قومی سلامتی کا جائزہ - غلام اللہ کیانی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

قومی سلامتی کا جائزہ - غلام اللہ کیانی

قومی سلامتی کا جائزہ - غلام اللہ کیانی
01:33 pm
 06/04/2021
 غلام اللہ کیانی
 
 (گزشتہ سے پیوستہ)
 وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے 31 مارچ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ہم نے پوری دنیا سے درآمدات کی اجازت دی لیکن باقی دنیا میں بھی چینی کی قیمتیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے درآمدات ممکن نہیں ہے لیکن ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے تو اس لیے ہم نے نجی شعبے کے لیے بھارت سے 5 لاکھ ٹن تک چینی کی تجارت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہاں ہماری سپلائی کی صورتحال بہتر ہو سکے اور جو معمولی کمی ہے وہ پوری ہو جائے۔انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں اس وقت کپاس کی بہت زیادہ مانگ ہے، ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ ہوا اور پچھلے سال کپاس کی فصل اچھی نہیں ہوئی تھی تو ہم نے ساری دنیا سے کپاس کی درآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن بھارت سے اجازت نہیں دی کیونکہ اس کا براہ راست اثر چھوٹی صنعت پر پڑتا ہے کیونکہ بڑی صنعت تو مصر سمیت دیگر ممالک سے بھی منگوا لیتی ہے لیکن چھوٹی صنعتوں کے لیے یہ ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج وزارت کامرس کی تجویز پر ہم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھارت سے کپاس کی درآمدات کی بھی اجازت دیں گے۔تاہم وفاقی کابینہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے تک بھارت سے تجارت سمیت دیگر امور میں تعلقات بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ درست ہے۔ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات واپس لیے جانے تک اس سے تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔کابینہ میں اس حوالے سے ای سی سی کی سمری کو مسترد یا منسوخ کرنے کے بجائے صرف موخر کر دیا گیا ہے۔یہ سب تشویش کن تبدیلیاں ہیں کہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر جانے کا یہ کیا انداز ہے۔جس سے قومی سلامتی ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا خارجہ پالیسی میں حکمت عملی کا کوئی فقدان ہے ۔ 
 
 برطانوی حکومت نے پاکستان، بنگلہ دیش، کینیا اور فلپائن کو ریڈ لسٹ میں شامل کرتے ہوئے ان ممالک سے برطانوی یا آئرش شہریوں کے سوا دیگر مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ سفری پابندی عائد ہونے کی قیاس آرائیاںبہت پہلے سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں جب پنجاب اور اسلام آباد میں کورونا وائرس کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔مگر حکومت کوئی اقدامات نہ کئے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے برطانوی سیکریٹری اسٹیٹ برائے خارجہ، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ افیئرز کو 30 مارچ کو لکھے ایک خط میں کہا کہ پاکستان ریڈ لسٹ میں شامل ہونے والا ہے اور میرے حلقے میں بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی رہتی ہے اس لیے میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس سائنسی ڈیٹا کی بنیاد پر لیا۔مگر یہ فیصلہ کسی سائنسی اعداد و شمار کے بغیر ہی لیا گیا اس لئے کہا گیا کہ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔ناز شاہ نے اس وقت 7 روز کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کئے جن کے مطابق فرانس، جرمنی اور بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں فی لاکھ افراد میں انفیکشن کی تعداد خاصی بلند تھی۔مگر پھر بھی پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا۔ جب کہ پاکستان میں وائرس کی جنوبی افریقی قسم بھی مسئلہ نہیں بنی جیسا کہ فرانس اور دیگر ممالک کے لیے ہے۔تو یہ سوال درست تھا کہ حکومت برطانیہ نے فرانس، جرمنی اور بھارت کو ریڈ لسٹ میں کیوں شامل نہیں کیا۔ یہ واضح ہوا کہ فیصلے سائنسی اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں لیے جارہے۔بلکہ یہ جان بوجھ کر پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے کن بنیادوں پر یہ اعلان کیا کہ برطانوی حکومت نے کووڈ-19 کیسز پر متعلق نظرثانی کے بعد پاکستان کو سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس لئے اب بھی وقت ہے کہ حکومت قومی سلامتی سمیت خارجہ پالیسی پر از سر نو غور کرے اور اس میں حالات سے مطابقت رکھنے والی اصلاحات متعارف کرے۔ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر منتقل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ملکی سلامتی اور مفاد ہی دائو پر لگا دیا جائے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج