سفید کوے - محمد عامر خاکوانی
سفید کوے
جمعه 23 اپریل 2021ء
کالم کے لئے موضوعات بہت سے ہیں۔ رمضان میں مطالعہ کتب بڑھ جاتا ہے،پچھلے کچھ عرصے میں خوش قسمتی سے کئی نئی اچھی کتابیں پڑھیں، ان پر ان شااللہ بات کرتے رہیںگے۔ مطالعہ قرآن اور تفاسیر کے حوالے سے بھی کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا۔ اگلے روزممتاز سکالر اور دانشور مولانا وحیدالدین خان انتقال کر گئے۔بڑا صدمہ ہوا، ان کے جانے سے علم کی دنیا ادھوری ، بجھی بجھی سی لگنے لگی ۔ مولانا کا شمار عبقری شخصیات میں ہوتا ہے، ان کی ڈیڑھ دو درجن سے زائد کتابیں پڑھنے کا موقعہ ملا، مولانا وحیدالدین خان کی فکر کے کچھ اجزا سے اتفاق ، بعض سے سخت اختلاف ہے۔ مولانا وحیدالدین خان پر سوشل میڈیا میں انتہائی موقف پر مبنی تحریریں آ رہی ہیں۔ وہ ایسی شخصیت تھے جس پر متوازن اور جامع رائے آنی چاہیے۔ اہل علم اس جانب متوجہ ہوں۔ اپنے صحافیانہ کچے پکے انداز میں ہم بھی کچھ عرض کرنے کی کوشش کریں گے۔سردست معروف ادیب، محقق اور خاکہ نگار عرفان جاوید کی کتاب ’’عجائب خانہ ‘‘سے فرصت نہیں مل رہی، بار بار اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کے ایک باب ’’سفید کوے‘‘ سے چند اقتباسات نذر قارئین ہیں۔ عرفان جاوید لکھتے ہیں:’’ عنوان ’سفید کوے‘ جدید لبنانی نژاد امریکی مفکر نسیم نکولس طالب کی کتاب The Black Swan (سیاہ ہنس) سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے۔ جس طرح ہنس یا بطخ کو عمومی طور پر سفید سمجھا جاتا ہے اور مغرب میں اس کی سفید رنگت کی مثال دی جاتی ہے مگر سیاہ رنگ کے ہنس بھی دریافت ہوئے ہیں۔ اسی طرح برصغیر میں سیاہ رنگت کی مثال کوے سے دی جاتی ہے۔ البتہ نہ صرف امریکا، یورپ، افریقہ بلکہ سرگودھا (پاکستان) میں بھی سفید رنگت کے کوے دریافت ہوئے ہیں۔ یوں کوے کے رنگت کا روایتی تصور بدل گیا ہے۔اُردو محاورے میں’’ سفید کوا‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس کا وجود ہی نہ ہو، اب یہ محاورہ بدلنے کی ضرورت ہے۔اس مضمون میں ہم عام مغالطوں پر بات کریں گے،۔ ’’حقائق سے فرار کی مناسبت سے شتر مرغ کے ریت میں سر دینے کی مثال دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شتر مرغ دشمنوں سے بچنے کے لیے کبھی بھی اپنا سر ریت میں نہیں چھپاتے۔ اس بات کا پہلی مرتبہ تذکرہ قریباً دو ہزار برس پہلے رومی فلسفی، مفکر اور جنگجو کمانڈر پلینی (23 تا 79 عیسوی) نے کیا تھا۔ تب سے یہ بات بلا تحقیق اتنے تواتر سے دہرائی گئی ہے کہ اسے حقیقت سمجھ لیا گیا ہے۔ ’’بزرگوں سے ایک روایت چلی آ رہی ہے کہ ایک مقام جہاں ایک مرتبہ آسمانی بجلی گرے وہاں دوبارہ نہیں گرتی۔ عین ممکن ہے کہ بیشتر جگہوں پر ایسا ہی ہوتا ہو مگر دنیا میں بے شمار مقامات اس وجہ سے بھی معروف ہیں کہ وہاں تواتر سے بجلی گرتی رہی ہے۔ نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ پر سالانہ اوسطاً ایک سو مرتبہ بجلی گرتی ہے۔ ’’یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ نارڈِک لوگ پہلی مرتبہ امریکا پہنچے اور انہوں نے امریکا دریافت کیا مگر آج بھی ایک اکثریت اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ کرسٹوفر کولمبس، جس کے سر امریکا کی دریافت کا سہرا رکھا جاتا ہے، نے کبھی بھی سرزمین امریکا پر پیر نہ دھرے تھے۔ وہ جزائر غرب الہند (کریبئین جزائر) کے ساحلوں پر اُترا تھا اور وہیں سے لوٹ گیا تھا۔نیشنل جیوگرافک چینل نے اس پر کئی تحقیقی پروگرام کئے ہیں۔ ’’یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ جدید دور کی دریافت سے پہلے زمین کو چپٹا سمجھا جاتا تھا۔ در حقیقت افلاطون اور ارسطو کے دور کے فلاسفہ سے لے کر بعد کے ادوار تک کے مفکرین زمین کو ’’مدور‘‘یابیضوی سمجھتے آئے تھے۔ اسی طرح مسکراتے بُدھا (مہاتما بدھ) کی شبیہ میں ایک فربہ ہنستے ہوئے شفیق آدمی کو دکھایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اسے ہی مہاتما بدھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ در حقیقت یہ دسویں صدی عیسوی کے ایک داستانوی کردار ’’بدائی‘‘ کی شبیہ ہوتی ہے جو موٹا تازہ گول مٹول خوش مزاج شخص تھا اور بچوں اور بڑوں میں یک ساں مقبول تھا۔ ’’ یہ بھی ایک معروف مغالطہ ہے کہ حضرت عیسیٰ پچیس دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔ در حقیقت قدیم رومی موسمِ سرما کے ان دنوں میں جب سورج خطِ استوا سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتا ہے یعنی سترہ سے پچیس دسمبر کو جشن منایا کرتے تھے کہ اس کے بعد دن بڑے ہونا شروع ہو جاتے تھے۔ جب رومی شہنشاہ کانسٹنٹائن نے چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت قبول کی تو مسیحی کلیسا نے رومی جشن کے انہی دنوں کو علامتی طور پر حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے جشن کے طور پر منانا شروع کر دیا۔ انجیل کے مفسر سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش موسمِ بہار میں ہوئی تھی جب ’’چرواہے اپنے مویشیوں کو چراگاہوں میں چرتے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اس کا موسمِ بہار میں تو امکان ہے مگر سردیوں میں نہیں۔ علاوہ ازیں اس دور کے ستاروں کا جو احوال بیان ہوتا ہے ان کا حساب کر کے ستارہ شناس جاڑوں یعنی سردیوں میں مسیحؑ کی پیدائش کے امکان کو رد کرتے ہیں۔ ’’ایک تاریخی واقعے کو محاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے کہ جب روم جل رہاتو نیر و سارنگی (Fiddle) بجا رہا تھا۔یہ محاورہ کسی شخص کی سفاکی اور سنگ دلی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 64 عیسوی کا ہے جب کہ سارنگی صدیوں بعد ایجاد ہوئی تھی۔ اس روایت کے ڈانڈے رومی تاریخ دان ٹیسی ٹس کے غیر مصدقہ بیان میں ملتے ہیں جس کے مطابق جب روم جل رہا تھا تو اس کا حکم ران نیروگا بجا رہا تھا۔محققین کے مطابق جب نیروکو روم میں آگ لگنے کی اطلاع ملی تو اس نے آگ بجھانے اور لوگوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ ’’ڈارون کا نظریہ تھا کہ انسان بن مانس کی ارتقائی شکل ہے۔ جدید بشریاتی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان اور بن مانس بالکل مختلف مخلوقات ہیں۔ البتہ ان کے آباؤ اجداد ابتدائی شکل میں ملتے جلتے ہو سکتے ہیں مگر یہ جینیاتی اور حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ یوں ڈارون کا فلسفہ کُلّی طور پر درست ثابت نہیں ہوا اور اس میں غلطی کے امکانات خاصے زیادہ ہیں۔ ’’حیاتیاتی طور پر ایک اور مفروضہ باطل ثابت ہو چکا ہے۔جدید فکشن اور فلموں میں انسانوں اور ڈائنو سار کو ایک ہی دور میں دکھایا جاتا ہے۔ انسان اور ڈائنو سار کے قدیم ترین دریافت شدہ ڈھانچوں اور دیگر متعلق اشیا سے ثابت ہو چکا ہے کہ آخری ڈائنو سار اور پہلے ہوموسیپیئن انسان کے درمیان تقریباً چھے کروڑ تیس لاکھ برس کا فاصلہ ہے۔ روایتی ڈائنو سار تو لاکھوں برس پہلے ختم ہو گئے تھے مگر ان کی ایک نسل آج بھی انسانوں کے بیچ موجود ہے، پرندوں کی شکل میں۔ پرندے مختصر وجود اور پروں والے ڈائنو سار ہیں۔ ’’یہ تصور عام ہے کہ جب کوئلہ لاکھوں برس دباؤ اور حرارت کے زیرِ اثر رہتا ہے تو وہ ہیرے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ دنیا میں ننانوے فیصد ہیرے زمین کی انتہائی گہرائی میں شدید گرمی اور دباؤ میں پائے جاتے ہیں جبکہ کوئلہ زمانۂ قدیم سے عموماً زمین کی سطح کے قریب دفن ہو جانے والے پودوں سے بنتا ہے۔ یوں دونوں کی گہرائی میں بہت فاصلہ و فرق ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں قدیم ترین ہیرے قدیم ترین پودوں سے بھی پرانے ہیں۔ یوں ان کے کوئلے سے تخلیق ہونے کی بات درست نہیں۔ ’’تاثر تو ذائقے کا بھی زبان پر آتا ہے۔ اس سے ایک غلط تصور وابستہ چلا آ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنیادی ذائقوں کی تعداد چار ہے جو میٹھا، نمکین، کھٹا اور کڑوا ہے۔ در حقیقت ایک اور بنیادی ذائقہ بھی وجود رکھتا ہے جسے ’’اُمامی‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ منہ میں پانی لانے والا اور گوشت کے ذائقے سے ملتا جلتا ہے۔ یہ شیل مچھلی، مشروم، پکے ہوئے مخصوص ٹماٹروں اور گوشت سے بننے والی خوراکوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ بات معروف ہے کہ موٹروے ہٹلر نے بنائے تھے تا کہ جرمن فوجوں کی آمد و رفت اور اشیا کی ترسیل کے علاوہ اسے جہازوں کے متبادل رن وے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ جرمن موٹرویز (آٹوباہن) کے بہت سے حصوں پر رفتار کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹو باہن ہٹلر کے جرمنی کا حکمران بننے سے دو برس قبل وجود میں آ چکے تھے۔ البتہ اُس کے چانسلر بننے کے بعد ان کی بہتری پر خاصا کام کیا گیا ۔ ’’بیسویں صدی ہی میں ایک بات غلط طورپر معروف ہو گئی کہ ایک عام انسان اپنے دماغ کا اوسطاً دس فیصد حصہ استعمال کرتا ہے۔تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی فکر یا فعل میں پورا انسانی دماغ استعمال میں آتا ہے۔ انسان میں صرف شعور بیدار کرنے کے بنیادی کام کے لیے بھی تمام دماغی اجزا باہمی ربط و ضبط سے کام لیتے ہیں۔ دلچسپ معاملہ تو یہ ہے کہ اس بات کو غلط طور پر آئن سٹائن جیسے شان دار سائنس دان پر بھی غلط طور پر منطبق کر دیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن کے حوالے سے تو یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ریاضی میں کم زور تھا اور اسکول کے ریاضی کے پرچے میں ناکام ہو گیا تھا۔ جب کہ اس نے ٹائم میگزین کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں خود کہا تھا ’’پندرہ برس کی عمر کو پہنچے تک میں احصائے تفرقی (ریاضیاتی کیلکولس) پر مہارت حاصل کر چکا تھا۔‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں