سوسالہ ایمرسن کالج، عثمان بزدار سے فریاد کناں - نسیم شاہد - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

سوسالہ ایمرسن کالج، عثمان بزدار سے فریاد کناں - نسیم شاہد

سوسالہ ایمرسن کالج، عثمان بزدار سے فریاد کناں  - نسیم شاہد
Apr 06, 2021
سوسالہ ایمرسن کالج، عثمان بزدار سے فریاد کناں 
   

کل میرے دل پر اس وقت چھریاں سی چل گئیں جب انتظامیہ نے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کا بورڈ چھٹی والے دن ایسے اتارا جیسے چور اتارتے ہیں۔ عام دنوں میں یہ بورڈ اتارنا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ اس کالج کے طلبہ و اساتذہ گزشتہ 52دنوں سے احتجاج کررہے ہیں اس تاریخی کالج کو جس کی عمر سو سال سے زیادہ ہے، حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایمرسن یونیورسٹی بنا دیا ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ بڑا خوشنما لگتا ہے۔ کالج یونیورسٹی بن گیا ہے، مگر اس کے کس قدر منفی اثرات اس خطے کے طالب علموں پر مرتب ہوں گے، اس بارے میں سوچ کر ہی وحشت سی ہونے لگتی ہے، اسی شہر میں ملتان کے عوام گورنمنٹ کالج برائے خواتین کچہری روڈ کو خواتین یونیورسٹی بننے کا نتیجہ ابھی تک بھگت رہے ہیں کہ گیارہ ہزار طالبات جوا س کالج میں برائے نام فیس پر پڑھتی تھیں، ان کے لئے تعلیم کے دروازے بند ہو گئے، آج اس خواتین یونیورسٹی میں چند سو طالبات زیر تعلیم ہیں، کیونکہ جو فیس دو سو روپے ماہانہ ہوتی تھی وہ اب چار ہزار روپے ماہانہ ہو چکی ہے۔ چلتے ہوئے اداروں پر شب خون مارنے کی یہ روایت کچھ ایسے چل پڑی ہے کہ وہ حکومتیں جو نئے ادارے نہیں کھول سکتیں، وہ سو سال پرانے تعلیمی اداروں کے بورڈ اتروا کر نئے ادارے کا بورڈ لگواتی ہیں اور پھر ڈھنڈورا پیٹتی ہیں کہ دیکھو ہم فروغ تعلیم کے لئے کتنی محنت کررہے ہیں۔

Powered by Streamlyn
دوسرے ون ڈے میچ کے ہیرو فخز زمان نے قوم کے  نام اہم پیغام جاری کردیا
اب گورنمنٹ ایمرسن کالج بوسن روڈ پر یہی شب خون مارا گیا ہے۔ اسے راتوں رات ایک بل کے ذریعے ایمرسن یونیورسٹی بنا کر جھوٹی تالیاں بجائی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اس کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے دور میں اس عظیم ادارے کا خاتمہ ایک بڑا المیہ ہے۔ ملتان کو اگر ایک اور یونیورسٹی دینی ہی تھی تو اس کے لئے شہر کے مضافات میں زمین مختص کی جاتی، وہاں کیمپس بنایا جاتا اور بے شک اس کا نام بزدار یونیورسٹی رکھ دیا جاتا۔ مگر ایک ایسے کالج کو جو 1920ء سے لے کر آج تک لاکھوں طالب علموں کو تقریباً نہ ہونے کے برابر فیس میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کر چکا ہے، بیکِ جنبشِ قلم ختم کرکے اس کا تشخص بدل دینا ایک ایسی زیادتی ہے، جس کا دفاع کرنا مشکل ہے۔ اس کالج میں گیارہ ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، اس میں ایم اے ایم ایس سی، پی ایس اور انٹرمیڈیٹ کی کلاسز ہوتی تھیں۔ یہ وہ طلبہ و طالبات ہیں، جن کا تعلق جنوبی پنجاب کے مختلف پسماندہ علاقوں سے ہے۔

سعودی عرب نے عمرہ کی ادائیگی کیلئے کورونا ویکسین لازمی قرار دے دی
یہ نوجوان بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی اور خواتین یونیورسٹی ملتان کی مہنگی فیسیں برداشت نہیں کر سکتے اور گورنمنٹ ایمرسن کالج انہیں برائے نام فیسوں پر وہی تعلیم فراہم کر رہا تھا، جو یونیورسٹی میں سونے کے بھاؤ فراہم کی جاتی ہے۔ اب ہو گا کیا، یونیورسٹی بن جانے کے بعد نوجوانوں پر سستی تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ گیارہ ہزار طلبہ و طالبات میں سے نجانے کتنے ہوں گے جو بھاری فیسیں برداشت کر سکیں اور باقی تعلیم کو خیربادکہنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دنیا بھر میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ مختلف کیٹگری کے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں، تاکہ معاشرے کے متمول خاندانوں کے ساتھ ساتھ متوسط اور غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے، مگر یہاں سستی تعلیم کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور مہنگی تعلیم غریب عوام کے بچوں پر مسلط کی جا رہی ہے۔

رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں موسم کیسا رہے گا؟ محکمہ موسمیات نے اہم پیشگوئی کردی
میرا اس ایمرسن کالج سے گہرا رومانس ہے۔ میں نے 80کی دہائی میں یہاں سے انٹر اور گریجویشن کا امتحان پاس کیا اور پھر تقریباً بیس سال تک اس کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب 1975ء میں پہلی یونیورسٹی ملتان میں قائم کی تو اس کالج پر شب خون نہیں مارا بلکہ یونیورسٹی کے لئے بوسن روڈ پر وسیع و عریض زمین مختص کی جہاں آج بہاء الدین ذکریا یونیورستی کا میلوں پر پھیلا ہوا کیمپس موجود ہے۔ وہ بھی آج کے حکمرانوں کی طرح سوچتے تو گورنمنٹ ایمرسن کالج کو یونیورسٹی قرار دے دیتے، مگر وہ ایک وسیع النظر انسان تھے، کوتاہ نظر نہیں تھے۔ ایک ادارہ ختم کرو اور اس پر دوسرا ادارہ صرف بورڈ لگا کے کھڑا کر دو، آج کے حکمرانوں کی سوچ ہے۔ آج اگر گورنمنٹ ایمرسن کالج کے اساتذہ و طلبہ یہ بینرز اٹھا کر 52دنوں سے احتجاج کررہے ہیں کہ ”کالج کی قیمت پر یونیورسٹی نامنظور“ تو اس میں ایک وزن ہے۔ جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی درسگاہ کا تشخص اور پسماندہ علاقوں کے طلبہ و طالبات سے سستی تعلیم کا حق چھیننا، ایک ظلم ہے۔ یہ فیصلہ کس قدر ناپسندیدہ قرار پایا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے مقامی ارکان اسمبلی اس کا کریڈٹ لینے کو تیار نہیں، بلکہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین کچہری روڈ کو یونیورسٹی بنانے کا زخم ابھی تک اہلِ ملتان بھولے نہیں اور انہیں اپنی بچیوں کے لئے دور دراز کے کالجوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

سندھ حکومت نے قیدیوں کو خوشخبری سنادی
چند روز پہلے گورنمنٹ ایمرسن کالج کے اساتذہ ایک وفد کی صورت میں تونسہ شریف گئے اور وہاں انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے بھائی سے ملاقات کی، انہیں عرضداشت پیش کی، اساتذہ کے مطابق ان کے بھائی نے اس مطالبے کو جائز قرار دیا کہ کالج کا تشخص برقرار رہنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ایک زمانے میں پورے جنوبی پنجاب سے طلبہ بوسن روڈ ایمرسن کالج پڑھنے جاتے تھے، جس کی مثال خود عثمان بزدار بھی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے عثمان بزدار اس فیصلے کو واپس لیں جو تعلیمی حلقوں کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے اضطراب کا باعث بن گیا ہے۔ ملتان میں ایک یونیورسٹی بنانی ہے تو اس کے لئے بوسن روڈ جیسے گنجان آباد علاقے کی بجائے خانیوال روڈ، پرانا شجاع آباد روڈ یا پھر مظفر گڑھ روڈ پر جگہ مختص کی جائے۔ گورنمنٹ ایمرسن کالج غریب بچوں کی تعلیمی درسگاہ ہے، اسے ختم کرکے وہ ظلم نہ کریں جو آنے والے دنوں بلکہ سالوں میں بدنامی کا طوق بن کر گلے میں لٹک جائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج