زکوٰۃ قرآن و حدیث کی روشنی میں - نوید مسعود ہاشمی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

زکوٰۃ قرآن و حدیث کی روشنی میں - نوید مسعود ہاشمی

زکوٰۃ قرآن و حدیث کی روشنی میں -  نوید مسعود ہاشمی
01:04 pm 
 14/04/2021
 نوید مسعود ہاشمی

 
(گزشتہ سے پیوستہ)
 اس آیت میں جو قابل غور نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ زکوۃ یا جو مال بھی فی سبیل اﷲ دیا جائے جیسے صدقات نافلہ اورھدیہ وغیرہ اس سے مقصود محض اﷲ کی رضاء ہو، دنیا کا کوئی معاوضہ مطلوب نہ ہو، مثلاً اگر ہدیہ دیا تو اس امید پر نہ دیا جائے کہ وہ بھی بدلے میںہدیہ دے گا یا زکوۃ دی تواس میں یہ نیت نہ ہوکہ اب وہ شخص میرا احسان مند رہے … اگر ایسا ہوا تو یہ بہت خطرناک ہے اس سے عمل کا ثواب ختم ہو جاتا ہے۔

 
احادیث نبویہ۔(۱) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: جب قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی:’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، آپ انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجئے۔‘‘ تو صحابہ کرامؓ پر یہ آیت بہت بھاری گزری۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ مشکل میں حل کروں گا یہ کہہ کر حضرت عمر،ؓ حضورﷺ کی خدمت میں تشریف لے گئے اور عرض کیا،یا رسول اﷲﷺ! یہ آیت لوگوں پر بہت بھاری گزری ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے تو فرض کی ہے تاکہ بقیہ مال کو پاک اور طیب بنادے اور میراث بھی اسی لئے فرض ہوئی تاکہ مال بعد میں باقی رہے… حضرت عمرؓ نے یہ سن کر خوشی سے اﷲ اکبر فرمایا۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: میں تمہیں بتاؤں سب سے بہترین ذخیرہ کیا ہے؟ وہ عورت جو نیک ہو، جب خاوند اس کو دیکھے تو اس کی طبیعت خوش ہو جائے، جب اس کو کوئی حکم کرے تو وہ اطاعت کرے اور جب وہ کہیں چلا جائے تو وہ عورت(خاوند کی متروکہ چیزوں اوراپنی عفت کی) حفاظت کرے۔(ابو داؤد)
اس حدیث سے چند امور واضح ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ سونا،چاندی اور دیگراموال جمع کرناہر حال میں برا نہیں بلکہ یہ اس وقت برا ہے جب اس کی زکوٰۃ نہ دی جائے اور اس میں سے جہاد میں خرچ نہ کیا جائے( فی سبیل اﷲ سے اولاً جہاد مراد ہے) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ ادا کرنا جس طرح بڑے اجر و ثواب کا سبب ہے اسی طرح اس کی برکت سے باقی مال پاک صاف اور طیب بن جاتا ہے تیسرا فائدہ جاننے کے لئے پہلے ایک حدیث پڑھ لیں جو اسی آیت سے تعلق رکھتی ہے۔ مفہوم اس کا یوں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورﷺ نے فرمایا:’’ سونے چاندی کا ناس ہو یہ کیسی بری چیز ہے‘‘۔ تین مرتبہ یہ بات فرمائی اس پر صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ خزانہ کے طور پر جمع کرنے کے لئے کیا چیز بہتر ہے؟حضورﷺنے فرمایا: ذکر کرنے والی زبان،  اﷲ سے ڈرنے والا دل، اور وہ نیک بیوی جو دین کے کاموں میں معاون و مددگار ہو۔(تفسیر کبیر)
اب تیسرا فائدہ یہ معلوم ہو گیا کہ سونا چاندی اور دیگر اموال جمع کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن پسندیدہ اور محبوب نہیں ہے بلکہ جو چیز پسندیدہ اور محبوب ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو تین نعمتیں حاصل ہوجائیں تو یہ سونا چاندی سے بہت بہترہے (۱) ذکر کرنے والی زبان، کیونکہ زبان سے جو ذکر ہو گا وہ باقی رہنے والا اور دائم ہے جبکہ سونا چاندی فناء ہو جانے والی چیزیں ہیں۔(۲) اﷲ سے ڈرنے والا دل، یہ بہت بڑی نعمت ہے اور تقویٰ کی جڑ ہے۔(۳) نیک بیوی جو دین کے کاموں میں معاون و مددگار ہو، اس طرح انسان عمربھر اور مرتے دم تک دین کا کام کر سکتا ہے ورنہ اگر بیوی دین کے کاموںمیں معاون نہ ہو توالٹا شوہر کو بھی دین کے کام سے محروم کر دیتی ہے۔(معاذ اﷲ)
الغرض اصل مقصد تو زکوٰۃ کی فضیلت بتلانا ہے کہ اس کی برکت سے نہ صرف اجر و ثواب ملتا ہے بلکہ انسان کا باقی مال پاک و صاف اور طیب بن جاتا ہے۔ سبحان اﷲ!
(۲) نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’زکوٰۃ، اسلام کا(بہت بڑا اور مضبوط) پل ہے۔‘‘(الطبرانی)
اس حدیث میں زکوٰۃ کو اسلام کا پل قرار دیا گیا ہے حضرات اہلِ علم نے اس کے تین مطلب بیان فرمائے ہیں۔(۱) اسلام کی حقیقت تک آسانی سے پہنچنے کا ذریعہ زکوٰۃ ہے(۲) اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسائی کے لئے زکوٰۃ ایک بہترین ذریعہ اور پل ہے۔(۳) پل صراط سے بآسانی گزرنے میں زکوٰۃ کا بڑا عمل دخل ہے۔
(۳) نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ’’جو شخص مال کی زکوٰۃ ادا کر دے تو اس مال کا  شر(نقصان) ختم ہو جاتا ہے۔‘‘( صحیح ابن خزیمہ) مطلب یہ ہے کہ ایسے مال پر آخرت میں عذاب نہیں ہوگا اور دنیا میں یہ مال لڑائی جھگڑے اور فتنے فساد کا باعث نہ ہوگا۔
(۴) نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ بناؤ اور اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو، اور بلاء اور مصیبت کی موجوں کا دعا اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے استقبال کرو۔‘‘(الترغیب)
ایک مرتبہ حضورﷺ مسجد کعبہ میں حطیم میں تشریف فرما تھے، کسی شخص نے تذکرہ کیا کہ فلاں آدمیوں کا بڑا نقصان ہو گیا، سمندر کی موج نے ان کامال ضائع کر دیا۔ حضورﷺ فرمایا: ’’جنگل ہو یا سمندر کسی جگہ بھی جو مال ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے‘‘۔ اس طرح زکوٰۃ کا ایک فائدہ یہ معلوم ہوا کہ اس کی برکت سے مال ہر قسم کے اندیشے سے محفوظ ہوتا ہے۔ آج مال کی حفاظت کے لئے دیگردسیوں تدابیر بروئے کار لائی جاتی ہیں لیکن زکوٰۃ کی طرف توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اگر کوئی سی بھی تدبیر کر لی جائے تووہ مال محفوظ رہے گاہر شر سے۔ انشاء اﷲ
زکوٰۃ کی اہمیت، رکنیت، فضیلت اور ترغیب کے چند پہلوؤں پر مشتمل یہ چند آیات اور احادیث ان تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہونی چاہئیں جو صاحب نصاب ہیں اور ان پرزکوٰۃفرض ہے کیوںکہ اس کے بغیر اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی، پھر قابل غور بات یہ بھی تو ہے کہ یہ مال اﷲ نے ہی دیا ہے اب اگر اسی کے دیئے ہوئے مال سے تھوڑا سا حصہ اس کے نام پر نکال لیا جائے اوراس کی برکت سے اپنا باقی تمام مال پاک صاف اور محفوظ بنالیا جائے تو یہ کتنی بڑی غنیمت ہے اور اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل اور احسان ہے جس سے اس نے نوازا ہے۔ بس ہم اﷲ کے فرماں بردار بنیں اور ہر قسم کی سرکشی اور نافرمانی سے اس کی پناہ مانگیں کیوںکہ:’’یہ اﷲ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطاء فرماتا ہے‘‘۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج