بیک ڈور ڈپلومیسی اور کشمیر - آغامسعود
01:45 pm
15/04/2021
آغامسعود
ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوگئی ہے۔ شنید ہے کہ پس پردہ ڈپلومیسی امریکہ کے ایما پر شروع کی گئی ہے۔ جو فی الوقت پاکستان اوربھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر کشیدگی کی وجہ سے خاصا پریشان ہے۔ افغانستان کے مسئلے نے بھی امریکہ کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں‘کیونکہ ابھی تک افغانستان میں قیام امن کی کوششیں باثمر ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ دوحہ مذاکرات تقریباً رکے ہوئے ہیں‘ جبکہ امریکہ کی فوجوں کوافغانستان سے نکل جانے کی تاریخ قریب سے قریب تر آرہی ہے(یکم مئی 2021) اس پس منظر میں امریکہ نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعہ لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان جنگ بندی کرائی ہے۔
جنگ بندی ایک اچھا قدم ہے‘ لیکن اس کامطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ بھارت آئندہ سیز فائر کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اورمقبوضہ کشمیر میں سیاسی وسماجی حالات بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ دراصل بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان سیز فائر کے ساتھ ساتھ امریکہ سے یہ طے کرانا بھی چاہیے تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کردے گا اور بھارت کی قابض فوجوں کو ہدایت جاری کرے گاکہ وہ نہتے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کو فی الفور بند کردے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے اس وقت بھارت سیزفائر کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کوشہید کررہاہے اور ان پر الزام لگارہا ہے کہ وہ بھارت کی قابض فوجوں پرحملہ کررہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک گری سن ٹائون (garrison town) بن چکاہے۔ جہاں انسانی حقوق کی کھلم کھلا پامالی روز مرہ کامعمول بن چکی ہے۔ پس پردہ ڈپلومیسی میں سیزفائر معاہدے کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہوناچاہیے تھا کہ بھارتی فوجوں کو مقبوضہ کشمیر سے چلے جاناچاہیے اور نہتے کشمیریوں کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے سے باز رہناچاہیے لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہرروز نوجوانوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کیاجارہاہے۔ ابھی حال ہی میں ایک چودہ سالہ نہتے کشمیری بشیر کو بھارت کی سفاک فوج نے جعلی مقابلے میں قتل کردیاجبکہ اس کے والدین سامنے کھڑے اس المناک منظر کودیکھ رہے تھے۔چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کیافائدہ حاصل ہوا ہے؟سیز فائر کی آڑ میں بھارت کی سفاک فوج مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف جو ظلم ڈھارہی ہے‘ اس کا احوال ان ویڈیوز سے دیکھاجاسکتاہے۔ جو یوٹیوب پر وائرل کی جاری ہیں۔ واضح رہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی پہلے بھی ہوچکی ہے لیکن ان پس پردہ بات چیت میں کیا نتائج نکلے تھے اب ایک بارپھر بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوچکی ہے‘ سیزفائر عمل میں آچکاہے۔ لیکن بھارت کی فوج مقبوضہ کشمیر میں ظلم ڈھانے سے باز نہیں آرہی ہے۔ کیا اس صورتحال کے پیش نظر بھارت اورپاکستان کے درمیان واقعی امن کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔؟ میرا خیال ہے کہ بھارت حقیقی معنوں میں پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پرتعلقات استوار نہیں کرناچاہتا ہے۔ وہ موقع کی تلاش میں ہے کہ کب اور کس طرح پاکستان پرجارحیت کاارتکاب کیاجائے اور جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی قائم کی جائے۔
دوسری طرف پاکستان کے کچھ لوگ اس بات پر خوش نظرآرہے ہیں کہ سارک کانفرنس شروع ہونے والی ہے؟ کب ہوگی اور اس کے کیا فوائد حاصل ہوںگے؟ سارک تنظیم کوناکام بنانے میں بھارتی وزیراعظم مودی کا اہم کردار ہے۔ اس نے سارک تنظیم کے کچھ ممالک کو اپنے ساتھ ملاکراسلام آباد میں(2016) ہونے والی سارک کانفرنس کو ملتوی کرائی تھی۔ اب ایک بار پھر اس تنظیم فعال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ جس کے آئین کے مطابق اس تنظیم میں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ تو کیا معاشی گفتگو کرکے سار ک تنظیم کے ذریعہ سارک ممالک میں تجارت وثقافت کو فروغ دیاجاسکتاہے؟ کیا اس تنظیم میں شامل ممالک میں بھیانک غربت اور محرومی کو دور کیاجاسکتاہے؟ جس کا اس تنظیم کے چارٹر میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ‘ بلکہ ایک رپورٹ بھی تیار ہوئی تھی جس میں لکھاگیاہے کہ سارک تنظیم کے ممالک میں غربت کوختم کرنا بہت ضروری ہے تاکہ سماجی وسیاسی امن قائم ہوسکے۔ بھارت امن کے لئے تیار نہیں ہے۔
تاہم میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے خلاف نہیں ہوں‘ بلکہ میں ان تمام کوششوں کی پرزور حمایت کرتاہوں جس کے ذریعہ پاکستان اوربھارت کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ بلکہ سارک تنظیم کے تمام ممالک کے درمیان بھی خوشگوار تعلقات قائم ہوناچاہیے‘ لیکن بھارت کی قیادت کے ذہن میں پاکستان کے لئے کسی قسم کانرم گوشہ نہیں پایاجاتاہے۔ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے سلسلے میں بھی مخلص نہیں ہے ۔ بلکہ اس دیرینہ مسئلہ کو جوں کاتوں رکھناچاہتاہے تاکہ ان کا ناجائز قبضہ جاری رہے۔ وہ امریکہ بہادر کے تعاون سے اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتاہے اور چین کے خلاف ایسی حکمت عملی تشکیل دیناچاہتاہے جس کی مدد سے چین کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی جائے اور کا اس خطے میں معاشی وسیاسی اثرورسوخ کم ہوسکے ۔ بھارت کی اس منفی سوچ کے پس منظر میں بیک ڈور ڈپلومیسی سے اچھے نتائج کی امید نقش برآب ثابت ہوں .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں