رمضان المبارک - غلام اللہ کیانی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

رمضان المبارک - غلام اللہ کیانی

رمضان المبارک -  غلام اللہ کیانی
01:03 pm
 14/04/2021
 غلام اللہ کیانی

 
تزکیہ نفس اور تربیت اس ماہ مبارک سے منسوب  ہے۔دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کورونا وبا کے عروج پر آج14اپریل کو رمضان المبارک شروع ہوچکاہے۔کشمیر میں ٹھنڈ اور دنیاکے دیگر خطوں میں گرم سرد موسم کا امتزاج۔  بھوک اور پیاس کااحساس بھی ہونا چاہیئے۔تا کہ بھوکوں ، پیاسوںکی قدردانی ہو۔ یہ تربیتی کورس ہے ۔اللہ پاک جسے توفیق دے، اس سے وہ فیض یاب گا۔  اسے ہی سعادت ملے گی۔ رمضان المبارک اور روزہ کی فضیلت پر دینی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سائنسی نقطئہ نگاہ سے بحث جاری رہتی ہے۔ٹی وی چینلز پر بھی رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کا آغاز ہوتاہے ۔سحری و افطار کے وقت خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔اسلام اجتماع کا درس دیتا ہے۔ آج اس وبا کی شدت کم کرنے اور احتیاطی تدابیرکے لئے اجتماع سے بچنے کی ترغیب مل رہی ہے۔ نماز تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ مساجد میں باجماعت نمازادا ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کی اپنی آراء ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال سے زیادہ خلوص نیت جانتے ہیں۔ہمارے نفس کی تربیت، بھوک و پیاس کا احساس سے نہیں، حواس خمسہ سمیت روح اور جسم کی تربیت سے ہے۔ بچے بھی مشق کرتے ہیں۔ایک دن میں کئی روزے رکھنے کی مشق۔ اس کے بعد عید کی خوشیاں ۔

 
 نیکی کمانے اور مال بنانے والے بھی سامنے آتے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز سمیت بازار میں چیزیں سستی ہونے کے بجائے مہنگی بلکہ نایاب ہو جاتی ہیں۔یوٹیلٹی سٹورز والے رمضان شروع ہونے سے چند دن پہلے قیمتیں 40گنا تک بڑھاکر بعد میں ان میں 20فیصد کمی کرتے ہیں۔ گراں فروش اور ذخیرہ اندوز مصنوعی قلت سے پریشان کرتے ہیں۔ نیکی کے احسن جزاء  اور برائی کی سزا بہرحال سب کو ملے گی۔ کورونا کے باوجود ماہ مقدس کے آتے ہی مسلمانوں میں ایک منفرد جوش و جذبہ بیدار ہوتاہے۔ یہ جذبہ  شعور کو بیدار ہی نہیں پاکیزہ بھی کردیتا ہے۔روزہ صرف بھوک و پیاس کا نام نہیں بلکہ بھوکوں،پیاسوں کی بھوک و پیاس  کا احساس کرنے اور ان سے خیرات و صدقات اور فطرانہ کی صورت میں تعاون کرنے کا نام ہے۔ ان کی عزت نفس بھی قائم رہے۔بھوک اور پیاس کیا ہوتی ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں جو اس سے گزرتے ہیں۔روزہ دار بلا شبہ روزہ سے تزکیہ نفس کا درس حاصل کرتا ہے ۔  نفس کو تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنے کا سبق و مشق۔ روزہ صرف شکم کو تالا لگانے کا نام نہیں بلکہ یہ حواس خمسہ سمیت دل و دماغ ہی نہیں روح کو پاکیزگی عطاکرتا ہے۔ آنکھ برائی کونہ دیکھے، کان سے لوگوں کی غیبت نہ سنی جائے، رزق حرام یعنی جھوٹ، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، بد دیانتی، خیانت سے کمائے ہوئے مال سے افطاری و سحری نہ ہو ، تو اس روزہ کا بہت فائدہ ہے۔ ہم کھیت، کارخانے، دفاترمیںآرام کریں ، کام چوری اور ملازمت کا حق ادا نہ کریں تو روزہ ہمارے کس کام آئے گا۔ایک دفتر میں کوئی لاکھوں روپے تنخواہ لے اور کوئی ہزاروں روپے تو لاکھوں والے کو کام بھی زیادہ کرنا چاہیئے۔ اگر وہ زیادہ کام کرے تو کسی پر احسان مندی نہیں۔ 
 ہمارے نبیﷺ کا فرمان ہے ’’جو شخص روزہ  رکھ کر جھوٹ اور بد عملی سے نہیں رکتا، اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ’’روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے ، روزہ دار کو چاہئے وہ بد زبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالیاں دے تو اسے دو مر تبہ کہے ، میں روزہ دار ہوں۔‘‘روزہ کے باعث چادر تان کر سو جانا بھی روزہ کے فلسفہ کے منافی ہے۔ روزہ دارمعمولات زندگی ترک نہیں کرتا۔ بلکہ ان کو درست کرتاہے۔ رہبانیت اسلام میں جائز نہیں۔ کانٹے دار راستوںپر چلیں توخود کو ایسے سمیٹ کر نکل جائیں کہ کانٹے آپ کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔جو کہ تقویٰ کی مثال ہے۔برائی سے خود کو بچانے کی بہترین مثال ۔ بھوک و پیاس اور موسمی سختی کو نظر انداز کرتے ہوئے چند سو مسلمانوں نے روزے کی حالت میں بد رکے میدان میں حضرت محمد ﷺکی زیر قیادت  ہزاروں کفار کو شکست دی ۔ روزہ نے مسلمانوں کو صبر و استقامت، ایثار و قربانی، اتحاد و یگانگت، باہمی اخوت و محبت ، مساوات، ضرورت مندوں سے حسن سلوک ، انفاق، موثر منصوبہ بندی  کی تربیت دی۔ ایک ماہ میں گیارہ ماہ کی تربیت۔ہم  اپنے دسترخوان پر غرباء اور مساکین اور محتاجوں کو افطاری کرائیں تو اللہ مال میں برکت دے گا۔ مال پاک ہو گا۔ یاد رہے اس سے کالا دھن سفید نہیں ہو سکتا۔غلط طریقوں سے کمایاہوا مال غریبوں پر خرچ کرنے سے پاک نہیں ہوتاہے۔ برکت اور پاکیزگی صرف حلال مال کے لئے ہے۔ 
روزہ صرف شکم کا نہیں بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پائوں ، دل ، دماغ غرض پوری جان وروح کا ہے۔ انسان اپنے اعضاء کی بغاوت اور سرکشی کو کنٹرول کرتا ہے۔ وہ ایک گھر، خاندان،  ادارے یا علاقے کو کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ایسے انسان سے کسی مشن یا فریضہ کی ادائیگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنے کی تاکید ہے۔ یعنی خود احتسابی۔ لا تعداد لوگوں کی زندگی ہی بدل جاتی ہے۔ روزے کی قبولیت کا اندازہ بھی اسی سے ہوتا ہے کہ رمضان  اور اس کے بعد میں ہم میں کیا تبدیلی رونما ہوئی۔اگر مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اگرہم نیکی کرنے لگے ہیں اور برائی ترک کر دی ہے۔یا اگر ہم بھلائی کو بھلائی اور برائی کو برائی قرار دینے کے اہل بن چکے ہیں۔ تو سمجھ لیں کہ ہم رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہو گئے، ہم کامیاب ہوگئے ، ورنہ بھوک و پیاس کے سوا ہمارے ہاتھ کیا آئے گا۔ اللہ ہمارے اس تربیتی پروگرام ، ہماری بھوک، پیاس، افطاری، سحری، تراویح، قیام، اور جملہ عبادات کو قبول فرمائے۔ہمیں عبادات اور معاملات، بالخصوص حقو ق العباد کو درست کرنے کی توفیق دے، زمینی اور آسمانی آفات اور وبائوں سے محفوظ رکھے۔عزیز و اقارب میں ، ہمارے دائیں بائیں محتاج اور ضرورت مند ہوں گے۔ مسافر بھی توجہ چاہتے ہیں۔حسب توفیق و استطاعت ان کی افطاری، سحری، ضروریات کا خیال رکھ کر اللہ پاک کی خوشنودی، نیکیاںکمائی جا سکتی ہیں۔ قارئین کرام کو رمضان بہت مبارک ہو۔ امید ہے ہمارے لئے یہ تربیتی سیشن دنیا و آخرت کے لئے نفع بخش ثابت ہوگا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج