شہید ختم نبوت - ڈاکٹر جاوید ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

شہید ختم نبوت - ڈاکٹر جاوید ملک

شہید ختم نبوت - ڈاکٹر جاوید ملک
Apr 06, 2021
شہید ختم نبوت
   

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 13جون  1974ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”مَیں مسلمان ہوں، مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے، کلمہ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور کلمہ کے ساتھ مروں گا۔ختم نبوت پر میرا ایمان کامل ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو مَیں نے ملک کو جو دستور دیا ہے، اس میں ختم نبوت کی اتنی ٹھوس ضمانت نہ دی گئی ہوتی۔ 1956ء  اور 1962ء کے آئین میں ایسی کوئی ضمانت کیوں نہیں دی گئی، حالانکہ یہ مسئلہ 90 سال پرانا ہے، یہ شرف مجھ گناہ گار کو حاصل ہوا ہے کہ ہم نے اپنے دستور میں صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان کے لئے ختم نبوت پر کامل ایمان کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ہم نے یہ ضمانت اس لئے دی ہے کہ ہمارے ایمان کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے ملک کو عوامی دستور دیا اور ان شاء اللہ عوام کے تعاون سے قادیانیوں کا مسئلہ مستقل طور پر حل کر دوں گا، یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہو گا اور یوم حساب، اللہ کے سامنے اس کام کے باعث سرخرو ہوں گا“۔

Powered by Streamlyn
دوسرے ون ڈے میچ کے ہیرو فخز زمان نے قوم کے  نام اہم پیغام جاری کردیا
انہی دنوں مجاہد ختم نبوت جناب آغا شورش کاشمیری نے ذوالفقار علی بھٹو سے طویل ملاقات کی جس میں انہوں نے اثرانگیز انداز میں ختم نبوت کی وکالت کی، دوران گفتگو یکایک شورش نے بڑے جذباتی انداز میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاؤں پکڑ لئے، ذوالفقار علی بھٹو نے جناب شورش کو ان کی عظمت کا احساس دلاتے اٹھا کر گلے لگا لیا، مگر شورش ہاتھ ملا کر پیچھے ہٹ گئے اور کہا: ”بھٹوصاحب! ہمارے پاس کون سی عظمت ہے؟ ہم ایک سو سال سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و عظمت بحال نہیں کرسکے،ہم اس وقت تک عزت و عظمت کا تاج سر پر نہیں رکھ سکتے  جب تک آقائے کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی نہ کر لیں“۔ پھر شورش کاشمیری نے ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے روتے ہوئے جھولی پھیلا کر کہا: ”بھٹو صاحب!  مَیں آپ سے اپنے اور آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم المرسلینی کے تحفظ کی بھیک مانگتا ہوں۔آپ میری زندگی کی تمام خدمات اور نیکیاں لے لیں، مَیں اللہ کے حضور خالی ہاتھ چلا جاؤں گا، مگر خدا کے لئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی حفاظت کر دیجئے، یہ میری جھولی نہیں، فاطمہ (رضی اللہ عنہا)بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھولی ہے جس کی ناموس پر قادیانی حملہ آور ہیں“۔

سعودی عرب نے عمرہ کی ادائیگی کیلئے کورونا ویکسین لازمی قرار دے دی
”شورش کاشمیری کے یہ الفاظ سننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو میں مزید کچھ سننے کی تاب نہ رہی، جسم میں جھرجھری سی آ گئی۔ انہوں نے کہا: ”میں بھی آخر مسلمان تھا اور اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتا تھا۔ مَیں مسلمان کی حیثیت کے سوا اپنی ہر حیثیت بھول گیا تھا۔مَیں  نے شورش سے وعدہ کر لیا کہ مَیں قادیانی مسئلہ ضرور حل کردوں گا، چنانچہ 7  ستمبر 1974ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بنا پر 13 دن کی طویل جرح کے بعد آئین کی دفعہ 106 کی شق (2) اور 260 کی شق (3)کے تحت غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔جنت کی کنجی، جنت کی ضمانت، جنت کے سیدھے راستے کے مسافر ختم نبوت کے سپاہی ذوالفقار علی بھٹو کے کہے گئے یہ سنہری الفاظ لکھنے کے قابل ہیں …… ”میں اپنے موت کے پروانے پر دستخط کررہا ہوں“۔

رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں موسم کیسا رہے گا؟ محکمہ موسمیات نے اہم پیشگوئی کردی
 جناب ذوالفقار علی بھٹو اس بات کا اظہار کئی مواقع پر کر چکے۔ ایک بار انہوں نے شورش کاشمیری کو بتایا کہ جب ختم نبوت کی تحریک زوروں پر تھی تو سری لنکن لیڈر مسز بندرانائیکے پاکستان آئیں اور جمی کارٹر کا پیغام دیا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو یا پاکستان نے قادیانیوں کو چھیڑا تو امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ سب کچھ کر دے گا جو نہیں ہونا چاہئے۔ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی طاقتوں کے اس پیغام ”آپ پاکستان میں احمدیوں کا خاص خیال رکھیں“کے باوجود ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں دیر نہ کی، وہ یہ بھی جانتے تھے اور جس کا برملا اظہار انہوں نے اپنی پھانسی سے پہلے لکھی جانے والی آخری کتاب ”اگر مجھے پھانسی دی گئی“ میں کیا کہ مسٹر زیڈ اے فاروقی کے بیانات وائٹ پیپر میں جگہ جگہ شامل ہیں۔اتفاق یہ ہے مسٹر زیڈ اے فاروقی، مسٹر این اے فاروقی کے بھتیجے بھی ہیں، جن کی بیوی میرے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی بیوی کی بہن ہے اور مسٹر این اے فاروقی قادیانی ہیں اور انہوں نے مجھ سے اس بات کا بدلہ لیا ہے کہ مَیں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار کیوں دیا تھا۔

سندھ حکومت نے قیدیوں کو خوشخبری سنادی
ذوالفقار علی بھٹو نے کرنل رفیع الدین، جو جیل میں سپیشل سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، سے ایک بار کہا (جس کا ذکر کرنل رفیع نے اپنی کتاب ”بھٹو کے آخری 323 دن“ میں بھی کیا ہے) ”کرنل رفیع کیا قادیانی آج کل کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ مَیں کال کوٹھڑی میں پڑا ہوں، وہ مجھے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں“۔ پھر کہنے لگے:  ”مَیں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے“۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟
کرنل رفیع کے بقول دست شناسی ان کا مشغلہ تھا، اس کے لئے بہت سی کتابیں پڑھیں، بے شمار ہاتھ دیکھے، پھر پامسٹری کو پڑھنا اور پریکٹس کرنا چھوڑ دیا لیکن ایک دن ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ کی لکیروں کو بغور دیکھ رہا تھا تو انہوں نے کہا: ”رفیع کیا دیکھ رہے ہو“؟کرنل رفیع نے کہا: ”جناب آپ کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی کافی دراز ہے“۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا: ”بھٹوز ہمیشہ جوانی میں مرتے ہیں“۔ کرنل رفیع نے کہا: ”آپ کا ہاتھ تو اس کے خلاف کہہ رہا ہے“۔ کرنل رفیع کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مجھے اللہ کے انسان کو دئیے گئے اس علم پر بہت شک وشبہ پیدا ہوا، مگر جب ایک دن ایم اے ملک کا یہ بیان پڑھا تو ڈھارس بندھی کہ کچھ  دست شناسوں نے کہا ہے کہ شہید کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر ہمیشہ رہتی ہے، اس کے ہاتھ کی لائف لائن کبھی نہیں ٹوٹتی، کیونکہ وہ مرتا نہیں ہے۔صد افسوس!4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں کئی کالم لکھے گئے،ٹی وی پروگرام ہوئے، حتیٰ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں  کے بیانات بھی جاری ہوئے……لیکن کسی نے بھی شہید ختم نبوت ذوالفقار علی بھٹو کے تاقیامت قائم ودائم رہنے والے اس عظیم کام، یعنی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا ذکر تک کرنا گوارا نہ کیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج