مولانا وحید الدین خان
آصف محمود | ترکش - مولانا وحید الدین خان
| روزنامہ 92 نیوز
’مولانا وحید الدین خان انتقال کر گئے ‘۔ صبح دم واٹس ایپ پر برادر مکرم خورشید ندیم کا پیغام ملا اور دل لہو سے بھر گیا ۔ سوشل میڈیا پر صف بندی دیکھی تو دکھ میں مزید اضافہ ہو گیا ۔ ان لمحوں میں مولانا وحید الدین ہی نے آ کر تھام لیا ۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے بک کارنر جہلم سے برادرم گگن شاہد سے کہہ کر مولانا کی دو کتابیں منگوائی تھیں : اوراق تاریخ اور اسباق تاریخ ۔ یہ دونوں کتابیں اصل میں ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ ’ الرسالہ ‘ میں وتا فوقتا شائع ہوتے رہے اور پھر انہیں کتابی شکل دے دی گئی ۔ ان مضامین کی زبان سادہ اور اسلوب اتنا بے ساختہ ہے کہ جنہیں سنجیدہ فکری مباحث سے کوئی شغف نہیں وہ بھی انہیں پڑھ سکتے ہیں اور فیض یاب ہو سکتے ہیں ۔میں ان کتابوں کے چند مضامین سے وہ اقتباسات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو اس وقت حسب حال ہیں۔
اوراق تاریخ کا ایک مضمون ہے ’ کتنا فرق‘ ۔ اس میں مولانا لکھتے ہیں : ’’ ہمارے اخبارات و رسائل میں جو موضوعات بہت زیادہ رائج ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی شخصیت اپنی عمر پوری کر کے اگلی دنیا کی طرف جاتی ہے تو بڑے جذباتی قسم کے مضامین شائع کیے جاتے ہیں ۔ روشن چراغ بجھ گیا ۔ آفتاب علم غروب ہو گیا ۔ ملت کا چاند دنیا سے چلا گیا وغیرہ ۔ اس قسم کی سرخیاں مرنے والوں کے بعد ہماری صحافت میں اتنی بار شائع ہو چکی ہیں کہ اگر یہ واقعتا صحیح ہوں تو اب تک اتنا زیادہ اندھیرا چھا جانا چاہیے کہ ان سرخیوں کو پڑھنا بھی کسی کے لیے ممکن نہ رہے ۔ ’’ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی‘‘یا اس کے ہم معنی سرخیاں ہمارے اخبارات و جرائد میں عام ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ہر مرنے والا جب صرف ہماری ویرانی اور ہماری تاریکی میں اضافہ کر رہا ہے تو اس کے بعد روشنی کہاں باقی رہے گی‘‘۔
مولانا کا خیال ہے کہ یہ مبالغہ دورزوال میں تشکیل پانے والا رویہ ہے ۔ وہ اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب جب اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کا انتقال ہوا تو ان کے لڑکے ہشام کی زبان سے ایک شعر نکلا کہ ’’ قیس کی موت تنہا ایک شخص کی موت نہیں بلکہ اس کے مرنے سے قوم کی بنیاد منہدم ہو گئی ہے‘‘۔ یہ سن کر عبد الملک بن مروان کے دوسرے بیٹے ولید نے اسے ڈانٹ دیا کہ چپ ہو جا تو شیطان کی زبان بول رہا ہے ۔ پھر اس نے اپنے بھائی کو ایک اور شعر سنایا کہ : ’’ جب ہم میں سے کوئی سردار مرتا ہے تو دوسرا سردار کھڑا ہو جاتا ہے‘‘۔
چنانچہ مولانا کی رائے یہ ہے کہ دور زوال میں جب کوئی مرتا ہے تو اس کے دکھ میں طرح طرح کے مبالغہ آمیز عنوانات کے ساتھ تحریریں لکھی جاتی ہیں اور دور عروج میں جب کوئی مرتا ہے تو دوسروں کو حوصلہ دے کر نئی زندگی عطا کر جاتا ہے۔ دور عروج کی موت سے نہ کوئی چراغ بجھتا ہے نہ کوئی تاریکی بڑھتی ہے۔نہ ملت کا چاند غروب ہوتا ہے اور نہ ہی آفتاب علم دنیا سے چلا جاتا ہے۔
جب کوئی شخص دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ گھڑی خیر خواہی اور کلمہ خیر کہنے کی ہوتی ہے ۔ فکری اختلافات کے دفتر کھول کر بیٹھ جانے کی نہیں ۔ اس کام کے لیے ساری عمر پڑی ہوتی ہے ۔ یہ کام بعد میں بھی ہو سکتا ہے ضروری نہیں ہوتا کہ میت کی تدفین سے پہلے ہی سارے حساب چکتے کر دیے جائیں۔
اس رویے کا ذکر بھی مولانا وحید االدین خان مرحوم نے ایک مضمون میں کیا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ اکبر بادشاہ تو بہت دین دار آدمی تھا پھر کیا ہوا کہ وہ دین سے دور ہو گیا۔
مولانا لکھتے ہیں کہ اکبر بادشاہ شروع میں دین کی طرف بہت مائل تھا ۔ اس نے سات عالم صرف نماز کی امامت کے لیے رکھے ہوئے تھے اور اس کے دربار میں پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا ہوتی تھی ۔ سفر میں بھی ایک خیمہ اس کے ساتھ ہوتا تھا جس میں نماز با جماعت کا اہتمام ہوتا تھا ۔
انہی اماموں میں سے ایک امام ملا عبد القادر بدایونی بھی تھے جو اپنی کتاب ’ منتخب التواریخ‘ میں گواہی دیتے ہیں کہ اکبر ابتدائی دور میں بڑا عبادت گزار اور دین دار بادشاہ تھا۔
پھر کیا ہوا کہ اکبر دین سے دور ہو گیا؟ مولانا نے لکھا ہے اکبر کے دینی ذو ق کی وجہ سے دربار میں علماء جمع ہونے لگے جن سے اکبر دین کے معاملات میں رہنمائی لیتا ۔ اسے علماء کی صحبت بہت پسند تھی ۔ ایک وقت آیا کہ علمی مجالس میں ان علماء کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر گئی ۔ علماء میں اب جھگڑے ہونے لگے اور ایک کے لیے دوسرے کا وجود برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔
پہلا جھگڑا اس پر ہوا کہ نشست گاہ میں بادشاہ کے قریب کون بیٹھا کرے گا ۔علماء کی رقابت یہاں تک بڑھ گئی کہ ایک کسی چیز کو جائز قرار دیتا تو دوسرا اسے حرام کہہ دیتا۔
شاہ عبد القدوس گنگوہی کے پوتے ملا عبد النبی کا اکبر اتنا احترام کرتا تھا کہ ان کے جوتے سیدھے کرتا تھا ۔ مگر ایک وقت آیا ملا عبد النبی صاحب اور ملا عبد اللہ سلطان پوری (مخدوم الملک) میں رقیبانہ کشمکش شروع ہو گئی ۔ ایک نے لکھا دوسرے کے پیچھے نماز نہیں ہوتی کیونکہ اس کو بواسیر ہے ۔ دوسرے نے لکھا تمہیں باپ نے عاق کر دیاہے تمہارے پیچھے بھی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
بدایونی کا کہنا ہے کہ اکبر اپنے علماء کو رازی اور غزالی سے بہتر سمجھتا تھا لیکن جب اس نے ان کا یہ حال دیکھا تو سب سے کنارہ کش ہو گیا۔
آج پھر کم و بیش ایسی ہی صورت حال ہے ۔ ایک طرف مولانا کے انتقال پر وہی سرخیاں جمائی جا رہی ہیں اور وہی عنوانات باندھے جا رہے ہیں جنہیں مولانا دور زوال کی علامت قرار دیتے تھے ۔ دوسری جانب ابھی مولانا کی تدفین نہیں ہوئی اور اہل مذہب تعزیر کا کوڑا ہاتھ میں پکڑے’ تعزیت‘ کو دوڑے چلے آ رہے ہیں۔
خدا اس کی قبر کو منور فرمائے ،مرنے والے نے درست کہا تھا : حسن ظن ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے آدمی کو خود اپنے آپ سے لڑنا پڑتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں