اپنے رب کوپہچانئے - سمیع اللہ ملک
01:06 pm
14/04/2021
سمیع اللہ ملک
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(البقرہ: 183)
روزہ دین اسلام کاتیسرااہم رکن ہے۔ عربی زبان میںصوم کہتے ہیں اورصوم کے لغوی معنی روک لینے کے ہیں۔جبکہ شرعی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے بوقت طلوع فجرتا غروب آفتاب اپنے آپ کوکھانے پینے اورنفسانی خواہشات سے بازرکھنے کانام روزہ ہے۔
قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں روزے کی اہمیت اورفرضیت کاحکم ملتاہے۔رمضان المکرم کی آمدپرمسلمانوں کاخوش ہونابرحق ہے،کیونکہ یہ تمام بھلائیوں کولے کرآتاہے۔اس کادن روزہ، اس کی رات قیام اوراس کے شب و روز نیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے ہیں۔ یہ بخشش کاموسم ہے۔اس میں نیکیوں کے اجروثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی نعمتوں، عطیوں اورمہربانیوں سے مسرور ہونا ہرمسلمان کاحق ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: تمہارے زمانے کے ایام میں تمہارے رب کے تمہارے لیے عطیات ہواکرتے ہیں،لہٰذاان عطیات کوحاصل کرنے میں لگے رہو۔
یہ نزولِ قرآن کامہینہ ہے۔اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی رات ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے۔ اس ماہ میں نفل کی ادائیگی فرض کی مانند ہے اوراس میں فرض اداکرناغیررمضان میں 70فرضوں کی ادائیگی کی طرح ہے۔اس ماہ کی ان ہی برکات کی خاطررسول کریم ﷺرجب ہی سے اس کے استقبال کی تیاری شروع فرماتے تھے۔
رمضان نفس وروح کی راحت کامہینہ اوردل کی خوشی کازمانہ ہے۔اس میں ایمان کے مظاہرہر طرف نظرآتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت ہوتی ہے،خودغرضی نہیں بلکہ ایثارہوتا ہے۔اس میں سختی وتشددنہیں بلکہ کرم ومہربانی ہوتی ہے۔اس ماہِ مبارک میں مسلمان کو خواہ کوئی کتناہی برانگیختہ کر دے یااسے کوئی کتنا ہی غصہ دلائے،یااگر خدانخواستہ اسے کوئی گالی بکے یااس پرکوئی الزام تراشے،ان تمام صورتوں میں مسلمان بس یہ کہتاہے کہ:میں روزے سے ہوں۔ ظاہرہے کہ مسلمان اپنے منہ سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکالتا جوبے معنی ہو،جونفس کی گہرائیوں میں ثبت نہ ہو،جواس کے ایمان کی ترجمانی نہ کرتا ہو،جس سے شیاطین جِن وانس پر اسے فتح وکامیابی نہ ملتی ہو۔ مسلمان میں روزے سے ہوںکے الفاظ دہراتا ہے تواس کاظاہر وباطن ہم آہنگ ہوتا ہے۔ وہ ایک اخلاقی اسلامی شخصیت کا مظہر ِکامل بن کر یہ الفاظ اداکرتاہے۔
رسالت مآب ﷺفرماتے ہیں: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے توشیطانوں کو جکڑ دیا جاتاہے،سرکش جنوں کوپابندِسلاسل کردیاجاتا ہے ، دوزخ کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں اور اس کاکوئی دروازہ کھلانہیں رہنے دیا جاتا۔بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کاکوئی دروازہ بندنہیں رہنے دیاجاتا۔حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارکرکہتاہے:اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ! اوراے شرکے طلب گارپیچھے ہٹ!۔اس ندائے ربانی پرلبیک کہنے کے لئے کیامسلمان نیکی کی چاہت میں آگے نہ بڑھے گا؟ ضروربڑھے گا۔
اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ آپ اس ماہِ مبارک میں نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کیجیے اوراس میں خوب تدبر کیجیے۔آپ غورکیجیے توآپ کی سماعت سے مخاطب ہوکر کوئی سورہ انفطارکی آیت نمبر8 میں کہہ رہا ہوگا: اورجس صورت میں چاہا تجھ کوجوڑکرتیارکیا ۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کی نوک پلک سنواری، اسے پیداکیااور اسے راہ نمائی دی۔ دورانِ تلاوت ہی کوئی آپ سے ماورہ انشقاق کی آیت نمبر6میں مخاطب ہوکرآپ کو ایک زندہ جاوید حقیقت سے آگاہ کررہاہوگا:ِ اے انسان ، توکشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلاجارہاہے اوراس سے ملنے والاہے لہذا، توبہ کے لئے جلدی کیجیے،اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے تاکہ آپ تروتازہ چہرے کے ساتھ اس سے ملاقات کرسکیں۔ آپ جلدی قدم بڑھایئے اوراس کے جودوسخا،کرم ولطف اورمغفرت واحسان کے عطیات کوسمیٹ لیجیے۔
آپ اپنے حواس خمسہ پرغورکیجیے،اپنی پیدائش کے بارے میں تدبرکیجیے،اپنی ذات کے بارے میں سوچئے۔غور کریں توآپ کومعلوم ہوگاکہ آپ کے جسم کے ہرجزکوخالقِ ارض وسما نے بہترین ساخت میں پیداکیاہے۔پھراس نے ہرعضوکوجو کام کرناہے اس سے ہم آہنگ کیاہے، آنکھیں، زبان،ہونٹ اورجسم کے مختلف اعضااورنظام اپنے اپنے افعال کے ساتھ کیسی مطابقت رکھتے ہیں۔وہ کون سی ہستی ہے جس نے انہیں اس کام کوکرنے کی ہدایت کی ہے؟کوئی عضوسننے کے لئے ہے،کوئی دیکھنے کے لئے ہے،کوئی چکھنے اورکوئی چھونے کے لئے ہے ،کوئی ہضم کرنے کے لئے ہے۔انسان اگراپنے تمام اعضاکو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق استعمال کرے تووہ جنت کاحق دارٹھہرتاہے۔
اگراس ماہِ مبارک میں اترنے والی کتاب نہ اتری ہوتی تویقیناانسان بھٹکتارہتااوراپنے آپ پرغوروفکرسے محروم رہتا۔انسان کوکون بتاتا کہ وہ اپنی پیدائش میں،اپنے حواس میں اور اپنے جسم کے مختلف نظاموں میں ایک معجزہ ہے،قدرت کاشاہکارہے۔ اس کاجسم اوراس کے تمام اعضااس کائنات کے ساتھ کس قدرہم آہنگ ہیں جس میں وہ رہ رہاہے۔ اگریہ ہم آہنگی سلب کرلی جائے توانسان اورکائنات کے مابین رابطہ واتصال ختم ہو جائے۔ ایسی صورت میں انسان کسی آرزو کو پوراکرنے یاکسی چیزکودیکھنے یاکسی معاملے میں غوروفکر کرنے سے قاصر رہ جائے۔
بلاشبہ اللہ ہی خالق ہے،قادرہے،کائنات کااورانسان کاپیدافرمانے والاہے اوروہ اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کررہاہے: اور خود تمہارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں(الذریت:21)اپنی مزیدنشانیوں سے آگاہ کررہاہے :االلہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قِسم سے بھی انہی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے(یہ بات تمہیں اِس لیے بتائی جارہی ہے)تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے(الطلاق :12)
روزے کی حالت میں ان تمام امور پر غوروفکرسے آپ عبادت کے سا تھ ساتھ ایمان کی لذت سے بھی آشناہوں گے۔آپ کی عبادت محض رسم نہیں رہے گی۔ (جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں