جھوٹ اور غیبت، تباہی و بربادی - نوید مسعود ہاشمی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

جھوٹ اور غیبت، تباہی و بربادی - نوید مسعود ہاشمی

جھوٹ اور غیبت، تباہی و بربادی -  نوید مسعود ہاشمی
01:35 pm
 06/04/2021
 نوید مسعود ہاشمی

 
 رسول اکرمﷺ نے سچائی‘ کو اختیار کرنے اور جھوٹ سے بچنے کی نہایت تاکید فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ مسعودؓنقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
 ترجمہ ۔ سچ کو اختیار کرو ‘  اس لئے کہ سچ بولنا نیکی کی طرف لے جاتا ہے  اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہا ہے اور سچ کا متلاشی رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا نام صدیقین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے بچتے رہو۔ اس لئے کہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے  اور  فسق و فجور جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔ اور آدمی برابر جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کو تلاش کرتا رہتا ہے تاآنکہ اللہ کے یہاں اس کا نام جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ 

 
 رسول اکرم ﷺ نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے ممانعت فرمائی بلکہ ایسے شخص کے لئے  تین مرتبہ بدعاء فرمائی ہے۔
ترجمہ ۔ جو شخص لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے اس کے لئے بربادی ہو بربادی ہو۔
 (مشکوہ شریف)
 آج کل عام لوگ ہنسانے کیلئے نت نئے چٹکلے تیار کرتے ہیں اور محض اس لئے جھوٹ بولتے ہیں تاکہ لوگ ہنسیں‘ انہیں آنحضرتﷺ کا مذکورہ بالا ارشاد اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور اس برے فعل سے باز آنا چاہیے جھوٹ بولنے کو منافق کی خاص علامتوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
 ترجمہ ۔ منافق کی تین ( خاص) نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کر ے تو اس کے خلاف کرے اور جب اسے امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ( بخاری شریف  )
 آنحضرتﷺ نے سچ بولنے کو ان اعمال میں شمار فرمایا جو محبت خدا و رسول کی نشانی ہیں‘ آپﷺ کا ارشاد  ہے۔
 ترجمہ ۔ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے  رسولؐ سے محبت کرے اور اللہ اور اس کا رسولؐ اس سے محبت کریں تو وہ جب بولے سچ بولے اور جب اسے کوئی امانت سپرد کی جائے تو اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔ (بیہقی فی شعب الایمان  )
 تجارت پیشہ حضرات متوجہ ہوں۔ خرید و فروخت کے معاملہ میں بھی دل کھول کر جھوٹ بولا جاتا ہے اور قطعاً اس کے گناہ ہونے کا احساس نہیں کیا جاتا۔ گاہکوں کو لبھانے کے لئے طرح طرح کے  ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیںاور محض چند روزہ نفع کے لئے آخرت کی محرومی مول لی جاتی ہے ‘ اسی بناء پر رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ 
 ترجمہ ۔اکثر تاجر قیامت کے  دن فاجروں کی صف میں اٹھائے جائیں گے ‘ مگر وہ ( تاجر)  جو اللہ سے ڈرے ‘ نیکی کرے اور سچ بولے ۔( مشکوۃ )
 اس لئے تجارت پیشہ حضرات کو اپنی زبانوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے وہ اگر اللہ پر بھروسہ کر کے  سچائی اور دیانت داری  کے ساتھ کمائی کریں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں  بے حساب برکت  عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی ان کا حشر حضرات انبیاء صدیقین‘ شہداء‘ اور صالحین کے ساتھ ہو گا۔ (ترمذی شریف  )
 تعریف میں احتیاط ۔  پھر چونکہ محض تعریف کرنا بھی اس معنی کرفتنے سے خالی نہیں ہے کہ جس شخص کی تعریف کی جارہی ہے بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی تعریف سن کر عجب اور تکبر میں مبتلا ہو جائے اور اپنے باطنی عیوب  اس سے پوشیدہ ہو جائیں اس  لئے شریعت میں منہ پر تعریف کرنے والوں کی ہمت شکنی کے احکامات دئیے گئے ہیں اور خواہ مخواہ تعریف کرنے میں احتیاط سے کام لینے کی تاکید  کی گئی ہے۔  حضرت ابوبکر  ؓ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتﷺ کے سامنے کسی کی تعریف کی تو آپﷺ نے فرمایا۔
 ترجمہ ۔ تم نے اسے ہلاک کر ڈالا یا فرمایا کہ تم نے اسے کی کمر توڑ دی۔ ( بخاری  شریف  )
 اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے پیشہ ورمدح کرنے والوں کو  اس طرح ہمت شکن جواب دینے کی تلقین فر مائی۔ ترجمہ ۔  جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں مٹی ڈال دو ۔ ( مشکوۃ شریف )
 مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگو ں کو منہ نہ لگائو ‘ اور وہ تم سے جن دنیاوی منافع کی امیدیں باندھے ہوئے ہیں انہیں پورا نہ کرو۔ الغرض حیاء خداوندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کو ہر اس  چیز سے محفوظ رکھیں۔ جس میں جھوٹ اور خلاف واقعہ ہونے کا شائبہ پایا جاتا ہو۔ تجربہ سے بھی یہ بات ثابت  ہے کہ جھوٹے آدمی کا اعتماد لوگوں میں مجروح ہو جاتا ہے اور لوگ اسے اچھی  نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ  فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ  کو جھوٹ سے زیادہ کوئی صفت ناپسند نہ تھی۔
 غیبت۔ زبان کے ذریعے سے جو گناہ سرزدہوتے ہیں اور جن کے ذریعے کھلم کھلا اللہ رب العزت کے ساتھ بے حیائی اور بے شرمی کا ثبوت دیا جاتا ہے ان میں ایک گھنائونا جرم غیبت کا ہے۔ یہ مرض اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس کی برائی اور گناہ ہونے کا احساس تک  دل سے نکلتا  جارہا ہے آج کے دور میں اللہ کی  خاص توفیق کے بغیر اس گناہ  سے بچنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غیبت کی شناخت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے غیبت سے بچنے کا حکم کرتے ہوئے  غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت  کھانے کے مثل قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
 ترجمہ ۔  اور برا نہ کہو پیچھے ایک دوسرے کے ‘ بھلا اچھا لگتا ہے تم میں سے کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے  بھائی کا جو مردہ ہو سوگھن آتی ہے تم کو اس سے ( سورۃ الحجرات آیت 12  )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج