ہم کہاں کھڑے ہیں - سہیل دانش
جمعه 23 اپریل 2021ء
مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی عموماً مایوس ہو جاتے ہوں گے۔ کبھی آپ کو محسوس ہوتا ہو گا کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں۔ کبھی معیشت کی دگرگوں حالات کا رونا سنتے ہیں کبھی بے روزگاری کی مایوسی پھیلتی دکھائی دیتی ہے۔ کہیں مہنگائی نے ہر گھر کے بجٹ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ پورے معاشرے میں تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان نظر آتا ہے کبھی خیال آتا ہے کہ قوموں کی زندگی میں اس سے برے وقت گزرے ہیں جاپان کی مثال لیں۔ یہی جاپان جہاں دو صدی پہلے کشتی بنانے والے کاریگر کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ جاپانیوں پر اٹھارویں صدی تک سمندری سفر اور غیر ملکیوں سے تجارت پر پابندی تھی۔ لیکن آج نہ صرف سب سے زیادہ سائنسدان اور انجینئر جاپان ہی ہیں بلکہ یہ دنیا کی بڑی تجارتی طاقت سمجھا جاتا ہے آپ چین کی مثال لیں دنیا اس چین کو ستر اسی برس پہلے افیونی ریاست پکارتی تھی چین میں بھی سمندر پار تجارت اور ماہی گیری پر پابندی تھی۔ انقلاب کے بعد کی صورتحال بھی کچھ اتنی حوصلہ افزا نہیں تھی کیونکہ مائوزے تنگ نے نہ صرف میاں بیوی کے تعلقات پر پابندی عائد کر دی تھی بلکہ تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے تھے جو برسوں بند رہے۔ لیکن آج یہی چین دنیا کی جدید ترین اقوام کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہے۔ آپ برطانیہ کی مثال لیں اس ملک میں فکری آزادی کا یہ عالم تھا کہ ولیم ٹنڈیل کو بائبل کا ترجمہ کرنے کے جرم میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ سیاسی شعور کی یہ حالت تھی کہ طوائفوں کی سفارش پر سر رابرٹ والیول کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔20ویں صدی کے وسط تک گورے کے ہاتھوں کالے کے قتل کی سزا فقط 13روپے جرمانہ تھا۔1893ء میں اسی’’ صنعتی جن‘‘ کی شرح پیداوار ایک اعشاریہ پانچ فیصد تھی۔ لیکن ہم نے اسی برطانیہ کو سلمان رشدی اور سلیمہ نسرین جیسے شاتموں کی شخصی آزادی کے لئے تڑپتے دیکھا۔ یہی برطانیہ آج دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں کو سیاسی پناہ دے رہا ہے۔ آپ یورپ کی مثال لیجیے اس یورپ کی مثال جس میں 17ویں صدی تک ارسطو اور افلاطون کے نظریات سے اختلاف کی سزا سزائے موت تھی۔ اس سوئٹزر لینڈ کو دیکھئے جسے آج دنیا کی جنت قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کل تک کرائے کے فوجیوں کا کیمپ تھا اس فرانس کو لیجیے آج جس کا جی این پی 52اسلامی ممالک کے مجموعی جی این پی سے زیادہ ہے۔اٹھارویں صدی کی آخری ساعتوں تک شاہ فرانس ننگا ہی دربار میں آ جاتا تھا جبکہ امراء اور وزراء دربار میں پیشا ب کر لیتے تھے۔ پرتگال کو دیکھیے بحری قزاقوں کے اس ملک میں آج بھیا یک ایسی مارکیٹ موجود ہے اس میں چوری کے مال کی خریدوفروخت کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ باقی رہی یورپ کی رواداری تو جتنے چرچ پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک کی جنگ میں جلائے گئے اور جتنے مذہبی رہنما یورپ کی اس ڈارک ایج میں قتل ہوئے ،اس کی مثال دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔آپ امریکہ کی مثال لیجیے غلاموں کی جتنی بڑی تجارت اس ملک نے کی۔اتنا ’’کریڈٹ‘‘ کسی دوسری قوم کو نہیں جاتا۔لیکن آج انسانی حقوق کا تحفظ تو رہا ایک طرف۔ امریکہ کتوں کی خوراک اور ادویات پر 17ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔جی ہاں قوموں کی زندگی میں اس سے برے وقت بھی گزرے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا زوال تو کوئی زوال ہی نہیں۔ ہمارا بحران تو تاریخ کے بحرانوں میں کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ سوچ کر میں ڈر جاتا ہوں کہ جس ملک کی 62فیصد آبادی کا رہنماظالم ان پڑھ اور جاہل جاگیردار ہو گا اس ملک میں بھوک افلاس جہالت اور بیماری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا۔ جس ملک کی کل آبادی کا 12فیصد اس کی 60فیصد قابل کاشت زمین پر پھن پھیلائے بیٹھا ہو گا جس ملک کے 2فیصد جاگیرداروں کے قبضے میں 15فیصد زرخیز زمین ہو گی۔ذرا غور فرمائیے کہ جب پنجاب میں ایک فیصد سے بھی کم‘ لغاری‘ مزاری‘ کھوسے‘ شاہ، مخدوم‘ چودھری‘ ملک‘ ٹوانے اور گیلانی 60فیصد زمین کے مختار کل ہوں گے جس کے سرحد میں 2فیصد آفریدی نواب الائی میر اور باچے 15فیصد زمین کے مالک ہوں گے جس کے بلوچستان کے مری مینگل اور بگتی ایک ایک انچ زمین کے دیوتا ہوں گے اس ملک کے کروڑوں عوام کمی‘ مزارعے اور ہاری نہیں ہوں گے تو کیا ہوں گے۔جس ملک کے 60فیصد چھوٹے کاشتکاروں کے پاس صرف 40فیصد زمین ہو گی جس ملک کے 93فیصد کاشتکاروں میں سے 60فیصد کسانوں کے پاس صرف 15فیصد قابل کاشت زمین ہو گی اس ملک کے عوام امدادی گندم سے پیٹ نہ پالیں تو کیا کریں۔ جس ملک کا سارا نہری پانی بیج کیڑے مار ادویات زرعی آلات اوروسائل جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ہوں جس کے گیلانیوں‘ مخدوموں‘شاہوں ‘ چودھریوں ‘لغاریوں ‘ کھوسوں اور جاموں نے بنکوں کے اربوں روپے ہڑپ کر لئے ہوں۔جب چند خاندانوں نے شکر اور آٹے کی پیداوار اور سپلائی کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا ہو۔ مافیاز دندناتی پھر ر ہے ہوں تو پھر اس ملک میں بیماری بے برکتی اور افسردگی نہیں ہو گی تو کیا ہو گی۔ میری طرح آپ بھی سوچتے ہوں گے یہاں زمین ہے‘ ہوا ہے‘ پانی ہے‘ بیج ہے بونے اور کاٹنے والے ہاتھ ہیں لیکن اس کے باوجود بھوک ہے۔محتاجی ہے کل کیا ہو گا کا سوال ہے جب اللہ کی زمین پر جاگیردار فرعون بن کر قابض ہو گا تو کھیتوں میں بھوک نہیں اُگے گی تو کیا اُگے گا۔ مجھ سے یہ بیزار افسردہ اور پریشان حال نظریں پوچھتی ہیں کہ اللہ نے جو زمین اپنے بندوں کے لئے تخلیق کی اسے چھڑانے کے لئے کوئی موسیٰ آئے گا تو میرا جواب نہیں ہے جو قومیں اپنے سے بدتر‘ بدکردار‘ لوٹ مار کرنے والوں‘ جھوٹ اور فریب کرنے والوں کو اپنا آقا بنا لیں ان کے لئے کوئی موسیٰ نہیں اترا کرتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں