ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ - نوید چودھری - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ - نوید چودھری

 ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ - نوید چودھری

Apr 23, 2021

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

   


کالعدم تحریک لبیک کے خلاف اچانک کارروائی کیوں کی گئی۔ یہ سوال بہت سے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر اس تنظیم نے کافی دیر سے احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ ہر بار سادہ کاغذوں پر معاہدہ کر کے نئی تاریخ لے کر واپس آ جاتی تھی۔ اس مرتبہ احتجاج کے لیے 20 اپریل کی تاریخ دی گئی۔ اس سے قبل خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں بڑے اعتماد سے بتایا تھا کہ ٹی ایل پی سے رابطے کرکے تاریخ آگے بڑھا دی گئی ہے۔تحریک لبیک کا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ نہ صرف پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو نکالا جائے بلکہ اسلام آباد بھی اپنا سفیر پیرس نہ بھجوائے۔ حکومت نے ٹی ایل پی سے تحریری معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ اس حوالے سے معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے گی۔ یہ اپنی جگہ ایک عجیب بات تھی کیونکہ سفیر رکھنا یا نکالنا خالصتاً حکومت کا اختیار ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کہ یہ بات تحریک لبیک کی قیادت کو سمجھ کیوں نہیں آئی۔ فرانس تودور کی بات بھوٹان کا سفیر نکالنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جہاں تک فرانس کی بات ہے تو وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہونے سے ساتھ ساتھ ایک بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت بھی ہے۔ بر اعظم افریقہ سے ایشیا تک فرانس کا اثر رسوخ پوری دنیا میں موجود ہے۔ امریکہ کا اتحادی اور یورپی یونین کا اہم ترین رکن ہے۔









Powered by Streamlyn

اسد عمرکی زیر صدارت این سی او سی کااجلاس آج ہوگا، اہم فیصلے متوقع

عرب ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ یہ فرانس ہی تھا جس کی فوج نے اس وقت سعودی سکیورٹی فورسز کی مختصر وقت میں زبردست ٹریننگ کی جب بعض شر پسندوں نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ فرانسیسی فوج کی تربیت اور ایکشن پلان پر عمل کرکے قبضہ چھڑایا گیا تھا۔ اسی لیے پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ فرانس کے سفیر کو نکالا نہیں جا سکتا۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے مفادات کو گہری زک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ یہی تصور کیا جارہا تھا کہ جس طرح پہلے تاریخ پر تاریخ دی جاتی رہی ہے اسی طرح اس بار بھی تحریک لبیک سے وقت لے لیا جائے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ وزیر داخلہ شیخ رشید مسلسل دعوے کر رہے ہیں کہ اگلا الیکشن پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی مل کر لڑیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے متوقع انتخابی اتحاد کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نئی تنظیم کا ملک کے آئندہ سیاسی منظر نامے میں نمایاں مقام پہلے ہی سے طے کر  لیا گیا ہے۔ حیرانی مگر اس وقت ہوئی کہ تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کو اچانک گرفتار کرلیا گیا۔ ردعمل فوری طور پر ظاہر ہوا ملک میں جگہ جگہ دھرنوں سے کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا۔ جھڑپوں اور مارکٹائی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ پھر ایک صبح ملتان روڈ لاہور پر ٹی ایل پی کے مرکزی دفتر کے باہر آپریشن کیا گیا۔ علاقہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس دوران ریاستی طاقت کے استعمال کے خلاف ملک سے شدید عوامی ردّعمل سامنے آیا۔


کورونا وائرس سے مزید144 ہلاکتیں،پانچ ہزار870نئے کیسز ریکارڈ

یہ آپریشن بھی بیج میں رہ گیا۔ حکومت نے اس عرصے کے دوران تنظیم کو ہی کالعدم قرار دے دیا۔وزیر اعظم سے لے کر وزرا تک نے بلند بانگ دعوے کیے۔ پھر جلد ہی یو ٹرن لے کر مذاکرات کی راہ اختیار کرلی گئی۔  کے پی کے سے تنظیم کے ایک رہنما کو اسلام آباد بلوایا گیا۔ پھر وفاقی وزرا شیخ رشید اور نور الحق قادری کے ساتھ لاہور بھیج دیا گیا۔ پھر ایک نیا معاہدہ طے پایا جو درحقیت پرانا ہی ہے۔ اب سب کو انتظار ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا- اس تمام معاملے میں وفاقی حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔اب یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت نے کوئی خاص شرائط تسلیم نہیں کیں - ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت بات ٹل جائے گی۔ حکومت کو یہ بھی اعتماد ہے کہ خصوصاً فرانسیسی سفیر کو نکالنے والی شرط ختم کرانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اس کی مدد کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ معاملہ لٹک جائے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ساری بات ہی گول ہوجائے گی تو یہ اندازہ درست نہیں۔ سڑکوں، چوراہوں پر عوامی احتجاج کا جن جب ایک بار بوتل سے نکل آئے تو آسانی سے واپس نہیں جاتا۔ یہ معاملہ اس حوالے زیادہ پیچیدہ ہے کہ تحریک لبیک کو بنے زیادہ وقت نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا پارٹی سٹرکچر اور ڈسپلن ایسا ہے کہ اپنے کارکنوں کو پوری طرح سے کنٹرول میں رکھ پائے۔ اوپر معاملہ مذہب کا ہو تو جذبات کی شدت بیٹھے بٹھائے بڑھ جاتی ہے۔ اس تنظیم نے راولپنڈی میں شیخ رشید کی لال حویلی کے باہر بڑا اور پرجوش مظاہرہ کرکے وزرا ء کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ یہ تو طے ہوگیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس صورتحال کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔


کراچی میں جمعہ اور اتوار کو تجارتی مراکز بند رکھے جائیں گے 

مگر یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس حوالے سے مزید ضروریات کیا ہیں۔ جہاں تک تحریک لبیک کے خلاف حالیہ کارروائی کا تعلق ہے اس سے پوری دنیا میں دو متضاد پیغامات گئے ہیں۔ ایک تو یہ پاکستان میں حکومت کی رٹ بہت کمزور ہے۔ دوسرے یہ کہ حکومت نے ان حالات میں ایک موثر مذہبی تنظیم کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر کون سا چورن بکتا ہے، بکتا بھی ہے یا نہیں۔ملک کے اندر تو ایسی تنظیموں کی لازماً ضرورت رہے گی۔ سینئر صحافی طلعت حسین نے اس حوالے ایک جرات مندانہ وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ آج سے نو سال پہلے یہ طے کیاگیا تھا کہ مذہب کے نام پر تنظیموں کو کھڑا کر کے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف پوری طاقت سے استعمال کیا جائے۔ غداری، کرپشن، دین دشمنی سمیت ہر طرح کے الزامات لگائے جائیں گے۔ اس 13نکاتی پالیسی کا پیپلز پارٹی کو تو بوجوہ نقصان نہیں ہوا، مگر مسلم لیگ ن شدید رگڑے میں آئی۔ارکان اسمبلی کے گھروں اور دفاتر پر حملے ہوئے۔


وزیر خارجہ آج ترکی کے دوروزہ دورے پر روانہ ہونگے

نواز شریف کو جوتا مارا گیا۔ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے۔خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ جاوید لطیف کو بھی شدید زخمی کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کے سرپرست ان پر تشدد واقعات سے محظوظ ہوتے رہے۔سیاسی جماعتوں کے خلاف تیار کردہ اس پلان پر عمل درآمد آج بھی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی کارروائیوں سے ماحول کو پرامن نہیں رکھا جاسکتا مگر اس کی پروا کس کو ہے؟ معاشرہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہو چکا۔ سچ بولنا اور اختلافی رائے کا اظہار کرنا اپنی جان داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔منگل کو اسلام آباد میں سینئر صحافی اور پیمرا کے سابق چیئر مین ابصار عالم کو گولی مار کر تمام صحافیوں کو وارننگ دی گئی ہے۔ لیکن یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ اس واردات سے جہاں بہت سے لوگ سکتے میں آگئے۔ وہیں عام لوگوں کی بڑی تعداد نے  شدید ردعمل کا بھی اظہار کیا ہے 


افغان طالبان نے امن کانفرنس میں شرکت کے لیے بڑی شرط عائد کردی

عمر بھر تو کوئی بھی جنگ لڑ نہیں سکتا 


تم بھی ٹوٹ جاؤ گے، تجربہ ہمار اہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج