کورونا ویکسین ، چند معروضات - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کورونا ویکسین ، چند معروضات

ایکسپریس اردو
Toggle navigation
کورونا ویکسین ، چند معروضات
ایڈیٹوریل 38 منٹ پہلے

کورونا کی تیسری لہر شدت اختیار کرگئی ہے، جان لیوا وائرس مزید جانیں لے رہا ہے، جب کہ مثبت کیسز کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر اموات کی شرح بڑھ رہی ہے ، موت کا بھیانک رقص جاری ہے ، صورت حال انتہائی الارمنگ ہے لیکن کورونا ایس اوپیز کی خلاف ورزی زوروں پر ہے ، یہ انتہائی بے رحمانہ طرزعمل ہے ۔ملک میں ویکسی نیشن کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے ،عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کو بلامعاوضہ ویکسین فراہم کی ہے ۔

پہلے مرحلے میں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کا اعلان کیا گیا۔اس پر عمل کیا جارہا ہے اور اب پچاس سال عمر والوں کو ویکسین لگانے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ تاہم مفت میں ملنے والی ویکسین ہمارے طبقہ امرا نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے لگوانی شروع کردی ،  حد تو یہ بھی ہوئی کہ بعض شخصیات نے سرکاری عملے کو اپنے گھروں پر بلا کرویکسین لگوائی ۔یعنی محدود پیمانے پر ملنے والی ویکسین جو  غریب افراد اور ہیلتھ ورکرز کا پہلا حق ہے لیکن طبقہ اشرافیہ اثرورسوخ کے بل بوتے پر مفت ویکسین لگوانے لگا، یعنی یہاں بھی غریب کا استحصال کیا گیا ،حالانکہ حکومت نے پرائیوٹ سیکٹر کو ویکسین منگوانے کی نہ صرف اجازت دی ہے اور نجی طور پر یہ ویکسین لگائی جارہی ہے اور اس کی دوڈوز کی قیمت بارہ سے سولہ ہزار روپے تک ہے۔

سرکاری ویکسین سینٹرز پر بھی امراء کھڑے نظر آتے ہیں حالانکہ اس متمول طبقے کو نجی شعبے سے ویکسین لگوانی چاہیے کیونکہ یہ اس کے اخراجات باآسانی افورڈ کرسکتا ہے ۔ اس طرح سرکاری سینٹرز میں غریب اور متوسط طبقات کے افراد کو زیادہ سے زیادہ ویکسین لگائی جاسکے۔اگر کوئی صاحب ثروت گھرانہ سرکاری سینٹرسے مفت میں ویکسین لگوا تا ہے تو درحقیقت غریب مریضوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔
حکومت کو ایسا میکنزم بنانا چاہیے کہ ایک مخصوص اور محدودماہانہ آمدنی والے افراد کی حد مقرر کرے ، اور صرف وہی افراد سرکاری سینٹرز سے مفت کورونا ویکسین لگوا سکیں جن کی آمدنی کم ہے۔ طبقہ اشرافیہ کوتو اپنے بنگلوں، کوٹھیوں اور فارمز ہاؤس پر کام کرنے والے ملازمین کی ویکسی نیشن اپنی جیب سے کرانے کا پابند کرنا چاہیے ،تاکہ ان ہوم بیسڈ ورکرز کی جانوں کو بچایا جاسکے ۔

ہماراکاروباری طبقہ ہفتے میں دو دن چھٹی اور شام چھ بجے دکان بند کرنے کو تیار نہیں ہے، ان کا موقف ہے کہ ’’ یہی تو وقت خریداری کا ہوتا ہے ہم اس وقت اپنا کاروبار کیسے بند کرسکتے ہیں‘‘جرمانے ہورہے ہیں، دکانیں سیل کی جارہی ہیں لیکن عوام اس صورت حال سے بے نیاز آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔عوام، بازار میں ماسک پہن کر جانے کا تکلف بھی بہت کم کرتے ہیں، اگرچہ دکانداروں نے دکانوں کے باہر یہ لکھ کر لگا رکھا ہے کہ ماسک کے بغیر دکان میں داخلہ منع ہے لیکن ان کی بلا سے، وہ ماسک کے بغیر بے دھڑک دکان میں داخل ہوجاتے ہیں، دکاندار کے نزدیک گاہک تو خدا کی رحمت ہوتا ہے وہ اپنے گھر آئی ہوئی رحمت کو کیسے دُھتکار سکتا ہے۔

چناں چہ وہ ماسک کے بغیر بھی اسے خوش آمدید کہتا ہے، اگراتفاق سے بازار کی چیکنگ کرنے والی سرکاری ٹیم آجاتی ہے اور گاہک کے بجائے دکاندار سے 5 سو روپے جرمانہ وصول کرلیا جاتا ہے۔ البتہ بڑے اسٹورز یا شاپنگ مالز میں داخلہ ماسک کے بغیر ممکن نہیں ہے کیوں کہ انٹرنس پر موجود سیکیورٹی گارڈ ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں جانے دیتا۔ اس کے علاوہ بینکوں اور سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بھی ماسک کے بغیر داخلہ ممکن نہیں ہے، پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ ماسک کے بغیر مسافروں کو نہیں بٹھائیں گی لیکن بہت کم اس پر عمل ہورہا ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے کئی لاکھ اموات ہوچکی ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ افراد وائرس سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ اس مہلک وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی دوری کو ضروری قرار دیا گیاہے، لیکن ہم تو قطعی طور پر سماجی دوری پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ ہر جگہ انسانوں کا جم غفیر ہے نظر آرہا ہے یعنی ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی موت کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو لاک ڈاؤن چین میں شروع ہوا تھا وہ  دنیا بھر میں شروع ہوگیا تھا ۔ معاشی و تجارتی تعلقات اور ہر قسم کے روابط محدود ہوکر رہ گئے ہیں، ڈیجیٹل ذرایع سے کاموں کو ترجیح دی جانے لگی۔

معاشی پہیہ رک جانے کی وجہ سے دنیا کی بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سوائے چند کے ہر کاروبار پر بحران آنے لگا۔ کیا یہ حقائق بھی ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے ناکافی ہیں؟پاکستان میں وائرس کی تیسری لہر کی اہم وجہ شمال مغربی سرحد پر پیدل اور کاروں وغیرہ سے آمدورفت، ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ بتائی جارہی ہے، پاکستان انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے جاری اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں جاری مختلف تقریبات میں ایس او پیز کی خلاف ورزی جاری ہے، لوگ ہاتھ ملانے اور سماجی دوری برقرار نہیں رکھ رہے جس کی وجہ سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

دوسری جانب کورونا کی وباء سے سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا ہے، گزشتہ ایک سال بلکہ سال سے بھی زیادہ عرصہ سے بچے تعلیمی بحران سے گزر رہے ہیں، ان کا تعلیمی تسلسل بالکل ٹوٹ گیا ہے اور ان کے اندر  تعلیم حاصل کرنے کی لگن بُری طرح مجروح ہوئی ہے۔ پچھلے سال تو انھیں امتحان کے بغیر اگلی کلاس میں ترقی دے دی گئی تھی لیکن اس سال کہا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور باقاعدہ امتحانات لیے جائیں گے۔طالب علموں کا موقف ہے کہ ہمیں تو پڑھایا ہی نہیں گیا پھر امتحان کس چیز کا؟ آن لائن کلاسز ضرور ہوئیں لیکن ان سے تعلیم کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، طالب علم جو کلاس روم میں بیٹھ کر سیکھتا ہے وہ آن لائن تدریس سے ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں تعلیمی اداروں کو زیادہ عرصہ معطل نہیں رہنے دیا گیا، وہاں تھوڑے سے وقفے کے بعد یونیورسٹیاں اور کالج و اسکول کھل گئے تھے اور تعلیمی نظام پوری طرح کام کررہا ہے لیکن ہم بدستور کنفیوژن کا شکار ہیں، تعلیم یوں بھی ہمارے ہاں کبھی ترجیح نہیں رہی۔موجودہ حکومت نے بڑے طمطراق سے یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی یہی ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے اور کوئی ڈھنگ کا فیصلہ نہیں کرسکی، تعلیم، تدریس اور ملک کے مستقبل کا وہ معاملہ ہے جو ہم سب کو عزیز ہے۔

تعلیمی لاک ڈان باعث5کروڑطلباکے تعلیمی نقصان کاازالہ ناممکن ہے۔لاکھوں ٹیچرز بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اس وقت سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا طلباء کا مسلسل دوسرا اور تیسرا تعلیمی سال ضایع ہوجائے گا۔اس بات کا جواب حکومت کو تلاش کرنا ہے ۔ ایک جانب ملکی معیشت کورونا وائرس کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے اور شعبہ تعلیم  تباہی کے دہانے پر آن پہنچا ہے ، تو دوسری جانب کورونا کی وبا نے معاشرے میں ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے، بہت سے لوگ زندگی کی جنگ مایوسی اور خوف کی وجہ سے ہار گئے ہیں۔ عوام میں یہ شعور بیدار کیا جانا ضروری ہے کہ صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لیے کونسی راہ اختیار کی جائے ۔

وقت تیزی سے گزررہا ہے، ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر قیامت ڈھا رہی ہے، صورتحال دن بدن انتہائی پریشان کن ہوتی جارہی ہے، ہمیں اس سے نبردآزما ہونے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے ، قیمتی جانوں کا ضیاع روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کورونا ویکسین کی بڑی تعداد میں خریداری کے لیے فنڈز مخصوص کرے ، صرف امداد میں ملنے والی ویکسین پر انحصار کرنے سے تو یہ مرض ملک میں آیندہ دس برس تک بھی ختم نہیں ہوپائے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ کو رونا ویکسین کی درآمد وسیع پیمانے پر کرے،اور ایسا شفاف نظام اور طریقہ اپنائے جس میں کرپشن کی رتی برابر گنجائش نہ ہو ۔ہمیں اپنی نسلوں کی بقا کے لیے بہتر ین اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، امید کرتے ہیں کہ ہماری وفاقی اورصوبائی حکومتیں اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض اور وسائل عوام کی جانیں بچانے پر صرف کریں گی تاکہ کوروناوائرس کا ملک بھر سے مکمل خاتمہ ہوسکے ، عوام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر احتیاطی تدابیر کو لازم کرلیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج