کشمیرجہاں پھول بھی ماتم کناں ہیں! - عبدالرفع رسول - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کشمیرجہاں پھول بھی ماتم کناں ہیں! - عبدالرفع رسول

کشمیرجہاں پھول بھی ماتم کناں ہیں! - عبدالرفع رسول
منگل 06 اپریل 2021ء

مودی سرکارنے بھارتی شہریوں سے کہاکہ وہ سری نگرجائیں اوروہاں باغ گل لالہ کی سیرکرکے لطف اندوزہو ں۔ سری نگر میں واقع پہاڑیوں کے دامن میں گل لالہ کے پھولوں کاباغ آج کل کھل چکا ہے ۔600کنال اراضی پر پھیلے ہوئے اس باغ میں 46اقسام کے 1.5ملین پھول کھلے ہوئے ہیں۔ باغ گل لالہ میں سرخ، پیلے ، سنتری، جامنی، سفید، گلابی، ہرے ، پیلے، دو رنگی اور سہ رنگی پھولوں نے پہلے ہی چاروں اطراف دھنک کے رنگوں کے دلکش نظارے بکھیر رکھے ہیں۔ سری نگر میں گل لالہ کے باغ کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ ایشیا کا سب سے بڑا باغ ہے۔گل لالہ کا پھول بہت ہی نازک ہوتاہے اور اس کی زندگی صرف 15سے 17دنوں پر ہی محیط ہوتی ہے۔ درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈسے اوپر چلا گیا تو اس کی زندگی کچھ دن مزید مختصر ہوجاتی ہے۔تاہم اگر موسم سرد رہا تو اس کی زندگی کے کچھ دن بڑھ بھی سکتے ہیں ۔سری نگر کے باغ گل لالہ (Tulip Garden) کی تعمیر 2005ء میں شروع ہوئی اور 29مارچ 2008ء کو یہ باغ مکمل ہوااوراسی دن اسے پہلی بارکھولاگیاتھا۔ سری نگر میں گل لالہ کے پھولوں کایہ باغ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی اپنے رنگ اورخوشبو بکھیرتا ہے۔ دنیا بھر میں پھولوں کے باغات بہت کشش رکھتے ہیں علیٰ ہذاالقیاس سری نگرکا باغ گل لالہ بھی اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتاہے۔ارض کشمیر کو قدرت نے دل کھول کر خوبصورت مناظر سے نوازا ہے ۔بلاشبہ سری نگرکے اس پھولوں کے باغ کا منظراس قدر دلکش اور پرسکون ہوتا ہے کہ کوئی ذی روح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااورموسم بہار میں ہر جانب اس میں کھلے پھول کشمیر کے قدرتی مناظر میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں۔ یہ تو کشمیرکی تصویرکاایک رخ ہے لیکن کشمیرکی تصویر کادوسرارخ یہ ہے کہ یہاں ’’گل سوسن ‘‘(( LILLY بھی کھلتے ہیں مگریہ پھول باغوں کے بجائے شہدائے کشمیر کے قبروں پرکھل ہوتے ہیں ، جو اس بات کا پتادیتے ہیں کہ یہ محض مٹی کے ڈھیرنہیں بلکہ ان کے اندرکسی باپ کااکلوتابیٹا،کسی ماں کا جگر گوشہ اورکسی بہن کابھائی دفن ہے۔گل سوسن برسات کے موسم میں عموما زیادہ کھلتا ہے لیکن جب سخت گرمی کے بعد بارش شروع ہوتی ہے تو گل سوسن پر خزاں سے پہلے پھرسے بہار آجاتی ہے اور اس کے سفید و گلابی و پیلے پھول پھرسے کھل اٹھتے ہیں۔ گل سوسن کے پھول اسکی گٹھیوں (BULBS) جسے کشمیر میں ’’مزارمنجہ‘‘ کہا جاتا سے اگ جاتے ہیں۔کاش مودی سرکار اپنے عوام کویہ بھی بتادیتی کہ جہاں وہ سری نگرکے باغ گل لالہ دیکھنے جائیں وہیں وہ کشمیرکے طول وعرض میں اپنی درندہ صفت فوج کے سیاہ کارنامے بھی دیکھ کرآئیں جن پراگے ہوئے گل سوسن مزارات شہداء اورگمنام قبروں کا پتہ دے رہے ہیں۔ گل سوسن کے پھول روروکر سوئے ہوئے عالمی ضمیرکوجگانے کیلئے مسلسل کہنیاں مارتے ہیں اورعالم اسلام کے مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے اس پرلگاتاردستک دے رہے ہیں ۔ کشمیرمیںگل سوسن کے یہ باغ سری نگرسے سیکڑوں میل دورکشمیرکی جنگ بندی لائن کے قریبی اضلاع بارہمولہ ، کپواڑہ،پونچھ اورراجوری کے کئی علاقوںمیں کچی قبروں کے وسیع سلسلے پرمحیط ہیں۔ ان قبروں کو پختہ کیا گیا نہ ان پرا لواح مزار ہیں۔ ان پراْگے گل سوسن ان کی واحد شناخت ہیں۔ کشمیر میں ہزار وں بے نام اورگمنام قبروں پراگے ہوئے گل سوسن جہاں کشمیرمیں بھارت کی ننگی سفاکیت کو طشت از بام کر تے ہیں اوربھارتی درندہ افواج کی درندگی اور ظلم عظیم کوالم نشرح کر رہے ہیں، وہیں یہ دنیا کے ان ممالک کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جوبھارت کے ساتھ دوستی روا رکھنے پرمرے جا رہے ہیں۔ گزشتہ 30 برسوں سے اسلامیان کشمیر کے گلے یہ وہائیاں دے دیکر اب خشک ہو چکے ہیں اور رو رو کر ان کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں کہ ان کے بچوں کوقابض بھارتی فوج شہیدکرکے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک رہی ہے ، لیکن دنیاکواس کے ساتھ کیا لینا دینا، کیوںکہ یہ مظلومین کی نحیف ونزارآواز ہے اس پر کسی نے کان کیا دھرنا۔ 18اگست ، 2019ء کومعروف آسٹریلین ’’مڈل ایسٹ آئی اور بائی لائنز‘‘کے کالم نویس ’’سی جے ورلیمن ‘‘ نے ’’بھارتی قبضے کے تحت کشمیر میں زندگی ‘‘کے عنوان سے ہوش ربا اعداد و شمار سوشل میڈیا پر شیئر کیے تھے۔ سی جے ورلیمن کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہر 10کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے اور مقبوضہ وادی میں 6 ہزار سے زیادہ نامعلوم قبریں یا اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے غائب کیا تھا۔ آسٹریلین کالم نویس سے قبل سینکڑوں بارقابض بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں گمشدہ کشمیری نوجوانوں کے لواحقین کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیپرز (APDP) نے اقوام متحدہ سمیت دنیاکے ہرفورم کے نام خطوط لکھ کرانہیں بھارتی فوج کی سفاکیت پرتوجہ دلانے کی مسلسل کوشش کی ،لیکن اس کے علیٰ الرغم دنیا گونگی بہری بنی ہوئی ہے۔ اے پی ڈی پی ہر ماہ سری نگر میں دھرنا دے کر اپنے عزیزوں کاسراغ بتانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ جموںو کشمیر میںسفاک بھارتی فوج اور سیاہ کرتوت کی تاریخ رکھنے والی بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوںنے1990 سے آج تک جموںو کشمیر میں انسانی حقوق کونہایت ہی بے دریغ انسانی حقوق کو پامال کیاہے اور ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو دبوچ کراپنے ساتھ لیاوہ دن اورآج کادن ان نوجوانوں کاکوئی ا تا پتہ نہ چل سکالیکن جب سے کشمیر کے طول وعرض میںبے نام اور اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تواس دریافت کی نے ان کشمیری مائوں جنکے جگرگوشے اورجن بوڑھے والدین کے سہارے بھارتی فوج چھین چکی ہے، کے اضطراب میں طوفان برپاکردیا۔ اے پی ڈی پی اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت پر زور دیتی چلی آرہی ہیں کہ ان بے نام اوراجتماعی قبروں کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور بین الاقوامی معیار کے مطابق تحقیقات ہوتاکہ پتہ چلایا جاسکے کہ ان بے نام اوراجتماعی قبروں میں کون لوگ دفن ہیں لیکن بے حس بھارت بے نام قبروں کی تحقیقات کو مسترد کرتا چلا آرہاہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج