، 5 اگست 2019ء کے بعد اب تک 325 کشمیری شہید! ملک میں 22 سال بعد مارچ 2023 تک نئی مردم شماری کا فیصلہO ’’پاکستان نہائت خطرناک ہے‘‘ برطانیہ…’’پاکستان نہائت محفوظ ہے‘‘ جاپان!O بھارت: سپریم کورٹ: قرآن مجید میں 26آیات حذف کرنے کی درخواست والے شخص کو 50 ہزار روپے جرمانہ!!

 
٭ایک ہی دن میں، ایک ہی وقت پر دو بڑے بزرگ صحافی چلے گئے۔ آئی اے رحمان پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر، طویل عرصہ تک ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین رہے۔ عمر90 سال تھی۔ پوری عمر بائیں بازو کے ترقی پسندانہ نظریات کے حامی رہے۔چھوٹے سے مکان میں زندگی گزار دی۔ دامن پرکوئی دھبہ نہ داغ، انسانی حقوق کی پاس داری کے علمبردار، تین اہم کتابیں بھی لکھیں، جیلیں بھی کاٹیں، نہائت نرم گو، دیانت دار، سادہ زندگی، شوگر کا مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ ضیا شاہد میرے کالج فیلو تھے۔ وہ عربی، میں اُردو میں ایم اے کر رہا تھا۔ ہم صحافتی میدان میں بھی ایک عرصہ اکٹھے رہے۔ بہت محنتی انسان تھے۔ صحافت میں نئی جہتیں تلاش کیں۔ جارحانہ صحافت کے باعث بہت سی مشکلات اور تنازعات کا سامنا بھی کیا۔ صفر سے سفر شروع کر کے مختلف اخبارات سے ہوتے ہوئے اپنے اخبارات نکالے۔ آخری عمر میں شوگر کا مرض لاحق ہو گیا۔ گزشتہ روز ہسپتال میں دل کا آپریشن ہوا جو کامیاب نہ ہو سکا! اِنا للہ و انا الیہ راجعون۔
٭اپوزیشن اتحاد کے حصے بخرے ہونے کی داستان خاصی دلچسپ ہے مگر اتنی اہم نہیں! یہ ’عمارت‘ پہلے دن سے ٹیڑھی بنیادوں پرقائم تھی سو بالآخر اپنے ہی زور پر دھڑام سے گر پڑی۔ اس کی دو اہم جماعتوں، پیپلزپارٹی اور اے این پی نے جس طرح اس اتحاد کو دھتکارا ہے اس کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔ ایک سال تک یہ سارے لوگ ایک دوسرے پر واری صدقے ہوتے رہے، مل کر اعلیٰ ضیافتوں میں مرغ پلائو کھاتے رہے۔ پھر بگڑنے پر آئی تو اودبلائوں والی وہی داستان جو پہلے چھاپ چکا ہوں!! اود بلائو (لُدھڑ) دوپہرتک دریا سے اپنی اپنی مچھلیاں کھاتے رہتے ہیں۔ دوپہر کے بعد دریا کے کنارے کسی گڑھے میں مچھلیاں بھی جمع کرتے ہیں۔ شام سے پہلے مچھلیاں تقسیم کرنے کی نوبت آتی ہے تو آپس میں لڑ پڑتے ہیں، مچھلیوں کو دوبارہ گڈ مڈ کر دیتے ہیں، پھر تقسیم، پھر لڑائی! شوروغوغا سن کر کچھ فاصلہ پرکھڑے شکاری آتے ہیں، اُود بلائو بھاگ جاتے ہیں، شکاری مچھلیاں اٹھا کر لے جاتے ہیں!
٭قارئین کرام! اود بلائوں کا یہ حوالہ سامنے رکھیں، آیئے پھر اپوزیشن کے اتحاد کی طرف! مختصر یہ کہ سینٹ کے اپوزیشن لیڈر کے الیکشن پر پہلے معمولی رنجش، پھر تُو تُو مَیں مَیں! ایک دوسرے کے حسب نسب اور ماضی کے حوالے، للکارے، لپاڈگی، بے وفائی، معاہدہ توڑنے کے الزامات اور آخر میں تُو کون، میں کون؟ چل راہ لگ اپنی! تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں!! ان لوگوں کے مکالمات پڑھئے: اتحاد والوں نے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا!!
٭بلاول زرداری: ’’ان لوگوں نے ہمیں اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا، ان کی یہ ہمت، یہ جرأت؟ ہم کوئی ان کی ذیلی پارٹی ہیں؟ ہمیں ڈکٹیشن دینے اور جواب طلبی کی جرأت کیسے ہوئی؟ یہ ہے ان کا اظہار وجوہ کا نوٹس!‘‘ اور بلاول نے شدید غصے میں اظہار وجوہ کا نوٹس پھاڑ کر اتحاد کے رہنمائوں سے مطالبہ کیا کہ اس حرکت پر پیپلزپارٹی سے معافی مانگی جائے اور یہ کہ ہم استعفے نہیں دیں گے!!
٭شاہد خاقان عباسی: ’’اظہار وجوہ کا نوٹس نہیں تھا، پیپلزپارٹی نے عہد شکنی کرتے ہوئے حکومتی امداد کے ساتھ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ن لیگ سے چھین لیا ہے۔ معاہدہ کے مطابق یہ عہدہ ن لیگ کو ملنا تھا، پیپلزپارٹی نے عہد شکنی کی۔ ہم کیوں معافی مانگیں؟ معافی تو پیپلزپارٹی مانگے، اپوزیشن لیڈری چھوڑ دے، اسے پھر گلے لگا لیں گے!‘‘
O ’’مریم نواز پیپلزپارٹی نے وعدہ توڑا ہے۔ اسے اظہار وجوہ کا نوٹس کسی پارٹی (ن لیگ!) نے نہیں، پی ڈی ایم کے سربراہ (فضل الرحمن) نے دیا ہے۔ ٹھیک ہے، پیپلزپارٹی جاتی ہے تو جائے، ہم اکیلے ہی لڑیں گے!!‘‘
Oسو قارئین کرام! عارضی پیار محبت کی داستانیں، مرغ پلائو، سالم دُنبے، کڑائیاں، روسٹ چرغوں اور حلوے کی محفلیں، ایک دوسرے کے ساتھ تنگ جگہوں پر پھنس کر بیٹھنے کی داستانیں ہوا ہوئیں! ہوا کے رُخ بدل گئے۔ ایسے موقع پر حکومت کی بَن آئی ہے۔ خود گروپ در گروپ تقسیم کی لڑکھڑاتی حکومت کو رمضان سے پہلے عید کا چاند نظرآ گیا ہے۔ حکومت کی گم گشتہ سیاسی خانہ بدوش بھگوڑوں کے بھان متی کنبے کو عارضی طور پر سنبھلنے کا موقع مل گیا!ان لوگوں کوذرا سا سانس آیا ہے تو اس کی شوخ کلامی دیکھئے۔ پنجاب کی اطلاعات کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کی توڑ پھوڑ کے بارے میں پنجابی کی ایک لوگ بولی پڑھی ہے کہ ’’لائی (لگائی) بے قدراں نال یاری تے ٹُٹ گئی تَڑَک کر کے!‘‘ آسان بولی ہے، ترجمہ کی ضرورت نہیں! قارئین کی تفریح طبع کے لئے اس بولی کے باقی بول بھی پڑھ لیجئے کہ: ’’نِی! مِلیا یار قَہر وچ بھریا (بھرا ہوا)، تے نَیناں چڑھی خُماری! اوہدے ہتھ وِچ حُسن کٹاری!۔ لائی بے قدراں نال یاری تے!!‘‘
٭فردوس عاشق اعوان کی اس شوخ بولی نے مجھے پنجابی کی ہی ایک اور ایسی ’دردانگیز‘ بولی یاد دلا دی ہے کہ ’’کچّی ٹُٹ گئی جِنہاں دی (جن کی) یاری، اوہ پَتناں تے رون کھڑیاں!…جِنہاں پیار کیتا اک واری، اوہ پَتناں تے…:: کیا خوبصورت دلچسپ بولیاں ہیں۔ ذرا ذہن میں منظر لائیں…کسی دریا کا کنارا، اس پر کھڑے ہو کر یاری ٹوٹنے پر کیا  یاری ٹوٹنے پر رونے کا منظر!! یہ تو ہونا تھا، اسی طرح ہوتاآیا ہے،پہلے سوچنا چاہئے۔ چلئے دوسری باتیں۔ کالم میں اپوزیشن کی گھڑ دوڑ کی باتوں میں حکومت کا بھی ذکر آ گیا! اس پر کیا لکھوں؟ بس حبیب جالب یاد آ گیا ہے۔ دیکھئے، شاعر 30,30 برس پہلے کیا کہہ رہا ہے؟ حبیب جالب:
تُو ’رنگ‘ ہے، غَبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو ’پُھول‘ ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو ’رونقِ حیات‘ ہے تُو حَسنِ کائنات‘!
اُجڑا ہوا دیار ہیں، تیری گلی کے لوگ
روشن تیرے جمال سے ہیں مَہر و ماہ بھی
لیکن نظر پہ بار ہیں، تیری گلی کے لوگ!
٭دُعا کی اپیل: روزنامہ اوصاف لاہور کے جائنٹ ایڈیٹر مبشر الماس کے والدین کرونا کے باعث ہسپتال میں زیر علاج ہیں، قارئین سے دُعائے صحت کی اپیل ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج