ہماری اوقات۔۔۔۔21 گرام آکسیجن - سمیع اللہ ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

ہماری اوقات۔۔۔۔21 گرام آکسیجن - سمیع اللہ ملک

ہماری اوقات۔۔۔۔21 گرام آکسیجن - سمیع اللہ ملک
01:06 pm
 10/04/2021
 سمیع اللہ ملک

 اس وقت قوم بالخصوص نوجوان نسل اورحساس افرادبڑے مایوس اوردل شکستہ نظرآتے ہیں لیکن  میں سمجھتاہوں کہ دل کا ٹوٹنا بھلا کوئی آسان بات تھوڑی  ہے؟ کیا یونہی اس کی قیمت چکائی جا سکتی ہے ؟ دل دنیا کی واحد شے ہے جس کی قیمت ٹوٹنے کے بعد کئی گنا بڑھ جاتی ہے، قیمت بڑھ جائے اور ایسی بڑھے کہ آواز آئے ’’انا عِند المنکسِرِ قلوبھم ‘‘کہ ہم ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتے ہیں ۔ کیا اس مقام کو حاصل کرنے والا کوئی للو پنجو ہو سکتا ہے ؟ 
 

 
دل ٹوٹے، کئی حصوں میں تقسیم ہو اور تقسیم شدہ یہ پارچے تخت الہی بن جائیں، کیا یہ یونہی ہو جائے گا؟؟ درد نہ دکھ؟ تکلیف نہ کوفت؟ پیڑ نہ پنچایت؟ غم نہ گھٹن؟ آلام نہ مصائب؟ واہ واہ واہ۔ مقام اور عہدے بھلا یونہی مل جاتے ہیں؟ اور پھر یوں ملے عہدوں کی وقعت ہی کیا؟خواہ مخواہ ملے مرتبے کی حیثیت ہی کیا ؟مل بھی جائے توایسے مقام کی اہمیت ہی کیا ؟ مقام کی وقعت، حیثیت،  اہمیت حتیٰ کہ افادیت کا اندازہ ہوتا ہی نہیں، ہو ہی نہیں سکتا  جب تک کہ درد کی نیلی نیلی آگ میں تپ کر محبت کا مجسمہ عشق کے راستے سے ہوتے ہوئے دل کے ٹوٹنے تک کی منزل پر نہ پہنچ جائے ۔ دل ٹوٹنا ضروری ہے، لازمی ہے، ناگزیر ہے، کہ ٹوٹے دل ہی میں تو ’’ اناعِندالمنکسِرِ قلوبھم ‘‘کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، تخت لگتا ہے، بادشاہ بیٹھتا ہے، فیصلے ہوتے ہیں،کتنوں کی قسمتوں کے فیصلے، مقدر کے فیصلے۔ لہذا دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹنے دیجیے، ہنستے مسکراتے ٹوٹنے دیجیے۔ ٹوٹا ہوا دل جوڑنا سکھا دے گا  اور جس دن آپ کو جوڑنا آگیا نہ تو کچھ ایسا نہیں رہے گا جو آپ نہ کر سکیں ، ٹوٹنے دیجیے دل،  ٹوٹنے دیجیے۔
تاہم اس قیامت کاذکرکرنابھی ازحدضروری ہے کہ ہماری موجودہ حکومت نے پہلے 100دنوں میں آئی ایم ایف کے منہ پر200ارب ڈالرمنہ پرمارنے کادعویٰ کیاتھالیکن اب تو9مارچ کواپنی کابینہ سے نیاترمیمی ایکٹ 2021برائے سٹیٹ بینک پاس کرکے ساراسٹیٹ بینک ہی آئی ایم ایف کے منہ پرماردیاہے۔ اس حکومت نے ملک میں سائنسی ، علمی ، زرعی اوردیگرعلوم کی ترویج کے لئے کام کرنے کاوعدہ کیاتھالیکن کیا 23 مارچ کوتقسیم ہونے والے ایوارڈ میں ان ترجیحات کومدنظر رکھا گیا ۔کیاکوئی ایک ایوارڈبھی علمی، سائنسی ،زرعی یادیگرکسی ادارے کے لئے کام کرنے والے کسی ریسرچ اسکالرکوملاہے؟
صدرِ پاکستان نے ریشم کو اچھا ناچنے گانے پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا ہے۔ اسی طرح درجن سے زائدڈوم میراثی افرادمیں ایوارڈ تقسیم کرکے قومی ایوارڈوں کی بے توقیری کردی گئی ہے۔یاد رہے میرے کپتان نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاست مدینہ بناؤں گا۔ انہوں نے مولاناطارق جمیل کویہ ایوارڈ دے کرمدینہ کادامن نہیں چھوڑا ۔ مولاناطارق جمیل کاکم ازکم یہ فائدہ توضرورہے کہ ایوان اقتدارمیں لاہوری قادیانی شوکت عزیزہو، فاسق کمانڈوپرویزمشرف یا عمران خان ،یہ سب کوتبلیغ کے نام پرسلام کرنے ضرور تشریف لے جاتے ہیں اورجب ملاقات کے بعد ایوان اقتدرا سے باہرتشریف لاتے ہیں تو انہیں اسلام اورپاکستان کے سچے خادم کا سرٹیفکیٹ دینااپنافرض منصبی سمجھتے ہیں ۔  
تاریخ کے پروفیسر محترم محمدحسین عالم  نے ایک پیغام ارسال کیاہے جس نے میرے دل کوچھولیاہے۔ لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابراہام نے انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کے لئے نزع کے شکار لوگوں پر پانچ سال میں بارہ سو تجربے کیے۔اس سلسلے میںاس نے شیشے کے باکس کا ایک انتہائی حساس ترازو بنایا، وہ مریض کو اس ترازو پر لٹاتا، مریض کی پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتا، ان کے جسم کا وزن کرتا ہے اور اس کے مرنے کا انتظار کرتا ،مرنے کے فوراً بعد اس کا وزن نوٹ کرتا ۔ ڈاکٹر ابراہام نے سینکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیاکہ انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے۔ انسانی روح اس 21گرام آکسیجن کانام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں، کھدروں، درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے، موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مر جاتے ہیں اور انسان فوت ہو جاتا ہے ۔ 
ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ 21گرام کتنے ہوتے ہیں؟21گرام مکئی کے 14چھوٹے سے دانے ہوتے ہیں ، ایک ٹماٹر ،پیاز کی ایک پرت، ریت کی 6 چٹکیاں اور پانچ ٹشو پیپر ہوتے ہیں۔یہ ہے مجھ سمیت سب انسانوں کی اوقات! لیکن ہم بھی کیا لوگ ہیں ہم 21گرام کے انسان خود کو کھربوں ٹن وزنی کائنات کا خدا سمجھتے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر روح کا وزن 21گرام ہے تو ان 21گراموں میں ہماری خواہشوں کا وزن کتنا ہے؟اس میں ہماری نفرتیں، لالچ، ہیراپھیری، چالاکی، سازشیں، ہماری گردن کی اکڑ، ہمارے لہجے کے غرور کا وزن کتنا ہے؟یہ21گرام کاانسان جوخود کو 21 گرام کے کروڑوں انسانوں کا حاکم سمجھتا ہے وقت کو اپنا غلام اور زمانے کو اپنا ملازم سمجھتاہے اور یہ بھول جاتاہے بس ذرا سی تپش، بس ذرا سی ایک ہچکی ہمارے اختیار ہمارے اقتدار ہماری اکڑ، غرور اور چالاکی کی موم کو پگھلا دے گی اور جب یہ 21 گرام ہوا ہمارے جسم سے باہر نکل جائے گی تو ہم تاریخ کی سلوں تلے دفن ہوجائیں گے اور 21گرام کا کوئی دوسرا انسان ہماری جگہ لے لے گا۔ہائے یہ انسان مڑکراپنی ہی کمرکاتل تودیکھ نہیں سکتااوردعویٰ  کرتاہے کہ میں زمین پرچلنے والے ہرکیڑے کودیکھنے کی صلاحیت رکھتاہوں۔یہ ہے ہماری اوقات ــــ۔۔۔یا اللہ ہمیں معاف فرمادے!آمین.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج