شاہد خاقان عباسی کی اخلاقی گراوٹ - ریاض احمد چودھری
جمعه 23 اپریل 2021ء
اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر نے سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کی جوتا مارنے والی دھمکی کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں خط لکھا جس کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر کے منصب کا تمسخر اڑایا، 7 دن میں معذرت کریں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔مقررہ وقت میں جواب نہ دینے پر تصورہوگا کہ شاہدخاقان عباسی کودفاع میں کچھ نہیں کہنا۔ قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر منعقدہ اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے قرارداد پیش کی ۔ جس پر اپوزیشن نے اس قرارداد کو ناکافی قراردیتے ہوئے احتجاج کیا اور اس میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اپوزیشن نے بغیر معاملہ دیکھے سپیکر کا گھیرائو کر لیا۔اس دوران شاہد خاقان عباسی اور سپیکر کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ شاہد خاقان عباسی نے سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے فلور پر بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر ان کو جوتا مارنے کی دھمکی دی ۔ حکومتی ارکان نے شاہد خاقان عباسی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ۔یہ حقیقت ہے کہ شاہدخاقان نے غیرجمہوری اور غیر اخلاقی رویہ اپنایا ہے۔ ان کے طرزعمل سے اسمبلی کی کارروائی باآسانی چلانے میں خلل پیدا ہوا۔ انہوںنے اسپیکر کے منصب کا تمسخر اڑایا ۔ شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں جو زبان استعمال کی وہ کسی طور پر پارلیمانی کلچر نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے غیر جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا۔ ایوان کا تقدس سب پر لازم ہے۔ انہیں ایسے نازیبا ریمارکس زیب نہیں دیتے۔ کسی عام رکن کی جانب سے بھی سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ ایسے رویے کی توقع نہیں کی جاسکتی اور پھر ایک ایسا شخص جو سابق وزیراعظم رہا ہوں اور موجودہ حالات میں اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھاتے نظر آ رہا ہو ،اس کی جانب سے ایسا رویہ قابل افسوس ہے۔ اس موقع پر اسد قیصر کی جانب سے خاصے تحمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک توہین رسالتؐ کا تعلق ہے تو وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملکی اور غیر ملکیوں پر ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے مغربی باشندے معافی مانگیں۔ توہین رسالتؐ کسی صورت برداشت نہیں۔ مغربی حکومتوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں کسی بھی منفی تبصرے پر پابندی لگائی۔ مغربی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نبیؐ کی توہین کرنے والوں کے لیے یہی معیار اپنائیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پھیلانے والوں کے لیے بھی سزا کا یہی معیار ہونا چاہیے۔ بیرون ملک اسلامو فوبیا اور نسل پرستی میں ملوث انتہا پسند سن لیں حضوراکرم ؐ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ بیرون ملک انتہا پسند ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ مسلمان سب سے زیادہ پیار اور احترام حضور اکرم ؐکا کرتے ہیں۔ ہم توہین برداشت نہیں کریں گے۔ مغرب میں بسنے والے انتہا پسند سیاستدان آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں اخلاقی طور پر اس قدر گر چکے ہیں کہ وہ 1.3 ارب مسلمانوں سے ان کی دل آزاری پر معافی بھی نہیں مانگتے۔ ہم ایسے انتہاپسندوں سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آزادی اظہار کیلئے حدود و قیود کی ضرورت ہے۔ بے لگام آزادی کا مطلب اگر دوسروں کی دل شکنی کی صورت میں نکلتا ہو تو اس کی قطعی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انسانوں کے عقائد اور مذہب کے خلاف گستاخانہ بیانات‘ خاکوں یا کتابوں کی اشاعت کو اظہار رائے کی آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سراسر شرارت اور فساد ہے۔ پیغمبر اسلامؐ کی عظمت کا احترام مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے۔ اس پر وہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرسکتے اس لئے گستاخانہ عبارت ہو‘ خاکے ہوں یا بیان اس پر پوری امت سراپا احتجاج ہے۔ ایسی شرارت میں ملوث افراد یا حکومتوں کیخلاف او آئی سی فوری نوٹس لے۔ عالمی سطح پر تمام انبیاء اور رسولوں کے احترام کا عالمی قانون بنایا جائے تاکہ اس قسم کی شرارتوں اور فتنوں کا سدباب ہوسکے۔ گزشتہ برس اکتوبر کے دوران فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر ٹی ایل پی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔جس پر حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔چنانچہ ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے اور جماعت کے موجودہ سربراہ سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں 12 اپریل کو گرفتار کرلیا تھا۔ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے پرتشدد صورتحال اختیار کرلی تھی۔جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اب حالات قا بو میں ہیں اور ٹی ایل پی کے بیشتر ارکان رہا ہو چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار نے بھی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی کے بارے میں نازیبا ریمارکس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ایسے نازیبا ریمارکس زیب نہیں دیتے۔ ایوان کا تقدس سب پر لازم ہے۔نازک حالات میں اپوزیشن کے انداز سیاست پر صد افسوس ہے۔ حکومت نے ذمہ داری کامظاہرہ کیا اور خوش اسلوبی سے معاملات طے ہوئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں