مافیاز بنتے کیسے ہیں، بناتا کون ہے؟ - نسیم شاہد
Apr 23, 2021
مافیاز بنتے کیسے ہیں، بناتا کون ہے؟
کپتان نے دو کام بڑے تسلسل سے کئے ہیں تقریریں اور کابینہ کے اجلاس،اس حوالے سے ان کا ریکارڈ شاید ہی کوئی آنے والا وزیراعظم توڑ سکے۔ آج کل تو وہ تقریریں بھی ایسی کرتے ہیں، جن میں حس مزاح عروج پر نظر آتی ہے کئی بار تو گمان گزرتا ہے انہوں نے ازراہ تفنن ایسا کہا ہے، مگر نہیں صاحب وہ بہت سنجیدگی سے مزاح کا تڑکا لگا رہے ہوتے ہیں۔ اب ان کی تازہ ترین پھلجھڑی یہ ہے کہ شوگر ملز مافیا پی ڈی ایم کی طرح اتحاد بنا کر حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک جملے کے ذریعے کتنے شکار کئے ہیں۔ پی ڈی ایم سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے، جس کا مقصد سیاسی جدوجہد کے ذریعے حکمت کو گرانا ہے۔ اس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں کپتان نے بڑی مہارت سے ایک طرف پی ڈی ایم کو بھی مافیا کہہ دیا ہے اور دوسری طرف شوگر مافیا کو سیاسی جماعتوں کے مفاداتی اتحاد کی طرح حکومت پر دباؤ ڈالنے کا الزام دیا ہے۔ اب پی ڈی ایم والے بھلے سیخ پا ہوتے رہیں۔ اعتراض کرتے رہیں، کپتان نے تو جو کہنا تھا کہہ دیا۔ عمران خان غالباًکہنا یہ چاہتے تھے کہ انہوں نے جس طرح پی ڈی ایم کا دباؤ قبول نہیں کیا اُسی طرح شوگر مافیا کا بھی نہیں کریں گے، مگر ان کے اس چناؤ پر، دو مماثلتوں کے انتخاب پر اور مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے پر داد دینے کو جی چاہتا ہے،حالانکہ غور کریں تو ان دونوں میں کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی، ایک سیاسی اتحاد ہے اور دوسرا کاروباری، لیکن کپتان کو کون روک سکتا ہے، انہیں معلوم ہے انہوں نے جو کہہ دیا ہے، اسے درست ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس ترجمانوں کی فوج ظفر موج موجود ہے، وہ کپتان کے جملے کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔
Powered by Streamlyn
اسد عمرکی زیر صدارت این سی او سی کااجلاس آج ہوگا، اہم فیصلے متوقع
مافیاز کا ذکر جتنا اس دورِ حکومت میں ہوا ہے، شاید ہی ماضی کی کسی حکومت کے دور میں ہوا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن سے زیادہ خود وزیراعظم اور وزراء نے مافیا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ عمران خان کی تو شاید ہی کوئی تقریر ایسی ہو،جس میں مافیا کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ اب یہ بڑی عجیب بات ہے کہ حکومت اپنی ہر ناکامی کو مافیاز کے گلے میں ڈال دیتی ہے اور خود شانت ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس بات میں تو کوئی منطق ڈھونڈی جا سکتی ہے کہ اپوزیشن یہ کہے ملک میں مافیا کا راج ہے، کیونکہ حکومت ان کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ایسا اعتراض تو ہر دور میں کیا جاتا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے طعنے دیئے جاتے ہیں، مگر یہاں تو اپوزیشن مافیا کا لفظ شاذ و نادر ہی استعمال کرتی ہے، وزیراعظم عمران خان اس لفظ کی گردان کرتے نہیں تھکتے۔ ان کا تو اب یہ تکیہ کلام بن گیا ہے کہ نوازشریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی مخالفین مافیا ہیں، جو ان پر دباؤ ڈال کر این آر او لینا چاہتے ہیں چلیں جی یہ بات تو سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت مان لیتے ہیں کہ وزیراعظم اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے انہیں مافیا کہتے ہیں سیاسی مخالفت میں تو یہاں بہت کچھ کہا جاتا ہے، خود کپتان کو بھی یہودی ایجنٹ کہا جاتا رہا ہے، چونکہ سیاست میں ثبوت نہیں مانگا جاتا، صرف الزامات لگائے جاتے ہیں اور جوابی الزامات سے ان کا دفاع کیا جاتا ہے، اِس لئے بات سے بات نکلتی رہتی ہے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
کورونا وائرس سے مزید144 ہلاکتیں،پانچ ہزار870نئے کیسز ریکارڈ
معاملہ اُس وقت گھمبیر شکل اختیار کرتا ہے جب ملک میں جنم لینے والے دیگر مافیاز کا ذکر تو کرتے ہیں،اُن سے ملک و قوم کی جان نہیں چھڑاتے۔ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہیں پیدا کون کرتا ہے اور پھر اُن کے سامنے بے بسی کا اظہار کیوں کرنا پڑتا ہے۔ اب کپتان کہتے ہیں کہ شوگر مافیا نے ملک و قوم کو لوٹا ہے، اربوں روپے ناجائز کمائے ہیں،آج سے نہیں برسوں سے کما رہے ہیں،اس پر کبھی کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا، پہلی بار ہے کہ ہم نے اسے قانون کے نیچے لانے کی کوشش کی ہے۔وغیرہ وغیرہ۔ چلیں جی مان لیتے ہیں، شوگر مافیا موجود ہے۔یہ بھی مان لیتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہے۔ کیا اسے عوام نے بنایا ہے، کیا یہ الزام بھی عوام کو دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ووٹ دے کر جیسے برے لوگوں کو منتخب کیا اُسی طرح اس شوگر مافیا کو بھی جنم دیا؟ نہیں بھائی عوام کو موردِ الزام نہ ٹھہراؤ،یہ سب کِیا دھرا تو ماضی کی حکومتوں اور حکومتوں میں چھپے اُن طاقتور ہاتھوں کا ہے،جو اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے حکومت کو مفلوج کر دیتے ہیں۔
کراچی میں جمعہ اور اتوار کو تجارتی مراکز بند رکھے جائیں گے
تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تین سال ہونے کو آئے ہیں اسی دور میں چینی کا اتنا شدید بحران پیدا ہوا ہے۔ کیا اس بحران سے حکومت خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے؟ کیا اس دورِ حکومت میں چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی،کیا شوگر ملز مالکان کو تین ارب روپے کی سبسڈی کسی اور نے دی، اُس وقت حکومت کہاں سوئی ہوئی تھی، جب یہی شوگر مافیا حکومت کے ذمہ داران سے اپنے من پسند فیصلے کرا رہا تھا۔ یہ کمزوری حکومت کی تھی یا اس مافیا کی طاقت کے اسی نے اپنے مفاد میں کپتان کو استعمال کیا،اُن کی اجازت سے چینی برآمد کرنے کا کوٹہ منظور کرایا۔
وزیر خارجہ آج ترکی کے دوروزہ دورے پر روانہ ہونگے
اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ مافیاز کسی صورت نہیں پنپ سکتے، اگر انہیں حکومتی سپورٹ نہ حاصل ہو۔ آپ نچلی سطح پر دیکھیں، کسی تھانے میں دبنگ اور ایماندار ایس ایچ او تعینات ہوتا ہے تو اُس تھانے کی حدود سے منشیات فروش، جوئے باز، بلیک مارکیٹر اور چور، اُچکے بدمعاش کوچ کر جاتے ہیں،کیونکہ اُن کی ساری دکانداری، سارا دھندہ چلتا ہی پولیس کے سر پر ہے۔ یہی حال ملک کا بھی ہے۔ اچھی حکومت آ جائے تو مافیاز خودبخود ختم ہو جائیں،مگر یہاں تو حکومتیں بنتی ہی مافیاز کی سپورٹ سے ہیں وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر حکومت بننے کے بعد منافع کے ساتھ اُسے واپس لیتے ہیں۔ اس حکومت میں تو مافیاز کے کئی روپ سامنے آئے ہیں، آٹا مافیا بھی اربوں روپے کی دیہاڑی لگا چکا ہے، پٹرول مافیا نے جس طرح حکومت کو بے بس کیا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ادویات مافیا کی تو بات ہی الگ ہے، اُس نے پانچ سو گنا قیمتیں بھی بڑھوا لیں اور اُس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا، بس اتنا ہوا کہ عامر کیانی کو مشیر صحت سے ہٹا کر پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔ کپتان کو صرف مافیاز کا ذکر کر کے عوام کو طفل تسلی نہیں دینی چاہئے۔وہ اپوزیشن لیڈر نہیں،ملک کے وزیراعظم ہیں انہیں اپنی بُکّل کے اندر وہ لوگ تلاش کرنے چاہئیں جو مافیاز بناتے اور اُن کی سپورٹ کرتے ہیں۔مافیاز تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں،مگر انہیں حکومتیں اس طرح بے لگام نہیں چھوڑتیں جیسے ہمارے ہاں چھوڑا جاتا ہے۔ حکومت اگر مافیاز کے سامنے بے بس ہو جائے تو اسے حکومت کرنے کا کیا حق رہ جاتا ہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں