لمحوں کی خطا،صدیوں کی سزا - سمیع اللہ ملک
01:34 pm
06/04/2021
سمیع اللہ ملک
(گزشتہ سے پیوستہ)
فضائی جنگ زمینی حقائق کے لحاظ سے اپنے منفرد اندازمیں لڑی جاتی ہے اورزمین یاسطح پر موجود حالات جنگی فیصلوں اور حکمتِ عملی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔فضائی جنگ میں دشمن کو سمندرکے اوپر للکارنا ہوتوحکمتِ عملی،طیاروں کا انتخاب، اڑنے کی فارمیشن اوردیگرمعاملات صحرا،میدان اورپہاڑی خطے کی جنگی حکمت عملی سے مختلف ہوں گے۔چین پاک اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد بھارت اور مغربی طاقتوں کی جانب سے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے امریکہ اورمغربی طاقتیں بھارت کواستعمال کررہی ہیں۔ لداخ اور اکسائے چین کے متنازع علاقوں میں کشیدگی کو ہوادی جارہی ہے۔کشمیرمیں کیے جانے والے بھارتی اقدامات کے حوالے سے پاکستان کے علاوہ چین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ بھارتی عزائم کوخاک میں ملانے کے لئے پاکستان اورچین نے اپنے پہاڑی علاقوں میں مشترکہ فضائی دفاع کے قیام کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے ہیں۔
18دسمبر کوجب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ شاہین9مشق کامعائنہ کرنے پاک فضائیہ کے ایئربیس کادورہ کررہے تھے توعین اسی وقت پاکستان کے وزیرِخارجہ شاہ محمودقریشی نے ابوظہبی میں پریس کانفرنس میں انکشاف کیاکہ بھارت اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لئے سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کررہاہے۔ اس سے قبل10 دسمبرکوبھی قریشی نے بھارتی فالس فلیگ آپریشن کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔فروری 2019ء میں بھارتی طیارے نے پاکستانی فضائی حدودمیں رات کی تاریکی میں پاکستانی علاقے میں بم گرائے تھے۔بھارت نے دعویٰ کیاتھادراصل اس نے اپنے ہدف کونشانہ بنایا ہے،حالانکہ وہاں چنددرختوں کے علاوہ کسی کوکوئی نقصان نہیں پہنچاتھا۔ لیکن پاک فضائیہ نے اگلے ہی روزسورج کی روشنی میں اعلانیہ ایسا جواب دیاتھا کہ اقوام عالم میں وہ بھارت کی شرمندگی اورتاریخ کاحصہ بن گیاہے۔
دوسری جانب بھارت مسلسل چین کے ساتھ متنازع علاقوں میں چھیڑچھاڑمیں مصروف ہے۔لداخ میں دوبدو لڑائی میں کئی بھارتی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ان دونوں سطح پرمکار ہندو جنگی رسوائی کے بعدعالمی سطح پرمجروح ساکھ کو بحال کرنے کے لئے بھارت ،پاکستان یاچین کے ساتھ کسی ایسے ہدف کونشانہ بناسکتاہے جس میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہوں۔ان حالات میں پاک چین فضائیہ کاشمالی علاقوں میں بلندپہاڑوں میں فضائی مشق دنیاکے لئے پیغام ہے کہ جہاں دنیا کے2 بلند پہاڑ ’’کے ٹواورہمالیہ‘‘ہیں ،ان2ملکوں کی فضائیہ ان پہاڑوں سے بھی بلندحوصلے کے ساتھ جنگ کے لئے تیارہیں بلکہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں دونوں فضائیہ مل کرخوفناک منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں۔
اس وقت خطے کے سیاسی حالات کیا ہیں،اس کااظہارشاہین9کی اختتامی تقریب سے خطاب میں چین کے سفیرنونگ رونگ نے کھل کر کہا کہ ’’موجودہ سیکورٹی حالات میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے باعث بین الاقوامی اور علاقائی حالات میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ خطے میں امن واستحکام کوبرقراررکھنے اورمشترکہ چیلنجز سے نبردآزماہونے کے لئے دونوں ممالک اوران کی مسلح افواج کاباہمی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے،اوراس مشق کے دوران دونوں فضائی افواج نے عسکری میدان میں متعدد کامیابیاں اورمشترکہ مقاصد حاصل کیے ہیں‘‘۔
اگرجنگی طیاروں کی بات کی جائے تو پاک فضائیہ کے پاس ایک سے زائدقسم کے طیارے موجودہیں،جس میں امریکی ساختہ ایف 16، پاک چین ساختہ جے ایف17تھنڈراور میراج طیاروں کے علاوہ دیگرطیارے بھی موجود ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں پریسلرترمیم اوردفاعی پابندیوں کے بعدپاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت میں خودانحصاری پیداکرنے کے لئے اقدامات شروع کیے۔پاک فضائیہ نے مغربی جنگی آلات سے جان چھڑاتے ہوئے چین کے تعاون سے جدیدجنگی سہولتوں سے مزین جے ایف17 طیارہ بناکراپنی فضائیہ میں کامیابی سے شامل کرلیا ہے۔حالیہ جنگی مشق’’شاہین9‘‘میں بھی پاکستانی فضائیہ کی جانب سے چین میں تیارکردہ ملٹری ایوی ایشن آلات کااستعمال کیاگیاہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل مجاہد انور خان نے’’شاہین ‘‘مشق میں شامل چینی لڑاکاطیارے کاکامیاب تجربہ بھی کیا۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ ایئر چیف نے جس چینی طیارے میں پرواز کی اس کی کوئی فوٹیج منظر پر نہیں آئی اور یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں ’’جو جے 10 شاہین9کاحصہ تھے، ان پرچین کاجھنڈانہیں تھا، تو کیا مستقبل میں ایک اورخوفناک سرپرائز دشمن کے لئے تیارکھڑاہے؟‘‘
ایئرچیف مارشل مجاہد انور کاکہنا تھا کہ ’’موجودہ حالات کے تناظرمیں چینی ملٹری ایوی ایشن ٹیکنالوجی دورِجدیدکی عسکری ضروریات کا ایک اہم جزوہے اورعصرِحاضرکے تمام چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ چینی پائلٹس کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرتے ہوئے ایئرچیف نے کہاکہ چینی پائلٹس عسکری ہوابازی کی غیرمعمولی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ پاک فضائیہ کے سربراہ کایہ بیان بہت اہمیت کاحامل ہے اوراس بات کی غمازی کررہاہے کہ پاک فضائیہ نے چین کے تعاون سے فضائی دفاعی شعبے میں مغرب پرانحصارکوکم سے کم کرتے ہوئے جنگی طیاروں کے علاوہ دیگرشعبوں میں بھی چینی ملٹری ایوی ایشن کااستعمال بڑھادیاہے جس میں ریڈار،میزائل،گرانڈکنٹرولز،ایئر ڈیفنس، ارلی وارننگ سسٹم اوردیگرشعبہ جات شامل ہیں۔
پاک فضائیہ کی دفاع اورجنگی آلات میں اسی خودانحصاری کوقائم کرنے کے لئے ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کوایوی ایشن سٹی میں تبدیل کر دیا گیاہے اوراس میں ایوی ایشن صنعت کے حوالے سے نئے نئے ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ایوی ایشن سٹی کے قیام کا مقصدپاکستان کوعسکری اورشہری ہوابازی کے شعبے میں جدیداورمقامی سطح پرتیارکردہ کم قیمت آلات کی فراہمی ہے۔اس ایوی ایشن سٹی میں پہلے ہی58فیصدجے ایف17 تھنڈرکی تیاری کی جارہی ہے۔اس کے علاوہ ایوی ایشن سٹی میں آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں کے لئے پرزہ جات کی تیاری بھی کی جائے گی۔پاک فضائیہ نے اس سے قبل جولائی2017ء میں اس بات کااعلان کیاتھاکہ پروجیکٹ’’عزم‘‘میں ففتھ جنریشن وارفیئرکی تیاری کی جارہی ہے،جس میں بغیرپائلٹ کے ایسے لڑاکا طیارے تیارکیے جائیں گے جوطویل فاصلے تک دشمن کومارنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پاکستان اورچین کے درمیان فضائی جنگی مشقوں کااشتراک ملکی دفاع کومضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع میں خود انحصاری کی جانب بڑھتاہواقدم بھی ہے۔دونوں ملک جوبھی فضائی جنگی آلات تیارکررہے ہیں،شاہین مشقیں ان آلات کی آپریشنل کارکردگی کا جائزہ لینے کااہم موقع بھی فراہم کررہی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں