تخیل کی پرواز اور ضمیر کی عدالت - مدثر خالد عباسی
01:33 pm
06/04/2021
مدثر خالد عباسی
نجانے کیوں بہت دنوں سے قلم اٹھا کر آپ سے مخاطب ہونے کا سلسلہ تعطل کا شکار تھا … غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ راقم کا سامنا معمولات زندگی میں جب تک کسی غیر معمولی واقعہ سے نہ ہو اس وقت تک قلم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔
گزشتہ روز اپنے چیمبر میں بیٹھا معمول کے مطابق کام میں مصروف تھا کہ قانونی رائے کے سلسلے میں کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ سے کچھ لوگ میرے پاس آئے جن میں ایک پی ایچ ڈی سے ڈاکٹر اور ان کے ساتھ ایک عمر رسیدہ بزرگ زمین دار جو انتہائی صحت مند اور چاک و چوبند نظر آرہے تھے ، اپنے سر پر سفید روایتی پگڑی پہنے، چہرے پر نہایت پروقار اور خوبصورت داڑھی سجائے ہلکی روایتی مونچھوں کے ساتھ میرے سامنے بیٹھے اپنے مقدمے کے متعلق مجھ سے محو گفتگو تھے۔ بات چیت کے ابتدائی حصہ میں مجھے یوں لگا جیسے یہ بزرگ بظاہر تو ایک انتہائی پروقار شخصیت ہیں مگر ایک آدھ موقع پر جب وہ مجھے اپنی بات سمجھاتے ہوئے میرے سوالات کے جواب دینے سے پہلے اپنی بات کرنے پر مُصر ہوئے تو میں روایتی انسانی غلطی کا مرتکب ہوتے ہوئے ، ہمیشہ کی طرح قبل از وقت ان کے بارے میں اپنی رائے بنا بیٹھا کہ یہ کوئی جلد باز شخص ہے … مقدمہ کے متعلق باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک میں نے ایک سوال داغ دیا جو کہ راقم کم و بیش ہر اس شخص سے پوچھتا ہے جو اسے اپنا وکیل مقرر کرنا چاہتا ہے اور جسے آج کل ایک کمزوری بھی سمجھا جانے لگا ہے … سوال یہ تھا کہ کیا معاہدے پر د ستخط آپ کے مخالف نے آپ کے سامنے کئے تھے اور آپ جعل سازی کے مرتکب نہیں ہوئے تو وہ بلاتوقف بولے۔
ہاں زمین بیچنے والے میرے مخالف فریق نے مجھے ہی زمین بیچی تھی اور مجھ سے رقم وصول کرنے کے بعد میرے سامنے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ ساتھ ہی اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتانے لگے کہ نچلی عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے موقف کی تائید میں قرآن پر حلف دے سکتے ہیں تو میں نے صاف انکار کر دیا۔ میںچونک گیا اور اس سے سوال کیا کہ اگر آپ کا موقف درست ہے تو پھر کیوں حلف نہ دیا … دے دیتے اتنی قیمتی اراضی سے محروم ہوگئے … زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ برجستہ جواب دیا ، قرآن دنیاوی تنازعات کے حل کی خاطر حلف اٹھانے کے لئے نازل ہوا تھا اور نہ ہی میں نے ہندوستان میں اپنا گھر اور زمین چھوڑ کر ہجرت کی تھی اور پاکستان بنایا تھا کہ اس میں قرآن کو حلف لینے کے لئے استعمال کیا جائے گا … یہ ملک تو اس لئے بنا تھا کہ قرآن کے احکامات اور اس کی تعلیمات کے مطابق اس ملک کو چلایا جائے گا میں نے تو یہی سمجھ کر پاکستان میں ہجرت کی تھی …
قارئین کرام! یقین جانئے اس کا یہ جواب سن کر میں چونک کر رہ گیا … دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کررہا تھا کہ میں نے اپنے موکل سے یہ کیوں کہا تھا کہ ’’آپ قرآن اٹھالیتے‘‘ …
قارئین کرام! احساس ندامت کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے سامنے بیٹھے اس بظاہر کم تعلیم یافتہ دیہاتی زمین دار کے تخیل کی اس قدر اونچی پرواز پر بھی رشک آنے لگا … مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ نچلی عدالت میں مقدمہ ہار کر بھی ضمیر کی عدالت میں اپنا مقدمہ جیت چکا تھا ۔
قارئین کرام! ذرا غور فرمائے اور مذکورہ بالا واقعہ کو اگر موجودہ صورت حال سے جوڑا جائے او ر پوری ایمان داری سے اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ ہم نے پاکستان بناتے وقت جو نعرہ لگایا تھا اور اللہ سے اجتماعی عہد کرکے جس مقصد کے لئے یہ ملک حاصل کیا تھا کیا ہم اللہ سے بدعہدی کے مرتکب نہیں ہوئے؟ میرا یہ سوال صرف ان قارئین سے ہے جو نظریہ پاکستان اور اس ملک کی نظریاتی اساس سے متفق ہیں … یقینا ان کا جواب ہاں میں ہوگا… تو پھر ہمیں اللہ کی ناراضگی کا سبب تلاش کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آنی چاہیے … قارئین کرام میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ریاست پاکستان کی اجتماعی ذمہ داری کے حوالے سے لکھا تھا کہ ریاست تمام اداروں کے مجموعے کا نام ہے اور اس کا تصور اور مضبوطی اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کا کوئی ایسا سربراہ ہو جو صرف ریاست پاکستان کی نمائندگی کرتا ہو اور اگر کسی شہری کے حقوق کی پامالی کی صورت میں وہ شخص اس کا ذمہ دار ہو، مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں دکھائی دے رہا اور اس حوالے سے ہمارے حکمران بھی بدعہدی کے مرتکب ہوتے دکھائی دیتے ہیں … قارئین کرام جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو ہمارے وزیراعظم ٹی وی پر براہ راست لوگوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے … ایک خاتون نے سوال پوچھا ہے کہ عام آدمی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں، سرکاری ہسپتال بھی اب مریضوں سے فیس لیتے ہیں اور بدنظمی کا شکار ہیں اس کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ ہماری حکومت دو صوبوں میں صحت کارڈ جاری کر رہی ہے کیونکہ خیبرپختوا اور پنجاب میں ہماری حکومت ہے … اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ وفا ق سے نکل گیا ہے … یہ جواب سن کر مجھے بہت کوفت ہوئی کیونکہ جب صوبوں سے یہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے وفاق نے ہمیں معاشی وسائل سے جان بوجھ کر محروم رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم عوام کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں … افسوس صد افسوس اس سوچ پر، اس قابل شرم رویئے پر … نہ جانے کب ہمارے ہاں ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر بری ذمہ ہونے کی مکروہ عادت کو ترک کیا جائے گا … عوام اب یہ جان گئے ہیں لہٰذا بہانے بازی کا یہ ہتھکنڈہ حکمرانوں کے لئے مزید کارآمد ثابت نہیں ہوگا … بہرحال بات کسی اور طرف نکل گئی کیونکہ تذکرہ بدعہدی سے ہوا تھا تو اسی کی ایک جدید شکل کی نشاندہی کرنا بھی راقم کے لئے ناگزیر تھا۔
انفرادی، عوامی اور اجتماعی سطح پر جب تک ہم اس دیہاتی زمین دار کی طرح، جس کا ذکر میں نے ابتداء میں کیا، تخیل کی پرواز اونچی کرکے ، ضمیر کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے اور اپنی خودی کو شام و سحر کی اسیری سے آزاد کرکے گردش دوران کی ظلمت کے شکوے سے باہر نہیں نکلیں گے ، رسوائی ہمارا مقدر رہے گی ۔
اس کی خودی ہے ابھی شام و سحر میں اسیر
گردش دوراں کا ہے جس کی زبا ں پر گل.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں